"JDC" (space) message & send to 7575

گرل فرینڈز اور بلیو پاسپورٹ

وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ سابق حکومت میں گرل فرینڈز کو بلیو پاسپورٹ دیے گئے۔ وزیر موصوف نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ یہ پاسپورٹ کینسل کیے جائیں۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ایک وزیر یہ مطالبہ کیوں کر رہا ہے جبکہ وہ مقتدر حکومت کا ممبر ہے۔ کوئی مہذب ملک ہوتا تو یہ پاسپورٹ کئی مہینے پہلے کینسل بھی ہو چکے ہوتے اور ان وزراء یا افسروں کو قرار واقعی سزا بھی مل چکی ہوتی‘ جنہوں نے یہ پاسپورٹ ایشو کیے۔ پہلے دنیا بھر میں گرین پاسپورٹ کی تحقیر ہوتی تھی کہ جعلی ویزوں سمیت پکڑا جاتا تھا‘ اب بلیو پاسپورٹ بھی اتنا ہی مشکوک ہو گیا ہے۔ ایسے سنجیدہ معاملے میں اس قدر تساہل ثابت کرتا ہے کہ حکومت کے لیے ملک کی نیک نامی یا بدنامی میں چنداں فرق نہیں۔ 
آیئے پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ بلیو پاسپورٹ ہے کیا۔ پاسپورٹ تین طرح کے ہوتے ہیں۔ سفارتی پاسپورٹ کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔ یہ پاسپورٹ عام طور پر سفارت کاروں کو ایشو ہوتا ہے لیکن ایک سو کے لگ بھگ ایسے لوگوں کی لسٹ ہے جو سرخ پاسپورٹ لینے کے مجاز ہیں۔ صدر پاکستان سے لے کر وفاقی وزراء تک اس لسٹ میں شامل ہوتے ہیں۔ اسے آپ پاکستان کا اعلیٰ ترین پاسپورٹ کہہ سکتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ سرخ پاسپورٹ کے ساتھ وزارتِ خارجہ کا ایک خط جاتا تھا اور بیرونی سفارت خانے اسی روز ویزا لگا دیتے تھے۔ ہمارے کارناموں کی وجہ سے اب سرخ پاسپورٹ کی بھی کئی سفارت خانے خوب جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ ہوا یوں کہ پچھلی حکومتوں کے کچھ وزراء جب دوروں پر جاتے تھے تو ساتھ ایک دو عزیز یا نوکر بطور اٹنڈنٹ لے جاتے تھے۔ وزیر صاحب تو واپس آ جاتے مگر اٹنڈنٹ کا اسی ملک میں دل لگ جاتا تھا۔ 
بلیو تو ویسے بھی مشکوک لفظ ہے لیکن بلیو پاسپورٹ اس سے بھی زیادہ مشکوک ہو گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ عام پاسپورٹ لینے سے پہلے پولیس کلیئرنس لازمی ہوتی تھی۔ پاسپورٹ لینا اتنا آسان نہ تھا جتنا آج ہے۔ خیر بلیو پاسپورٹ ان لوگوں کو ہی دیا جاتا ہے جو سرکاری ڈیوٹی پر بیرون ملک جا رہے ہوں لیکن ان کا سٹیٹس (Status) سفارت کار والا نہ ہو مثلاً سفارت خانوں کے سٹاف ممبر یعنی اکائونٹنٹ یا سٹینوگرافر وغیرہ۔ سٹاف کے علاوہ بلیو پاسپورٹ سفارت کاروں کے بچوں کو ملتا ہے تاآنکہ وہ سنِ بلوغت سے کم عمر ہوں۔ مثلاً سفارت کار کی بیوی کو سرخ پاسپورٹ مل سکتا ہے مگر بیٹے یا بیٹی کو بلیو پاسپورٹ ہی ملے گا۔ اب مجھے یہ معلوم نہیں کہ جن گرل فرینڈز کو پچھلی حکومت نے بلیو پاسپورٹ دیے وہ کون سی ڈیوٹی پر بیرون ملک جا رہی تھیں۔ یہ حکومتِ وقت کا فرض ہے کہ ایسی تمام خواتین کے نام شائع کرے‘ جنہیں بلیو پاسپورٹ سے نوازا گیا۔ سفارتی پاسپورٹ صرف وزارت خارجہ ایشو کرتی ہے جبکہ بلیو پاسپورٹ وزارت داخلہ اور وزارت داخلہ کے نام پر یہ پاسپورٹ صرف اور صرف ڈی جی پاسپورٹ جاری کرتا ہے۔ 
مجھے چند ماہ پہلے باوثوق ذرائع سے پتہ چلا تھا کہ پچھلی حکومت میں بلیو پاسپورٹ فروخت ہوئے لیکن بات چونکہ زبانی تھی لہٰذا اس کی صحت میری نظر میں مشکوک تھی؛ تاہم یہ بات بھی قرینِ قیاس نہیں کہ بلیو پاسپورٹ صرف دوستی کو پالنے کے لیے گرل فرینڈز یا سہیلیوں کو دیا گیا ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ گرین پاسپورٹ پر تو ہر جگہ پیشگی ویزا لازم ہو گیا ہے جبکہ بلیو پاسپورٹ پر اب بھی آپ کئی ممالک میں بغیر ویزے کے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا تاجر حضرات کے لیے بلیو پاسپورٹ فائدہ مند ہے۔ سنا ہے کہ نیلے پاسپورٹ کئی بزنس مینوں نے لیے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت ان بزنس مینوں کے نام بھی اخبار میں دے دے‘ لیکن یہ بھی میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ اگر تاجر حضرات کے نام طشت از بام ہوئے تو گرل فرینڈز کے نام بھی افشا کرنے ہوں گے اور گرل فرینڈز کے نام کی تشہیر شرفاء کا شیوہ نہیں کہ وہ پردہ نشین بھی ہو سکتی ہیں۔ 
پچھلے سال مجھے مشرق وسطیٰ کے ایک ملک جانا تھا۔ اس ملک کا سفیر بھی مجھے جانتا ہے اور دیگر سفارت کار بھی۔ ویزا لینے گیا۔ قونصل صاحب نے چائے پلائی‘ عربی میں خوب گپ شپ ہوئی اور ساتھ ہی کہنے لگے کہ برادر مجھے آپ کا کیس اپنے دارالحکومت بھیجنا پڑے گا کہ ہم خود سے کسی پاکستانی کو ویزا دینے کے مجاز نہیں رہے۔ پچھلے دنوں ایک دلچسپ خبر آئی۔ کسی بین الاقوامی ادارے نے سروے کیا ہے کہ مختلف ممالک کے پاسپورٹ کتنی قدرو منزلت رکھتے ہیں۔ اس لسٹ میں سب سے اوپر برطانوی پاسپورٹ ہے۔ پاکستان تقریباً نوے نمبر پر ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش دونوں پاکستان سے اوپر ہیں۔ تو کیا عجب کہ کویت والوں نے سبز ہلالی پاسپورٹ والوں کے داخلے پر پچھلے دنوں پابندی لگا دی تھی۔ مجھے اس بات کا ذاتی طور پر علم ہے کہ منشیات کی سمگلنگ کویت میں کئی سالوں سے ہماری وجہ بدنامی رہی ہے۔ 
سب پاسپورٹ اب ہر پاکستانی کا حق ہے لیکن ہم نے اپنے کارناموں سے اس پاسپورٹ کا جو حال کیا ہے وہ سب جانتے ہیں جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا‘ یہ پاسپورٹ بوجوہ بہت مشکوک ہو چکا ہے۔ ضیاء الحق کے زمانے میں یہ پاسپورٹ برما کے مسلمانوں کو بھی دیا گیا جو اب سعودی عرب میں رہتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ پھر یہ پاسپورٹ افغان بھائیوں نے عام لیا۔ جب میں مسقط میں سفیر تھا تو کئی افغانوں کی درخواستیں آئیں کہ ہم اپنا پاکستانی پاسپورٹ آپ کو بھیج رہے ہیں بس آپ ہمیں وصولی کی رسید دے دیں۔ وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں کے خاندان پاکستان سے افغانستان واپس جا چکے تھے۔ جب یہ اپنے عزیز و اقارب کو افغانستان پیسے بھیجنا چاہتے تھے تو افغانستان کے قانون کے مطابق انہیں اپنے افغانی پاسپورٹ کا نمبر لکھنا پڑتا تھا۔ لہٰذا انہیں پاکستانی پاسپورٹ ترک کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ افغانستان کے سفیر محمد گیلانی میرے ذاتی دوست تھے۔ حضرت غوث پاکؒ کے خاندان سے تھے۔ جلال آباد میں آج بھی ان کا خاندان روحانی اور سیاسی اعتبار سے معروف ہے۔ میں نے گیلانی صاحب سے پوچھا کہ سلطنتِ عمان میں پاکستانی پاسپورٹ کے حامل کتنے افغان ہوں گے ان کا جواب تھا تقریباً دس ہزار اور میں سر پکڑ کے بیٹھ گیا۔ 
میں دو ایسے ملکوں میں سفیر رہا ہوں‘ جہاں انسانی سمگلنگ ہوتی ہے۔ ایک ہے یونان اور دوسرا سلطنت عمان۔ اور اس انسانی سمگلنگ میں بھی پاکستانی پیش پیش ہیں۔ سمندر کے ذریعے یونانی جزیروں تک پہنچنے کی کوشش ویسے تو سال بھر ہوتی ہے لیکن 25 دسمبر سے یکم جنوری یعنی چھ دن تو بنی آدم کو یونان اور اٹلی سمگل کرنے والوں کا سیزن ہوتا ہے کیونکہ کوسٹ گارڈ یا تو کرسمس کی چھٹیوں پر ہوتے ہیں یا نئے سال کی آمد کی خوشی میں نشے کی حالت میں۔ ایسے میں پاکستانی نوجوان لانچوں میں آتے ہیں۔ ان کے سفر کا آغاز ترکی کے ساحلوں سے ہوتا ہے۔ اپنا گرین پاسپورٹ سمندر میں پھینکتے ہیں۔ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں اس کے لیے ایک اور کالم درکار ہے‘ بس یوں سمجھیے کہ غیر قانونی طور پر کسی ملک میں داخل ہونے کے لیے بے نام ہونا مفید ہے۔ 
جب تک ایسی حرکات کرنے والوں کا کڑا احتساب نہیں ہوگا ملک کی بدنامی ہوتی رہے گی۔ حکومت کو چاہیے کہ کیس کی شفاف انکوائری کرائے اور جن لوگوں کو غلط بلیو پاسپورٹ ملے‘ ان کے نام اخبار میں شائع کرے۔ جن لوگوں نے پاسپورٹ دیے ان کے نام جاننا بھی پبلک کا حق ہے اور ان کی سزا بھی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں