"JDC" (space) message & send to 7575

تابحد کا شغر

چین کا سفر میری دیرینہ خواہش تھی۔ یہ ملک قدیم تہذیب کا امین ہے۔ علم ودانش کا گہوارہ رہا ہے۔ مشہور حدیث نبویؐ اس بات کی واضح دلیل ہے۔ چنانچہ چائنا پیپلز انسٹیٹیوٹ آف فارن افیئرز کی طرف سے چین آنے کی دعوت ہمارے وفد کے لیے باعث مسرت تھی ۔ وفد میں پانچ سابق سفیروں کے علاوہ دوایسے بزنس مین بھی تھے جو سنکیانگ کے ساتھ تجارت کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور مجوزہ معاشی شاہراہ Economic Corridorجو گوادر سے لے کر کاشغرتک جائے گی ایک ایسا منصوبہ ہے جو ہمارے لیے بھی بے حدمفید ہوگا۔ چنانچہ جب پتہ چلا کہ وفد کے پروگرام میں ارمچی اور کاشغر بھی شامل ہوں گے تو خوشی دوبالا ہوگئی۔ بیجنگ سے مرکزی حکومت کی طرف سے سنکیانگ صوبے کے ارباب اختیار کو ہدایات دی گئیں کہ اس وفد کو وہ تمام سہولتیں دی جائیں جوکہ سرکاری وفود کو دی جاتی ہیں۔ چنانچہ وزارت خارجہ کے پروٹوکول کا نمائندہ مسٹر کائی CAIارمچی اور سنکیانگ میں ہمارے ساتھ رہا۔ ارمچی سنکیانگ کا دارالحکومت ہے یہاں پارٹی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے شاندار عشائیہ دیا اور اگلے روز بلدیہ کے میئر نے بہت ہی پرتکلف لنچ ترتیب دیا۔ سرکاری چینی دعوت کے کورس جب شروع ہوتے ہیں تو ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ لیکن چینی چونکہ گھی یا تیل کا استعمال برائے نام کرتے ہیں اور کھانے کے ساتھ ٹھنڈا پانی نہیں پیتے لہٰذا آپ جتنا مرضی کھالیں فوراً ہی ہضم ہوجاتا ہے۔ چین میں شراب نوشی پر پابندی نہیں، سرکاری دعوتوں میں اچھی سے اچھی نبیذ Wineپیش کی جاتی ہے۔ درمیان میں مشہور چینی شراب موتائی Motaiتھوڑی تھوڑی مقدار میں دی جاتی ہے کیونکہ یہ بہت نشہ آور ہوتی ہے۔ کھانے کے درمیان میزبان‘ مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے چند دوستانہ جملے بولتا ہے اور اپنے پیمانے کو اٹھا کر وفد کے لیے ٹوسٹ Toastتجویز کرتا ہے۔ ہمارے دورے کے دوران پانچ سرکاری کھانے ہوئے اور اکثر ٹوسٹ پاک چین دوستی کے حوالے سے تجویز کیے گئے۔ ارمچی کے میئر کے لنچ میں شراب پیش نہیں کی گئی اور میزبان نے شروع ہی میں وضاحت کردی کہ دن کا وقت چونکہ کام کرنے کے لیے ہوتا ہے لہٰذا ہم لنچ پر شراب نہیں پیتے۔ اب آپ یہ بھی نہ سمجھیں کہ پاکستانی وفود کا ہرممبر مفت کی شراب ضرب المثل والے قاضی صاحب کی طرح حلال سمجھ کر پی جاتا ہوگا۔ ہمارے بہت سے لوگ باہر جاکر بھی بنتِ عِنب کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے۔ دوران سفر ایک ساتھی نے قصہ سنایا کہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کا زمانہ تھا۔ ایک پاکستانی فوجی وفد چین گیا۔ وفدکو حکم تھا کہ شراب کو کوئی بھی ہاتھ نہ لگائے۔ چنانچہ سرکاری دعوت میں شراب آگئی اور پاکستانی وفد کے لیڈر نے کہا کہ ہم تو شراب نہیں پی سکتے۔ چنانچہ چینی میزبان اسے ایک طرف لے گئے اور کہا کہ انگور کی بیٹی کی چند بوتلیں انہیں اس کھانے کے لیے سرکاری طورپر ایشو ہوچکی ہیں جو واپس نہیں ہوسکتیں‘ دوسرے چین میں ٹوسٹ تجویز کیے بغیر سرکاری دعوت کا تصور ہی نہیں۔ فیصلہ یہ ہوا کہ پاکستانی وفد پانی یا سیب کے جوس سے ٹوسٹ تجویز کردے لیکن چینی بھائیوں کا مزاخراب نہ کرے۔ ہمارے صوبہ بلوچستان کی طرح سنکیانگ بہت وسیع وعریض ہے لیکن کل آبادی صرف چالیس لاکھ ہے اور ان میں اب بھی اوغہار Ugharمسلمانوں کی اکثریت ہے۔ میرے ایک قریبی دوست جوکہ گوجربرادری سے تعلق رکھتے ہیں ایک عرصے سے مصر تھے کہ Ugharاور گوجر ایک ہی نسل کے لوگ ہیں۔ کہنے لگے کہ کاشغر جاکر اس بات کی تحقیق ضرور کرنا۔ وہاں جاکر جومعلومات ملیں ان سے یہ پتہ چلتا ہے میرے دوست کا خیال صحیح نہیں کیونکہ اوغہار ترکی نسل کے لوگ ہیں اور ان کی زبان بھی ترکی سے مشابہت رکھتی ہے جبکہ گوجر قبیلہ آریائی نسل سے تعلق رکھتا ہے اور گوجری زبان انڈویورپین زبانوں کی فیملی سے منسلک ہے۔ اس فیملی کی دوسری زبانیں جرمن فارسی اردو پنجابی، سنسکرت اور پشتو وغیرہ ہیں۔ کاشغر میں ہم یوسف خواجہ ؒ کے قبرستان گئے۔ مقامی گائیڈ کے کہنے کے مطابق کاشغر کے علاقہ میں خواجہ اور سید ایک دوسرے کے نعم البدل ہیں۔ یوسف خواجہ نقشبندی ؒ سترہویں صدی میں اس علاقہ میں اسلام کی اشاعت کے لیے مشرق وسطیٰ سے آئے اور پھر یہیں کے ہورہے۔ ان کے فرزند حضرت آفاق خواجہؒ اپنے والد سے بھی زیادہ مشہور ہوئے۔ انہوں نے اس علاقہ میں تبلیغ بھی کی اور حکومت بھی ان کا اصل نام ہدایت اللہ تھا لیکن آفاق خواجہ کے نام سے معروف ہوئے۔ اس خاندان کی تین چار پشتیں ایک ہی چھت کے نیچے دفن ہیں۔ ایک بہت بڑے ہال کے اندر ستر سے زیادہ قبریں ہیں۔ قبرستان کے نواح میں دومساجد ہیں۔ ان میں سے ایک سطح زمین میں نیچی یعنی تہ خانے میں ہے اور صرف موسم سرما میں استعمال ہوتی ہے۔ اس سارے کمپلیکس کے مدخل پرایرانی ٹائلوں کا خوبصورت کام ہے۔ چونکہ شاہرہ ریشم پرسینکڑوں اونٹوں کے تجارتی کارواں چین سے یورپ ریشمی کپڑا لے جاتے تھے، لہٰذا واپسی پر وہ ایران اور ترکی سے تجارتی سامان لاتے تھے اور اب پھر چند ہی سالوں میں کاشغر بہت بڑا علاقائی تجارت کا مرکز بننے جارہا ہے۔ حضرت یوسف خواجہؒ کے قبرستان سے ہم عوامی دست کاری کے بازار میں گئے۔ وہی پشاور والا تانبے کا کام‘ وہی وزیرآباد جیسے تیز فولادی چاقو‘ یہ بازا ر عیدگاہ مسجد پر ختم ہوتا ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ یہاں صرف عید کی نماز ہوتی ہوگی لیکن پتہ چلا کہ اس جگہ بہت بڑا میلہ لگاکرتا تھا اوغہار لوگ ناچنے اور گانے کے شوقین ایک زمانے سے ہیں اور ان کے ہاں عیدگاہ خوشیاں منانے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ اسی جگہ جب مسجد بن گئی تو اس کا نام عید گاہ مسجد پڑگیا گوکہ یہاں پانچوں نمازیں ہوتی ہیں۔ عیدگاہ مسجد کے پاس برقعہ پوش خواتین بھی نظر آئیں۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ سنکیانگ کی تیز ترقی کے دواہداف ہیں۔ اول یہ کہ اس خطے کا احساس محرومی ختم کیا جائے اور دوم یہ کہ یہاں ہُن نسل کے چینی باشندوں کو آباد کیا جائے۔ ہُن چینی بہت ہی محنتی اورترقی پسند لوگ ہیں۔ چین میں شاندار صفائی کے علاوہ جوبات مجھے اچھی لگی وہ ٹریفک کا ڈسپلن ہے شہروں میں بڑی سڑک کے تین حصے ہوتے ہیں سب سے بڑا حصہ کاروں کے لیے پھر سروس لین موٹرسائیکلوں کے لیے اور فٹ پاتھ پیدل لوگوں کے لیے۔ چونکہ اوپر چینی بھائیوں کی شراب نوشی کا ذکر آیا ہے لہٰذا میں یہ وضاحت کرتا جائوں کہ تمام دعوتوں میں‘ میں نے کسی کو نشے کی حالت میں نہیں دیکھا۔ چینی بڑے سلیقے سے مگر آہستہ آہستہ پیتے ہیں اور چونکہ ٹوسٹ تجویز کرنے کے لیے ہوش مند ہونا ضروری ہے اس لیے ایک حدسے تجاوز نہیں کرتے۔ بہت عرصے سے سن رکھا تھا کہ چینی بے حد مہمان نواز ہیں اس دفعہ اس کا عملی مظاہرہ بھی دیکھ لیا۔ وہاں پاکستان کے لیے خیرسگالی کے جذبات ہیں لیکن ہمارے حالات کی وجہ سے پاکستان سے آنے والے اور جانے والے لوگوں کو سکیورٹی والے بہت دقیق نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگرچہ چینیوں کو اس بات پر مکمل اطمینان ہے کہ انتہا پسندی کے مقابلے میں پاکستان تعاون کررہا ہے۔ اب چین نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ قوم میں خاصی خوداعتمادی آگئی ہے۔ نئی نسل تیزی سے انگریزی سیکھ رہی ہے۔ تمام پرائمری سکولوں میں چینی‘ انگریزی اور ریاضی لازمی مضمون ہیں۔ چین کی موجودہ نوجوان نسل Single Child Policy (ایک ہی بچہ) سے عبارت ہے لیکن ابھی حال ہی میں یہ اجازت ملی ہے کہ اگر میاں بیوی دونوں اکلوتی اولاد ہوں تو وہ دو بچے پیدا کرسکتے ہیں۔ میں نے اپنی میزبان دوشیزہ مس ربن جیا سے پوچھا کہ کیا تم بھی اکلوتی اولاد ہو؟ اس نے ہاں میں جواب دیا اور ساتھ ہی شرما کر کہنے لگی کہ میں اب اکلوتے لڑکے سے شادی کروں گی‘ تاکہ ہم دو بچے پیدا کرسکیں۔ ایک بچے والی پالیسی کا یہ نقصان ہوا ہے کہ ان بچوں کا کوئی کزن نہیں اور ان کے بچوں کی نہ کوئی خالہ ہوگی اور نہ ماموں نہ چچا نہ پھوپھی۔ لیکن یہ کیسی قوم ہے انہیں حکومت کا جو حکم ملتا ہے وہ اس پر سوفیصد عمل کرتے ہیں۔ ایسی قوم کو ترقی سے کون روک سکتا ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں