"JDC" (space) message & send to 7575

یوکرائن اور پاکستان

یوکرائن 1991ء کے آخر میں ایک آزاد ملک کے طور پر پہلی مرتبہ دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ عین اسی طرح جیسے 1947ء میں پاکستان نام کا ملک معرض وجود میں آیاتھا۔1992ء میں دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات استوار ہوئے۔ میں نے یوکرائن کے سفارت کاروں کو اکثر کہتے سنا ہے کہ پاکستان کی نفسیات کو ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا اس لیے کہ پاکستان کی طرح یوکرائن بھی ایک بہت بڑے ملک سے علیحدہ ہوکر بنا۔ یوکرائن کے سفارت کار یہ بھی کہا کرتے تھے کہ جس طرح پاکستان بھارت کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے‘ وہی پوزیشن یا رویہ روس کا یوکرائن کے بارے میں ہے۔
یوکرائن کا رقبہ پاکستان کے رقبے کا تقریباً دو تہائی ہے اور آبادی تقریباً ایک چوتھائی۔یوکرائن دنیا کے گندم پیدا کرنے والے ملکوں میں اہم ملک ہے اور گندم کی برآمد کے لحاظ سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ تاریخی طور پر یوکرائن روس کا حصہ رہا ہے بلکہ اس کا دارالحکومت کیف (Kiev) بہت عرصہ پہلے روس کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔روسی زبان میں یوکرائن کے معنی فرنٹیئر یا بارڈر پر واقع علاقے کے ہیں۔آپ کو یاد ہوگا کہ 1990ء کی دہائی میں یوکرائن چرنوبل ایٹمی حادثے کی وجہ سے معروف ہوا تھا۔
اور اب بات ہوجائے کریمیا کی جو روس اور یوکرائن کے درمیان بہت بڑی وجہ نزاع بن گیا ہے اور جس کی وجہ سے روس کے امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات اس وقت شدید تنائو کا شکار ہیں۔کریمیا کے ریفرنڈم کو روس کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ 
بلکہ ریفرنڈم والے دن روسی ٹینک سڑکوں پر گشت کررہے تھے اور انہیں یہ فرض سونپا گیا تھا کہ کریمیا میں موجود یوکرائن کے فوجی بیرکوں سے نکلنے نہ پائیں۔ کریمیا بذات خود ایک دلچسپ جزیرہ نما ہے جو یوکرائن کے جنوب میں بحراسود یعنی بلیک سی میں واقع ہے۔ کل آبادی بیس لاکھ کے قریب ہے۔ بارہ فیصد آبادی تاتاری مسلمانوں پر مشتمل ہے جو کہ دراصل ترکی النسل ہیں۔سٹالن نے اپنے دور حکومت میں کافی تاتاروں کوسنٹرل ایشیا منتقل کردیا اور ان کی جگہ کریمیا میں روسیوں کو بسا دیا۔ یادش بخیر سوویٹ لیڈر خروشیف کا تعلق یوکرائن سے تھا۔ خرو شیف نے 1950ء کی دہائی میں حکم دیا کہ کریمیا کو روس سے علیحدہ کرکے یوکرائن کے ساتھ ملا دیا جائے۔لہٰذا تاریخی طور پر کریمیا پر روس کا کلیم تو بنتا ہے اور دوسری بات پر بھی کہ اس وقت کریمیا کی آبادی کی اکثریت روسی لوگوں پر مشتمل ہے۔لہٰذا یہ بات متوقع تھی کہ ریفرنڈم میں عوام کی بھاری اکثریت روس کے ساتھ الحاق کے حق میں ووٹ دے گی چنانچہ بعینہٖ ایسا ہی ہوا۔ نوے فیصد سے زائد لوگوں نے روس کے ساتھ انضمام کی خواہش واضح طور پر ظاہر کی ہے۔
مجھے کشمیر اور کریمیا میں کسی حد تک مشابہت نظر آتی ہے۔ کشمیر ہندوستان کے قبضہ میں خوش نہیں ہے تو کریمیا والے یوکرائن میں خوش نہ تھے۔ کشمیر کی قسمت میں چند اشخاص کی ذاتی خواہشات نے اہم کردار ادا کیا اور ان میں مہا راجہ ہری سنگھ اور پنڈت جواہر لعل نہرو سرفہرست تھے تو کریمیا کو یوکرائن کا حصہ بنانے میں خرد شیف کا کلیدی کردارتھا اور اگر کریمیا میں لوگوں کی رائے معلوم کرنے کے لیے ریفرنڈم ہوسکتا ہے تو پھر کشمیر میں کیوں نہیں۔کشمیر کے بارے میں تو یو این کی واضح قراردادیں بھی موجود ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سوویت یونین نے متعدد بار کشمیریوں کے حق خودارادی کو ویٹو کیا جبکہ سپرپاور کا وارث روس کریمیا کے لوگوں کے حق خودارادی کا چیمپئن ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد مفادات ہوتے ہیں‘ اخلاقیات نہیں۔
امریکہ اور یورپی یونین نے ریفرنڈم کے نتائج کو قبول نہیں کیا۔ ان کا خیال ہے کہ ریفرنڈم یوکرائن کی خود مختاری اور جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی ہے‘ لہٰذا انٹرنیشنل لاء کے خلاف ہے۔ دوسری طرف روس نے امریکہ اور نیٹو ممالک کو 1999ء میں یوگوسلاویہ پر کی جانے والی نیٹو کی بمباری یاد دلائی ہے جس کا مقصد کوسوو میں ریفرنڈم کی راہ ہموار کرنا تھا۔ یاد رہے کہ کوسوو اس وقت سربیا کا حصہ تھا۔ بعد میں عالمی عدالت نے کوسوو کے ریفرنڈم کو جائز قرار دیا تھا۔ کوسوو کا حوالہ دے کر روس نے امریکہ کو آئینہ دکھا دیا ہے۔
ادھر امریکہ نے روس پر پابندیوں کا آغاز کردیا ہے۔ ابتدائی طورپر چند روسی شخصیات پر پابندیاں لگائی گئی ہیں جو صدر پیوٹن کے قریب ہیں۔ ایک نوٹ کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ ابھی تک کسی مغربی ملک نے کسی روسی سفیر کو غیر مرغوب شخصیت قرار دے کر نکالا نہیں ہے۔ ادھر کریمیا کی پارلیمنٹ نے یوکرائن سے باقاعدہ علیحدگی کا اعلان کرکے روس سے درخواست کی ہے کہ وہ کریمیا کو باقاعدہ اپنے ملک کا حصہ بنالے۔
مغربی ذرائع ابلاغ یہ بھی بتارہے ہیں کہ ریفرنڈم والے دن تاتاری مسلمان اپنے گھروں میں بیٹھے رہے۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ تاتار روس کا حصہ بننے یا بنائے جانے سے خوش نہیں ہیں۔ انہیں وہ مظالم آج بھی یاد ہیں جو سوویت یونین کے زمانے میں ان پر ڈھائے گئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ریفرنڈم کے اس فیصلے کے باوجود کہ کریمیا دوبارہ روس کا حصہ بن جائے‘ وہاں مکمل امن شاید روس میں انضمام کے بعد بھی ممکن نہ ہو۔
جب دیوار برلن گری تو مشرقی جرمنی دوبارہ مغربی جرمنی کے ساتھ شامل ہوا۔ اس وقت امریکہ نے گوربا چوف کو یقین دہانی کرائی تھی کہ نیٹو کی فعالیت کو جرمنی سے آگے مشرقی یورپ میں نہیں پھیلایا جائے گا۔ بعد میں نیٹو نے نہ صرف یوگو سلاویہ پر بمباری کی بلکہ آج نیٹو کی افواج افغانستان میں موجود ہیں۔ روسی لیڈر یلسن نے یوگوسلاویہ پر حملے کے دوران امریکی صدر کلنٹن کو گوربا چوف سے کیاگیا وہ وعدہ یاد دلایا لیکن امریکی صدر نے بات آئیں بائیں شائیں کردی۔
قرآئن بتا رہے ہیں کہ روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ دوبارہ شروع ہونے والی ہے۔ کریمیا کے ریفرنڈم کے نتائج کو میرے خیال میں امریکہ اوریورپ کو ہضم کرنا ہی پڑے گا۔ ان کا اصل ہدف اب یہ ہے کہ روس اس سے آگے نہ بڑھے کیونکہ مشرقی یوکرائن میں بھی روسی کافی تعداد میں آباد ہیں۔ اگر روس مزید توسیع پسندی کی طرف بڑھتا ہے تو یورپی یونین زیادہ سخت اقتصادی پابندیاں لگاسکتی ہے۔ روس اپنی گیس کا پچیس فیصد حصہ یورپ کو برآمد کرتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ پاکستان کریمیا کے ریفرنڈم کے نتائج کی بالکل حمایت نہیں کرے گا۔ دنیا کے ممالک کی سرحدیں تبدیل کرنے کا عمل بہرحال بہت خطرناک کھیل ہے۔ ہماری ہیئت جغرافیہ ایک مرتبہ تبدیل ہوچکی ہے اور یہ عمل ہمارے ہمسایہ ملک کی مدد سے ہوا تھا۔ کشمیر کی صورت حال مختلف ہے۔ بین الاقوامی قانون کی رو سے کشمیر متنازع خطہ ہے۔ وہاں ریفرنڈم اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونا چاہیے‘ بھارت کی نگرانی میں نہیں۔ مجھے اب پھر سے خیال آتا ہے کہ یوکرائن کے سفارت کار بالکل صحیح کہتے تھے کہ پاکستان کی نفسیات کو ہم سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں