"JDC" (space) message & send to 7575

یوگو سلاویہ اور پاکستان

عصر حاضر میں چار ممالک شکست و ریخت کا شکار ہوئے‘ اُن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ہمارے علاوہ سوویت یونین‘ یوگو سلاویہ اور چیکو سلاواکیہ ایسے ہی عمل سے گزرے ہیں۔سوویت یونین کے بطن سے دس سے زیادہ ملکوں نے جنم لیا۔یوگو سلاویہ کے سات حصے ہو گئے۔ تقسیم کا عمل عام طور پر قوموں کے لیے تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ اگر عصر حاضر میں ہم 1947ء تک چلے جائیں تو تقسیم ہونے والے ملک بشمول ہندوستان پانچ ہو جاتے ہیں۔
یوگو سلاویہ 1922ء میں پانچ ریاستوں اور دو صوبوں کے انضمام سے معرض وجود میں آیا۔شروع میں یہاں بادشاہت تھی لیکن انقلاب روس کی وجہ سے اشتراکی سوچ نشوونما پانے لگی۔بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔یوگو سلاویہ کئی ایک قومیتوں پر مشتمل تھا۔بوسنیا اور کوسوو (Kosovo) میں مسلمانوں کی بڑی تعداد تھی۔باقی ملک میں عیسائی اکثریت میں تھے تینوں بڑے چرچ یعنی کیتھولک پروٹسٹنٹ اور آرتھوڈرکس یہاں موجود تھے۔سربیا سب سے بڑی ریاست تھی۔1948ء میں یوگوسلاویہ نے اعلان کیا کہ ہم سوشلسٹ ضرور ہیں لیکن روس کے زیر اثر نہیں۔ 1960ء کی دہائی میں یوگو سلاویہ غیر جانبدار تحریک کے لیڈر کی حیثیت سے ابھرا۔ صدر ٹیٹو‘ وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور صدر جمال عبدالناصر اس انٹرنیشنل دھڑے کے سرخیل تھے۔ سرد جنگ کے تناظر میں غیر جانبدار گروپ بین الاقوامی سیاست میں خاصا اہم تھا۔
سابق یوگو سلاویہ کا ایک حصہ لمبے عرصے تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا۔ جبکہ شمال مغربی حصہ آسٹریا اور ہنگری کی سلطنت کے تابع تھا۔دونوں سلطنتوں کی سرحدیں بلغراد کے پاس ملتی تھیں۔ یوگو سلاویہ کا زیادہ حصہ پہاڑی ہے لیکن اس کی پہاڑیاں خوبصورت اور سرسبز ہیں۔ بلغراد کا شہر دو دریائوں یعنی ڈینوب Danubeاور ساوا Savaکے سنگھم پر واقع ہے۔ میں نے دریائے ڈینوب میں کشتی کے سفر کا لطف اٹھایا ہے۔سردیوں میں یہاں خوب برف پڑتی ہے۔
2001ء کی بات ہے ۔میں یونان میں سفیر تھا اور حکومت پاکستان نے مجھے بلغراد میں غیر مقیم سفیر کے طور پر اضافی چارج دینے کا فیصلہ کیا۔لہٰذا سرکاری ڈیوٹی کے سلسلہ میں مجھے متعدد بار بلغراد جانے کا موقع ملا۔یاد رہے کہ جس زمانے میں یوگو سلاویہ میں خانہ جنگی کا عالم تھا اور بوسنیا کے مسلمان مظالم کا شکار تھے تو حکومت پاکستان نے احتجاج کے طور پر بلغراد سے اپنے سفیر کو واپس بُلا لیا تھا۔ جب حالات قدرے بہتر ہوئے تو پاکستان نے ناظم الامور کی سطح پر سفارتی تعلقات بحال کئے ۔فارن سروس کے ایک قابل افسر ارشد سعود کھوسہ کو بطور ناظم الامور وہاں بھیجا گیا۔چند سال قبل سفارتی تعلقات مکمل طور پر بحال ہوئے۔ اب بلغراد میں ہمہ وقتی پاکستانی سفیر ہیں جو وہیں رہتے ہیں لیکن بلغراد اب صرف سربیا کا دارالحکومت ہے۔صوبوں کی علیحدگی کا یہ سفر 1991ء میں شروع ہوا اور کوسوو کی آزادی یعنی 2008ء تک جاری رہا۔
مجھے 2001ء میں سفارتی اسناد پیش کرنے والی تقریب مختلف وجوہ سے ہمیشہ یاد رہے گی۔بلغرادکو برف کی چادر نے ڈھانپا ہوا تھا۔ میں انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل میں مقیم تھا۔چیف آف پروٹوکول وقت مقررہ پر مجھے لینے کے لیے ہوٹل آئے۔وہ ایک پرانی مگر شاندار مرسڈیز بس کار میں آئے تھے۔گاڑی کے آگے پیچھے موٹر سائیکل سوار تھے۔یوگو سلاویہ کے صدر ان دنوں Kostunica تھے۔ جنہوں نے جمہوری زور پر ملاسووچ(Milosevic)کو نکالا تھااور اس حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہوئے تھے۔چیف آف پروٹوکول نے مجھے راستہ میں بتایا کہ یہ مرسڈیز کار صدر ٹیٹو کے تصرف میں رہی۔ کار سے اترے تو فوج کا چاق و چوبند دستہ گارڈ آف آنر کے لیے تیار تھا۔گورے چٹے اور سرو قد فوجی مجھے آج بھی یاد ہیں کوئی جوان بھی چھ فٹ سے کم نہ تھا۔اعزازی گارڈ کی قیادت کرنے والا افسر میرے آگے آگے تلوار اٹھائے چل رہا تھا اور اس کے قدم بہت نپے تلے تھے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 1999ء میں یوگو سلاویہ پر نیٹو نے فضا سے حملے کیے جو کئی ہفتے جاری رہے۔امریکہ نے اپنا بحری بیڑہ بحیرہ روم میں اٹلی کے پانیوں میں لاکھڑا کیا۔دراصل ڈکٹیٹر ملاسووچ کی حکومت کو کمزور کرنا امریکہ اور نیٹو کا ہدف تھا۔اس جارحیت کا جواز یہ ڈھونڈا گیا کہ ملاسووچ جو کہ یقینا بہت متعصب سرب تھا‘ اپنی فوج کوسوو سے 
نکالے ۔سربیا کے باہر ملاسووچ کے خلاف خاصی نفرت تھی خاص طور پر مسلمانوں میں۔ یوگو سلاویہ میں امریکہ نے یقینا مسلمانوں کی مدد کی۔بوسنیا کا معاملہ ڈیٹن معاہدے (Dayton Accord) سے طے کرایا پھر بلغراد پر بم برسا کر اسے کوسوو سے فوجیں نکالنے پر مجبور کیا۔ اس پوری جنگ میں امریکہ کے صرف دو فوجی ہلاک ہوئے۔ اس نے ایک تیر سے دو شکار کئے یعنی ملاسووچ کو سیاسی اور فوجی طور پر بے حد کمزور کر دیا اور کوسوو کو آزادی کے قریب لاکھڑا کیا۔کوسوو کی آبادی کا ایک بڑا حصہ مسلمان ہے۔ اس جنگ میں اتنی آسان فتح نے امریکہ کو ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی دی جس کے نتائج بعد میں خطرناک نکلے۔
پاکستان اور یوگو سلاویہ دونوں ہی درمیانے سائز مگر اہم ملک تھے۔ دونوں میں متعدد قومیتیں بستی تھیں۔یوگو سلاویہ میں مارشل ٹیٹو مرد آہن تھا تو پاکستان میں فیلڈ مارشل ایوب خان۔دونوں کے جانے کے بعد صوبائی خود مختاری کے نعرے لگنے لگے اور دونوں ممالک میں مرکز کمزور ہونے لگے۔لیکن مماثلث اتنی زیادہ بھی نہیں۔ یوگو سلاویہ کی شکست و ریخت 1991ء میں کروشیا کی آزادی سے شروع ہوئی اور سترہ سال بعد یعنی 2008ء مونٹی نیگرو کی آزادی پر ختم ہو گئی۔اب سات صوبوں کا بوجھ جھاڑ کر سربیا اکیلا رہ گیا ہے۔ اور بلغراد ہی اس کا دارالحکومت ہے۔
2001ء میں بلغراد کی کئی ایک عمارتوں پر نیٹو کی بمباری کے زخم نظر آتے تھے۔وزارت داخلہ کا سامنے کا حصہ چھلنی تھا۔چینی سفارت خانہ میں بھی ایک بم گرا تھا۔نووی سیڈ Novi Sadکا پُل جو اسٹریٹجک اہمیت کا حامل تھا اکثر نیٹو کے بموں کا نشانہ رہا۔یقین مانیں کہ مجھے 2001ء میں بلغراد میں وہی اداسی اور مظلومیت نظر آئی جو 1972ء میں پاکستان میں آئی تھی۔سربیا والے لڑ لڑ کے تھک چکے تھے ان دنوں دوسرے صوبوں میں سے صرف مونٹی نیگرو‘ سربیا کے ساتھ تھا گو کہ سربیا کی آبادی پچانوے فیصد تھی اور مونٹی نیگرو کی پانچ فیصد لیکن فیڈریشن کا یہ ننھا مُنا حصہ بڑے بھائی کو آنکھیں دکھا رہا تھا۔ 
بلقان کا یہ خطہ اتنا شکست و ریخت کا شکار ہوا کہ اب ملکوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے عمل کو Balkanization کہا جاتا ہے۔عظیم یوگو سلاویہ اب تاریخ کے عجائب گھر کا حصہ بن چکا ہے۔سربیا فری مارکیٹ معیشت اپنا چکا ہے اور یورپی یونین کا ممبر بننا چاہتا ہے۔
یوگو سلاویہ کو علیحدگی پسندی کے صدمے بار بار جھیلنا پڑے۔ پاکستان اس عمل سے ایک بار گزرا ہے۔یوگو سلاویہ ہمارے لیے علیحدگی پسندی کو روکنے کے لیے اچھی مثال ہے۔کمزور اقتصادی پوزیشن اور مسلسل جنگیں قوموں کو کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ چھوٹے صوبوں کے حقوق کا خیال رکھنا مرکز کی ذمہ داری ہے۔ کیا ہم یوگوسلاویہ کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھ سکتے۔میرے خیال میں ایسا یقینا ممکن ہے کہ پاکستان یوگو سلاویہ کی طرح مصنوعی اکائی نہیں ہے اور ہمارے ہاں ڈکٹیٹر شپ کی بجائے جمہوریت ہے جہاں لوگ بات کر سکتے ہیں پاکستان یقینا یوگوسلاویہ نہیں بنے گا لیکن بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھنا بھی ضروری ہے۔معیشت کی ترقی اور اندرونی امن لازم و ملزوم ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں