"JDC" (space) message & send to 7575

چین کو چلئے۔۔۔۔(2)

پاک چین دوستی ایک ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں پاکستان میں مکمل اتفاق رائے ہے۔ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں اسے سپورٹ کرتی ہیں۔ پاکستانی عوام اس دوستی اور تعاون کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں۔ چینی اور پاکستانی عوام ایک دوسرے کی زبان نہیں جانتے، بات چیت میں دشواری ہوتی ہے لیکن دونوں کے درمیان ایک ایسا رشتہ ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ مضبوط ہوا ہے۔ مجھے چین میں اس بات کا متعدد بار احساس ہوا کہ چینی بھی ہمارے بارے میں نیک جذبات رکھتے ہیں۔ پاکستانی دوست ہونے کے ناتے ہمارا پرتپاک استقبال ہوا، بہت پذیرائی ملی۔ چینی زبان کا مقولہ ہے کہ جب دیرینہ دوست ملتے ہیں تو کئی جام کم پڑ جاتے ہیں۔
پاک چین دوستی کو دیرینہ کہا جا سکتا ہے۔ ہمارے ممالک کے تجارتی روابط تو صدیوں سے سلک روٹ کی وجہ سے تھے مگر دورِ حاضر میں ہمیں دو طرفہ تعاون بتدریج بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ 1962ء کی جنگ میں چین نے بھارت کو شکست دی۔ ایوب خان کے زمانے میں پاک چین سرحدی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ 1969ء میں پاکستان نے چین پر مسلط تنہائی کا انٹرنیشنل حصار توڑنے میں مدد کی۔ ہنری کسنجر پاکستان کے راستے چین گئے، اس سے صدر نکسبن کے دورے کی راہ ہموار ہوئی۔ جب سکیورٹی کونسل کی دائمی نشست کا معاملہ اقوام متحدہ میں زیر غور آیا‘{ تو پاکستان عوامی جمہوریہ چین کی حمایت میں آگے آگے تھا۔ تائیوان سے یہ نشست واپس لے کر مین لینڈ چائنا کو دی گئی، حق دار کو اُس کا حق لوٹا دیا گیا۔ چینی اقوام متحدہ میں 1971ء میں پاکستان کی حمایت کو اب بھی یاد کرتے ہیں اور پھر 1971ء اور اُس کے بعد جب پاکستان دولخت ہو چکا تھا‘{ تو چین ہماری حمایت میں اقوام متحدہ میں فعال نظر آیا۔ بنگلہ دیش نے اقوام متحدہ کی رکنیت مانگی تو چین نے اُسے پاکستانی جنگی قیدیوں کی رہائی سے مشروط کر دیا۔ اقوام متحدہ میں پاک چین تعاون اب بھی جاری ہے۔
وقت حاضر میں سی پیک (CPEC) ایک عظیم منصوبہ ہے جو دونوں ملکوں کو قریب تر لے آئے گا۔ روزانہ ہزاروں ٹرک خنجراب اور گوادر کے درمیان چلیں گے۔ پاکستان میں لوڈ شیڈنگ قصۂ پارینہ بن جائے گا۔ انڈسٹریل پارک بنیں گے اور فری زون کام شروع کریں گے۔ سی پیک کے حوالے سے لگتا ہے ہمارے ہاں کچھ ابہام ہے۔ چینی دوستوں کا کہنا تھا کہ سی پیک کا 2013ء سے پہلے کوئی وجود نہ تھا، لہٰذا پُرانے روٹ والی بات غلط ہے۔ چینی چھیالیس ارب کی شماریات سے بھی حیران ہوتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ سی پیک کے سلسلہ میں ہونے والی سرمایہ کاری چھیالیس ارب ڈالر سے کم بھی ہو سکتی ہے اور زیادہ بھی۔ یاد رہے کہ سی پیک جیسے پروجیکٹ چین نے خطے کے کئی ممالک کے ساتھ بنائے ہیں مگر وہ سی پیک کی رفتار سے زیادہ مطمئن نظر آتے ہیں۔
انڈیا سی پیک کا سخت مخالف ہے۔ وزیر اعظم مودی نے پچھلے سال چین کا دورہ کیا تو چینی قائدین کو صاف کہا کہ سی پیک ہمیں قابل قبول نہیں ہے۔ انڈیا کی دلیل یہ ہے کہ اقتصادی راہداری متنازعہ علاقے یعنی گلگت بلتستان سے گزرے گی۔ چینی قائدین اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ منصوبہ فقط اقتصادی ہے اور اس سے گلگت بلتستان کے لوگوں کو روزگار ملے گا، اُن کا معیار زندگی بہتر ہو گا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ہلیری کلنٹن نے چند سال پہلے کلکتہ میں کہا تھا، ہم انڈیا کو بحرہند کے علاوہ بحرالکاہل کی بھی پاور دیکھنا چاہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جنوبی چائنا سمندر میں فلپائن کے آس پاس کچھ متنازعہ جزیرے ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اس خطے کے ممالک چینی موقف کے خلاف کھڑے ہوں؛ حالانکہ یہ جزیرے صدیوں سے چین کے پاس ہیں۔ جب ہم نے ایک چینی سفارت کار سے ان جزیروں کے بارے میں استفسار کیا تو جواب ملا کہ یہ جزائر اُس زمانے سے چین کے پاس ہیں جب امریکہ ابھی معرض وجود میں نہیں آیا تھا۔
بات انڈیا اور اس کے علاقائی رول کی ہو رہی تھی۔ انڈیا کو یہ زعم ہے کہ کابل سے رنگون تک کا علاقہ اُس کا پچھواڑہ ہے، لہٰذا چین کو ان ممالک میں پروجیکٹ بنانے سے پہلے انڈیا سے مشورہ کرنا چاہئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انڈیا پاکستان، نیپال، سری لنکا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو روکنے سے قاصر ہے اور اسی وجہ سے وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہے۔ امریکہ کی عرصے سے خواہش ہے کہ اس کا انڈیا کے ساتھ عسکری لاجسٹک معاہدہ ہو جائے، مگر انڈیا نے جان بوجھ کر ابہام کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ اس معاہدے کے بعد انڈیا اور امریکہ ایک دوسرے کی بندرگاہیں اور ہوائی اڈے جہازوں کی مرمت اور تیل کی فراہمی کے لئے استعمال کر سکیں گے۔ امریکہ کی نظر انڈمان اور نکوبار کے انڈین جزائر پر ہے جو جنوبی بحرچین سے زیادہ دور نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ انڈیا اس سلسلہ میں لیت و لعل سے کیوں کام لے رہا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ فی الوقت انڈیا چین کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ انڈیا کی نظریں سلامتی کونسل کی دائمی نشست پر ہیں اور یہ مقصد چائنا کی سپورٹ کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جس دن انڈیا کو دائمی نشست مل گئی وہ امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے قریب تر ہو جائے گا اور بحرالکاہل کے علاوہ South China Sea میں اپنی نیول قوت کا زور دکھانے لگے گا۔ چینی اس منصوبے کا ادراک بخوبی رکھتے ہیں۔ پاکستان اقوام متحدہ کی ریفارم کے سلسلہ میں چائنا اور دوسرے ممالک سے مسلسل رابطے میں ہے۔ ہمارا موقف ہے کہ تمام اقوام کو برابر سمجھنا چاہئے۔ دائمی نشستوں میں اضافے سے اقوام متحدہ میں طبقاتی نظام مزید تقویت پکڑے گا۔ چوہدریوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا اور انڈیا جیسے چوہدری آ جائیں گے جنہوں نے کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرارداد کو جوتے کی نوک پر رکھا ہوا ہے۔
پاک چین دو طرفہ تجارت اس وقت تقریباً 19 ارب ڈالر ہے۔ ٹریڈ بیلنس چائنا کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے یعنی عدم توازن کا شکار ہے، پاکستانی برآمدات کا حصہ بہت کم ہے۔ چینی عوام کی قوت خرید بہت بڑھ گئی ہے اور ہم اپنی برآمدات بڑھا سکتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ عوامی لیول پر رشتے ہیں اور اس میں سب سے بڑی رکاوٹ زبان ہے۔ پاکستان میں اس وقت تقریباً تیرہ ہزار چینی کام کر رہے ہیں لیکن اُردو سے نابلد ہونے کی وجہ سے وہ پاکستانیوں سے بہت کم بات کر پاتے ہیں۔ اب سنا ہے کہ ہماری نیشنل یونیورسٹی فار ماڈرن لینگویجز کی مدد سے سنکیانگ میں اُردو کورس شروع کئے جا رہے ہیں۔ چائنا میں اس وقت تقریباً دس ہزار پاکستانی سٹوڈنٹ ہیں، یہ سب چینی زبان سیکھ کر آئیں گے۔ حکومت کو چاہئے کہ سکولوں اور کالجوں میں چینی زبان کا رائج کرے تاکہ زبان یار من چینی و من چینی نمی دانم والا مسئلہ نہ رہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں