"JDC" (space) message & send to 7575

پاکستان پر حملہ

عربی میں اگر کہنا ہو کہ فلاں شخص بہت ہی شریف اور پرامن ہے توکہا جاتا ہے''ہو آمن مثل حمام مکّہ‘‘ یعنی وہ مکہ مکرمہ کے کبوتروں کی طرح پُرامن ہے۔ عربی زبان میں ایک ہی لفظ کے کئی معانی ہو سکتے ہیں جبکہ حمام کا عام معنی غُسل خانہ کا ہے لیکن دوسرا معنی کبوتر کا بھی ہے۔ پاکستان میں اگر کسی گروپ کے بارے میں اس قدر پُرامن ہونے کے لیے حمام مکّہ کی اصطلاح استعمال ہو سکتی ہے تو وہ ہمارے اسماعیلی بھائی ہیں۔ کچھ سال پہلے تک دہشت گردوں کا نشانہ ریاستی ادارے اور سرکاری کارندے تھے مگر اب واضح طور پر بے گناہ اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ خوف و ہراس پھیلے۔ پیغام بہت واضح ہے کہ پاکستان میں بے ضرر اور محب وطن سب نشانے پر ہیں لہٰذا کوئی سرمایہ کار اس خطرناک بستی کا رخ نہ کرے۔
سر سلطان محمد شاہ آغا خان کی پیدائش کراچی کی ہے جبکہ پیدائش کا سال1877ء ہے یعنی جہاں کراچی نے بانی پاکستان محمد علی جناحؒ کو جنم دیا وہاں ہی تحریک پاکستان کے عظیم رہنما آغا خان سوئم بھی پیدا ہوئے۔ آغا خان نوجوانی سے ہی سیاست میں بہت فعال ہوگئے تھے۔ پچیس سال کی عمر میں انڈین قانون ساز اسمبلی کے ممبر بنے۔ جب 1906ء میں ڈھاکہ میں مسلم لیگ تشکیل پائی تو سر آغا خان کا رول کلیدی تھا۔ ان کے ایکٹو رول کو سراہتے ہوئے سر آغا خان کو آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر چُنا گیا اور یہ عہدہ سات سال تک مسلسل ان کے پاس رہا۔1906ء میں ہی سر آغا خان نے شملہ میں مسلم وفد کی قیادت کی اور جداگانہ انتخابات کامطالبہ کیا۔1947ء میں پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کو سخت مالی مشکل کا سامنا تھا۔ سر آغا خان ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے نئی ریاست کی مالی امداد فرمائی۔
جب سرسید احمد خان علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لیے کوشاں تھے تو مالی وسائل جمع کرنے میں سر آغا خان پیش پیش تھے۔ یونیورسٹی کے لیے پورے ہندوستان سے ستر لاکھ روپے عطیہ جمع ہوا تھا۔ اس میں سے تیس لاکھ روپے سر آغا خان کی ذاتی کوشش سے جمع ہوئے۔ ایک لاکھ روپے ان کا اپنا عطیہ تھا۔ انہیں تعلیم کی اہمیت کا ادراک تھا۔1905ء میں ان کی کوشش سے گوادر میں سکول بنا۔ تعلیم نسواں کو وہ لڑکوں کی تعلیم سے زیادہ ضروری سمجھتے تھے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ اگر میرے دو بچے ہوں‘ ایک لڑکا اور ایک لڑکی اور میرے وسائل بہت محدود ہوں تو میں صرف بیٹی کو تعلیم دوں گا۔1957ء میں سر آغا خان کا انتقال ہوا تو ان کے پوتے پرنس کریم روحانی پیشوا بنے۔ پرنس کریم کے والد پرنس علی خان اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب رہے اور بہت ہی کامیاب سفیر تھے۔ امریکہ کی اعلیٰ ترین شخصیات سے ان کے ذاتی مراسم تھے۔ سنا ہے کہ بڑے بڑے لوگ پرنس علی خان کی دعوتوں کے کارڈ وصول کرنے کے منتظر رہتے تھے۔ ان کے 23مارچ والے یوم پاکستان کے استقبالیہ کو لوگ برسوں تک یاد کرتے رہے۔
پرنس کریم کو چھوٹی عمر میں یہ نہایت ہی اہم منصب سنبھالنا پڑا۔ اس وقت ان کی عمر اسی سال کے لگ بھگ ہے لیکن اب بھی روزانہ گھنٹوں کام کرتے ہیں۔ درجنوں رپورٹیں اور سینکڑوں صفحات روزانہ پڑھتے ہیں اور ان پر ریمارکس بھی لکھتے ہیں۔ انہیں عام طور پر اعلیٰ حضرت کے سابقے کے ساتھ مخاطب کیا جاتا ہے۔ اعلیٰ حضرت 1995ء میں دوشنبے تشریف لائے۔ دوشنبے میں اس وقت بارہ سفارت خانے تھے۔ اعلیٰ حضرت نے خواہش ظاہر کی کہ وہ چار ملکوں کے سفراء کو ملنا پسند کریں گے اوران میں پاکستان بھی شامل تھا اور یہ بات اس امر کی غماز تھی کہ پاکستان ان کے لیے بہت اہم ملک ہے۔ یہی میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔ اونچا لمبا قد ‘سرخ و سفید رنگت‘ ہمہ وقت چہر ے پر مسکراہٹ‘ غرضیکہ ایک مسحور کن شخصیت تھی۔ میں نے پہلا جملہ یہ بولا کہ مجھے بے حد خوشی ہے کہ اُس شخصیت سے مل رہا ہوں جس کے جد امجد نے تحریک پاکستان میں اہم رول ادا کیا تھا۔ مجھے جلد ہی علم ہو گیا کہ اعلیٰ حضرت بین الاقوامی امور مجھ سے زیادہ جانتے ہیں‘ لیکن بڑے لوگ مہمان کو مرعوب کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ آغا خان مجھ سے علاقائی صورت حال کا پوچھتے رہے اور پوری ملاقات کے دوران یہ تاثر دیتے رہے کہ میری رائے کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔
ہز ہائی نس کے پیرو کارتاجکستان کے صوبہ بدخشاں میں بھی بہت ہیں اور افغانستانی بدخشاں میں بھی۔ بدخشاں کے دارالحکومت خاروگ کی ایک بلند و بالا پہاڑی پر تشریف لے گئے ‘ یہ پہاڑی افغانستان سے بھی نظر آتی ہے‘ چوٹی پر اس لئے گئے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے روحانی پیشوا یعنی حاضر امام کا دیدار کر سکیں۔ لوگ لاکھوں کی تعداد میں بارڈر کے دونوں طرف موجود تھے اور اپنی خوش قسمتی پر نازاں تھے۔
پرنس کریم آغا خان انٹرنیشنل شخصیت کے حامل ہیں۔ وہ امن اورجمہوریت کے داعی ہیں۔اُن کا پیغام محبت اور انسانیت کی خدمت ہے۔ ابھی حال ہی میں انہیں انڈیا کا اعلیٰ سول ایوارڈ پدم بھوشن ملا ہے۔ پچھلے سال آغا خان نے کینیڈا کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ دنیا کے کسی روحانی رہنما نے اس سے پہلے کینیڈا کی پارلیمنٹ سے خطاب نہیں کیا۔ پچھلے ہفتے ٹورنٹو میں آغا خان پارک کا افتتاح ہوا ہے ۔ اس بڑے پارک کے افتتاح کے لیے صوبہ اونٹاریو کے وزیر اعلیٰ بھی موجود تھے۔ پارک کے مرکز میں آغا خان میوزیم بنایا گیااور کلچرل سنٹر بھی۔ اس سینٹر کا مقصد مختلف بیک گرائونڈز کے لوگوں میں مفاہمت اور ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔
اور اب آتے ہیں آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کی طرف جو دنیا کے انتیس (29) ملکوں میں فعال ہے۔ دنیا بھر میں اسی ہزار لوگ اس نیٹ ورک کے لیے کام کرتے ہیں۔ پروگرام کی سوچ سیدھی مگر واضح ہے کہ عوام پر مکمل یقین رکھو‘ وہ خود اپنی حالت بدلنے کا عزم رکھتے ہیں‘ وہ اپنی زندگی کی کوالٹی کو خود بہتر بنا سکتے ہیں۔ آغا خان نیٹ ورک کی بنیادی سوچ اسلام سے مستعار ہے اوروہ یہ ہے کہ خود کفالت عزت نفس کوجنم دیتی ہے۔ اسلام انسان کی تحقیر نہیں عزت کا متقاضی ہے۔ ذرا سوچیے کہ یہ فلسفہ اقبال کے فلسفہ خودی سے کس قدر قریب ہے۔ دوشنبے کے زمانے میں آغا خان میڈیکل یونیورسٹی کراچی کے صدر شمس قاسم لاکھا سے ملاقات رہی۔ وہ وہاں آتے رہتے تھے۔ مجھے لاکھا صاحب نے بتایا کہ آغا خان ہسپتال کراچی میں ؛ہم غریبوں کا علاج مفت کرتے ہیں مگر فیس لازمی لیتے ہیں۔ میں نے کہا مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی کہنے لگے غریبوں کے لیے پانچ روپے فیس لازمی ہے تاکہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔
بنک سے لے کر ہوٹل تک کون سا شعبہ ہے جہاں اسماعیلی بھائیوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کی۔ شمالی علاقوں میں آغا خان نیٹ ورک کے ترقیاتی کام برسوں سے جاری ہیں ۔آغا خان میڈیکل یونیورسٹی کو ہائر ایجوکیشن کمشن نے حال ہی میں اپنے شعبے میں پاکستان کی نمبر ایک یونیورسٹی قرار دیا ہے۔ یہاں سے ایم بی بی ایس کر کے بے شمار پاکستانی ڈاکٹر آج دنیا کے کونے کونے میں کام کررہے ہیں۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ 13مئی کو صفورہ گوٹھ کے پاس 45اسماعیلی ناحق قتل ہوئے‘ مجھے ان کی زبان سے تھوڑا سا اختلاف ہے۔13مئی کو 45محب وطن پاکستانی شہید ہوئے۔ وہ پاکستانی جو خاموشی سے صنعت‘ تجارت‘ بینکنگ اور ہوٹلنگ کو کامیابی سے چلا رہے ہیں۔13مئی کو وہ پاکستانی شہید ہوئے جو حمام مکہ کے کبوتروں کی طرح پرامن اور شریف تھے۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے ۔آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں