"JDC" (space) message & send to 7575

پاک افغان تعلقات میں تنائو

حال ہی میں پاک افغان سرحد پر جھڑپ اس وقت ہوئی جب پاکستانی جوان اپنی پوسٹ کا دروازہ نصب کررہے تھے۔ کابل میں پاکستان کے خلاف جلوس نکالا گیا۔ صدر کرزئی نے پریس کانفرنس میں طالبان سے اپیل کی کہ اپنی بندوقوں کا رخ افغانستان کے اصلی دشمن کی طرف موڑ دیں۔ یہ وہی حامد کرزئی ہیں جو ماضی قریب میں پاکستان کو افغانستان کا جڑواں بھائی کہتے تھے‘ اب موصوف کو ڈیورنڈ لائن پر مذاکرات یاد آگئے ہیں۔ اس کالم کا مقصد ان وجوہات کی تلاش ہے جن کی وجہ سے تعلقات میں کھچائو آیا ہے۔ افغان بارڈر فورس جس نے دروازے کی تنصیب روکنے کی کوشش کی‘ اس کا خیال تھا کہ دروازہ افغانی زمین پر لگایا جارہا ہے۔ میرے لیے یہ بات حیران کن اس لیے نہ تھی کہ ڈیورنڈ لائن پاک بھارت سرحد کی طرح واضح نہیں ہے اور کئی جگہ بستیوں میں سے گزرتی ہے یعنی آدھا گائوں افغانستان میں ہے اور آدھا پاکستان میں اور پھر ہمارے ہاں دیہات میں اکثر بھائیوں کے درمیان اس بات پر اختلاف ہوجاتا ہے کہ ایک کی زمین کہاں شروع ہوتی ہے اور دوسرے کی کہاں ختم۔ کرزئی صاحب کی حکومت اب چند ماہ کی مہمان ہے۔ وہ اپنے مستقبل سے خائف نظر آتے ہیں۔ پاکستان کا ردعمل اس سرحدی جھڑپ کے بعد صبر و تحمل سے بھرپور نظر آیا جو قابل ستائش ہے۔ ہماری وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ڈیورنڈ لائن طے شدہ معاملہ ہے۔ ہمیں صرف حل طلب مسائل پر بات کرنی چاہیے۔ اب پاکستان کی امن کے لیے سنجیدگی اس بات سے عیاں ہے کہ چند ماہ پہلے جب کابل سے درخواست آئی کہ امن مذاکرات کے لیے کچھ افغان قیدیوں کو رہا کر دیا جائے جو پاکستان کی جیلوں میں ہیں تو ہماری حکومت نے اس درخواست کو قبول کیا اور کئی طالبان لیڈر رہا کر دیئے۔ دوسری طرف جب کابل سے کہا گیا کہ مولوی فضل اللہ اور مولوی فقیر کو پاکستان کے حوالے کیا جائے تو کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ صدر کرزئی پیچیدہ شخصیت کے مالک ہیں۔ ایک دن ایک بات کرتے ہیں دوسرے دن کچھ اور۔ وہ اور ان کا خاندان کرپشن کے لیے مشہور ہیں اور حال ہی ایک امریکی جریدے نے انکشاف کیا ہے کہ سی آئی اے انہیں تھیلوں اور بریف کیسوں میںڈالر بھر کر دیتی رہی ہے۔ موصوف نے امریکی سیاسی اورمالی امداد کے بل بوتے پر حکومت کی ہے۔ میں 2004ء میں کابل گیا تو پتہ چلا کہ صدارتی رہائش گاہ کے اندر سکیورٹی کے فرائض امریکیوں کے پاس ہیں۔ کابل میں یہ لطیفہ مشہور تھا کہ امریکی گارڈ کرزئی صاحب کے بیڈروم میں بھی پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ کرزئی صاحب کو ایک خوف تو یہ ہے کہ 2014ء میں ان کا مقام شاہ شجاع والا نہ ہو جسے آج بھی افغان برملا انگریزوں کے پٹھو کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ صدر کرزئی نے اعلیٰ تعلیم ہندوستان میں پائی۔ روسی فوجوں کے حملہ کے بعد کئی سال کوئٹہ میں رہے یہاں ان کے والد قتل ہوئے۔ اگرچہ اس افسوسناک واقعہ میں پاکستانی حکومت کاکوئی عمل دخل نہ تھا لیکن اس واقعے نے حامد کرزئی کے ذہن میں شکوک ضرور ڈال دیئے۔ ان کی فیملی کا امریکہ میں کابلی طرز کے ریسٹورنٹ کا بزنس ہے۔ پچھلے صدارتی انتخاب میں کرزئی نے خوب دھاندلی کی۔امریکی اس پر بات پر خوش نہ تھے انہیں علم تھا کہ کرزئی کی عزت افغانستان میں مسلسل سکڑ رہی ہے لیکن امریکیوں کو کرزئی کو برداشت کرنا پڑا اور پھر ان پر ان گنت ڈالروں کی سرمایہ کاری بھی ہوچکی تھی۔ اپنی آزادی ثابت کرنے کے لیے پچھلے سال صدر کرزئی نے طالبان سے دوستی کرنے کی کوشش کی اورامریکہ مخالف بیان بھی دیناشروع کیے۔ وہ چاہتے تھے کہ طالبان امریکہ کی بجائے کابل حکومت سے مذاکرات کریں۔ طالبان کو یہ بات قطعاً قابل قبول نہ تھی۔ وہ صرف امریکیوں سے بات کرنے پر رضا مند تھے اور وہ بھی چند شرائط کے ساتھ۔ انہیں کرزئی پر اعتماد نہ تھا اور یہ بات بھی صاف ظاہر تھی کہ کرزئی کا وقت اختتام کے قریب ہے اور 2014ء کے بعد کابل میں آنے والی حکومت نہ جانے کیا شکل اختیار کرے۔ جب طالبان نے کابل حکومت سے مذاکرات کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی تو صدر کرزئی واپس اپنے اصلی دوستوں یعنی شمالی اتحاد کی طرف لوٹے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پشتون غیرت مند لوگ ہیں۔ افغانستان کے صدر کا پشتون ہونا سیاسی طور پر ایک ضرورت بن گیا ہے۔ اب امریکیوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے صدر کرزئی سے بہتر پشتون نہیں ملا۔ طالبان کو خوش کرنے کے لیے پچھلے سال جب افغان صدر نے امریکہ مخالف بیان دینے شروع کیے تو واشنگٹن میں تشویش کی لہر دوڑ گئی لیکن بوجوہ امریکی صدر کرزئی کو ہٹا نہ سکے۔ امریکی فوجوں کے انخلاء کا وقت قریب آرہا ہے لہٰذا اس حساس وقت میں واشنگٹن کے لیے صدر کرزئی کی کشتی کو ہچکولے دینا مناسب نہ تھا۔ چنانچہ بگرام جیل کا انتظام کابل حکومت کو دے کر اسے خوش کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی افغانستان کی دلدل میںپھنس گئے ہیں۔ اب نیو یارک ٹائمز میں سی آئی اے کے ڈالروں کے حوالے سے جو خبر لگائی گئی ہے اس میں اوباما حکومت کی آشیر باد شامل نظر آتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ باقی ماندہ چند ماہ کے لیے صدر کرزئی کے پر کاٹ دیئے جائیں۔ اب جو شخص اپنے آقا یعنی امریکہ کے ساتھ مخلص نہیں اس سے پاکستان کو زیادہ امیدیں وابستہ نہیں رکھنی چاہئیں۔ پاکستان پر اکثر یہ الزام لگتا آیا ہے کہ وہ افغانستان کے پشتون دھڑوں کی حمایت کرتا آیا ہے۔ یہ الزام کافی حد تک غلط ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ صدر برہان الدین ربانی مرحوم کو اقتدار میں لانے میں پاکستان کا کردار تھا اور وہ تاجک تھے۔ موثوقہ اطلاعات کے مطابق پاکستان نے پچھلے ایک سال میں شمالی اتحاد کے ساتھ دوستی کی کوششیں کی ہیں اور نتائج خاصے حوصلہ افزا تھے لیکن صدر کرزئی ان کوششوں کو مسلسل شک کی نظر سے دیکھتے رہے۔ کابل کے ساتھ تنائو کی کیفیت میں ہندوستان کے کردار کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ ہندوستان کے لیے کابل سے دوستی اسے پاکستان کو پریشان رکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ہندوستان کے لیے پاکستان کی مغربی سرحد پر تنائو بہت اچھی چیز ہے کہ اس سے پاکستان کی توجہ بٹی رہے گی۔ دوسرے‘ ہندوستان کی حکمت عملی یہ بھی ہے کہ پاکستان کا دفاعی خرچ کسی طور پر کم نہ ہونے پائے تاکہ اس کی معیشت مضبوط نہ ہوسکے۔ نئی دہلی نے افغانستان میں بڑی عقلمندی سے سرمایہ کاری کی ہے۔ حامد کرزئی کی طرح سینکڑوں افغان ہندوستان سے تعلیم یافتہ ہیں۔ 2004ء میں مجھے کابل کی سڑکوں پر ٹاٹا TATA کی بسیں نظر آئیں جو ہندوستانی حکومت نے بطور تحفہ عنایت کی تھیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2011ء میں کابل اور نئی دہلی کے مابین باہمی سٹرٹیجک تعاون کا معاہدہ ہوا تھا۔ پاکستان کی خواہش تھی کہ اس قسم کا معاہدہ ہمارے ساتھ بھی ہو لیکن حامد کرزئی اور شمالی اتحاد والوں نے ابھی تک اس طرف پیش رفت نہیں ہونے دی۔ الٹا پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ افغان بھارت دوستی پر ویٹو کا حق استعمال کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن اور استحکام چاہتا ہے۔ ایک غیر مستحکم اور غریب افغانستان تجارت کے حوالے سے بھی مناسب نہیں ہوگا۔ پورے خطے میں امن اور استحکام کے لیے کابل اور اسلام آباد کے درمیان تعاون ناگزیر ہے۔ ورنہ یہاں شدت پسندی کا اژدہا پھنکارتا رہے گا۔ خدا کرے کہ اپریل 2014ء میں کابل میں آنے والی نئی حکومت تاجک پشتون مفاہمت کی طرف چلے۔ اسلام آباد کی طرف دوستی اور تعاون کا مخلصانہ ہاتھ بڑھائے۔ افغانستان کو مکمل غیر جانبدار ملک بنایا جائے اور تمام ہمسائے اس کی غیرجانبداری کا احترام کریں۔ اسی میں افغانستان سمیت خطے کے تمام ملکوں کا فائدہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں