"JDC" (space) message & send to 7575

کس قیامت کے یہ نامے!

پچھلے ہفتے فارن آفس کے دو سینئر ترین افسروں کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بہت ہی بدمزگی کا سبب بنا ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے پینتیس(35) سال فارن سروس میں گزارے ہیں۔ فارن آفس میں نہ پہلے کبھی ایسا ہوا تھا اور میری دعا ہے کہ آئندہ کبھی انگریزی محاورے کے مطابق افسر اپنے گندے کپڑے پبلک میں نہ دھوئیں۔ اس ذاتی قسم کی کاغذی جنگ کا آغاز امسال ،عبدالباسط ہائی کمشنر نیو دہلی کی طرف سے پانچ جولائی کو کیا گیا۔ اس غیر ضروری خط کیلئے سرکاری لیٹر ہیڈ کا استعمال ہی معیوب تھا۔ ہائی کمشنر عبدالباسط نے اپنے ماضی قریب کے فارن سیکرٹری کے بارے میں نہ صرف یہ'' فتویٰ‘‘ دیا کہ اعزاز چودھری بدترین فارن سیکرٹری تھے بلکہ یہ پیشین گوئی بھی کردی کہ آپ واشنگٹن میں بدترین پاکستانی سفیر ہوں گے۔ میں نے جتنے حاضر سروس اور ریٹائرڈ فارن سروس کے لوگوں سے بات کی ہے۔ وہ سب کے سب اس ڈویلپمنٹ کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ فارن آفس کی خواہ مخواہ جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ انڈین میڈیا بے حد خوش نظر آیا ۔2013 کے اواخر کی بات ہے۔ فارن سیکرٹری جلیل عباس جیلانی کی ٹرم پوری ہو رہی تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف بیرون ملک دورے پر تھے وہاں نئے فارن سیکرٹری کے تقرر کا معاملہ زیرِ بحث آیا۔ ایک مشیر نے کہا کہ جرمنی میں سفیر پاکستان عبدالباسط بہت اچھا افسر ہے۔ وہ اس اہم عہدے کے لئے مناسب رہے گا۔ وزیراعظم نے ہاں کردی اور پاکستان آ گئے۔ باسط کے علاوہ افغانستان میں سفیر محمد صادق اور ایڈیشنل سیکرٹری یو این اعزاز چودھری بھی امیدوار تھے۔ وزیراعظم کا جھکائو باسط کی طرف تھا کہ ان کی عام شہرت اچھی تھی لیکن شومئی قسمت سے ایک مشکل درپیش ہوئی۔ باسط نہ صرف باقی امیدواروں سے جونیئر تھے بلکہ ابھی گریڈ 22 میں پروموٹ بھی نہیں ہوئے تھے۔ دریں اثناء باسط کی تقرری میڈیا نے انائونس کردی۔ حکومت عجب مخمصے میں تھی۔ ظاہر ہے کہ فیصلہ عجلت میں کیا گیا تھا۔ اتنے میں وزیراعظم کو ایک بااثر شخصیت نہ کہا کہ اعزاز چودھری بیمار ہونے کے باوجود صبح سے شام تک کام میں مصروف نظر آتا ہے اور سینئر بھی ہے چنانچہ قرعہ اعزاز چودھری کے نام نکلا اور عبدالباسط کو اشک شوئی کیلئے دہلی جیسی اہم پوسٹ پر بھیجا گیا۔
جس روز اعزاز چودھری کے تقرر کی انائونسمنٹ ہوئی میں اس دن پلڈاٹ کی ایک میٹنگ کے سلسلہ میں لاہور میں تھا۔ معروف ٹی وی اینکر افتخار احمد کے بیٹے کا ولیمہ تھا۔ وہاں میری ملاقات سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد صاحب سے ہوئی۔ اعزاز نے ان کے ساتھ بطور آفس ڈائریکٹر کام کیا تھا۔
شمشاد صاحب بہت خوش تھے اس انتخاب پر مجھے کہنے لگے کہ میں نے اس افسر کا کام دیکھا ہے اس کی تربیت بھی کی ہے وزیراعظم نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔
سول اور ملٹری دونوں کی تربیت میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ سینئر کا احترام کیا جائے۔ اگر کسی بات پر آپ کو اپنے سینئر سے اختلاف ہو تو آپ طریقے سے اس کا اظہار کر سکتے ہیں لیکن اپنے سینئر کے بارے میں لکھ کر یہ کہنا کہ آپ کی کارکردگی بہت ناقص رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی ،میرے تصور سے بالاتر ہے۔ فارن سروس میں کئی ایسے لائق فائق افسر تھے جو یقینا فارن سیکرٹری بننے کے قابل تھے لیکن بوجوہ وہ اس منصب پر فائز نہ ہو سکے۔ میرے ذہن میں فوری طور پر تین نام آتے ہیں اور وہ ہیں منیر اکرم جاوید حسین اور اشرف جہانگیر قاضی مگر ان افسروں نے کبھی ایسے خط نہیں لکھے۔ میں نے انڈین سفارت کاروں کو منیر اکرم کی تعریف کرتے سنا ہے۔ فارن آفس میں لائق لوگوں کی نہ پہلے کمی تھی اور نہ آج ہے۔
دسمبر 2016میں اعزاز چودھری نے بطور فارن سیکرٹری اپنے تین سال پورے کر لئے۔ وہ کینسر جیسے مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود اپنے فرائض منصبی سے پورا انصاف کرتے رہے۔ خوب محنت کی اپنا علاج بھی ملک کے شفا خانوں میں کرایا حالانکہ بہت آرام سے باہر جا سکتے تھے۔ دریں اثناء نامساعد حالات کے باوجود عبدالباسط نے پاکستانی پرچم انڈیا میں بلند رکھا۔ نئے فارن سیکرٹری کی پھر سے تلاش شروع ہوئی۔ کئی مرتبہ وزیراعظم نے تہمینہ جنجوعہ‘ نغمانہ‘ فرخ عامل اور غالب اقبال کو انٹرویو کیا۔ ان چاروں میں سے وزیراعظم کو تہمینہ جنجوعہ اس پوسٹ کیلئے سب سے مناسب لگیں۔ وزارت خارجہ میں ڈائریکٹر فارن سیکرٹری آفس اچھی شہرت کے افسروں کو لگایا جاتا ہے۔ تمام فائلیں ڈائریکٹر سے ہوتی ہوئی فارن سیکرٹری تک جاتی ہیں۔ یہ افسر انواع و اقسام کی فائلیں پڑھ کر مزید نکھر جاتے ہیں۔ جب میں فارن آفس میں ایڈیشنل سیکرٹری تھا تو تہمینہ جنجوعہ فارن سیکرٹری ریاض کھوکھر کی آفس ڈائریکٹر تھیں۔ بطور افسر اور بطور انسان ان کی شہرت بہت اچھی تھی۔ تہمینہ بے حد محنتی ہیں بہت جلد مسئلے کی تہ تک پہنچتی ہیں۔ فارن پالیسی کے مسائل کو خوب سمجھتی ہیں۔
اس مرتبہ وزیراعظم نے عبدالباسط کو انٹرویو نہیں کیا۔ فارن آفس نے بھی پینل میں ان کا نام نہیں بھیجا۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ باسط اب ریٹائرمنٹ کے قریب تھے۔ فارن آفس نے عبدالباسط کو واپس اسلام آباد بلانے کا فیصلہ کیا۔ وہ اس فیصلے سے خوش نہیں تھے کیونکہ تہمینہ جنجوعہ باسط سے جونیئر ہیں۔ بہتر ہوتا کہ انہیں دہلی سے کسی اور ملک پوسٹ کر دیا جاتا۔
عبدالباسط نے اوفاکے مشترکہ بیان کی ذمہ داری اعزاز چودھری پر ڈالی ہے۔ یہ بیان نواز مودی ملاقات کے بعد جاری ہوا تھا اور اس میں کشمیر کا ذکر نہیں تھا۔ اوفا میں جناب سرتاج عزیز اور وزیراعظم خود بھی تو موجود تھے۔ کیا یہ بیان ان کی رضامندی کے بغیر ایشو ہوا تھا۔ ایسا ہونا ناممکنات میں سے ہے۔ اسی طرح سے جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے الیکشن میں پاکستان کی شکست کا ملبہ صرف فارن سیکرٹری پر نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ الیکشن کے لئے کنویسنگ جنیوا میں پاکستان کے سفیر کا کام ہے۔
پاکستان کی ہر ناخوشگوار خبر انڈین میڈیا کیلئے مزیدار ہوتی ہی۔ ٹائمز آف انڈیا سے لیکر انڈین ایکسپریس اور دوسرے اخباروں نے خوب مزے لے کر پوری کہانی لکھی۔ ایک اخبار کا کہنا تھا کہ انڈیا کے ساتھ تعلقات کے بارے میں پاکستان کی فارن منسٹری منقسم ہے۔ ایک اور اخبار نے لکھا کہ باسط ،اعزاز چپقلش سول ملٹری تعلقات کے تنائو کی عکاس ہے مگر یہ تجزیہ غلط ہے۔
اور ادھر پاکستان میں بھی سازشی نظرئیے پر یقین کامل رکھنے والے بیدار ہوئے۔ کچھ نے کہا کہ فارن آفس کو بدنام کر کے کچھ مقتدر ادارے وہاں اپنے نمائندے بٹھانا چاہتے ہیں۔ یہ بات بھی میرے دل کو نہیں جچتی کیونکہ یہ دو افسروں کی آپس کی بات تھی۔ فارن آفس نے عبدالباسط کے خط کو لفٹ ہی نہیں کرائی اور داخلِ دفتر کر دیا۔ ایک اور نظریہ سازش والے صاحب کہہ رہے تھے کہ عبدالباسط سے یہ خط مخصوص مفادات رکھنے والے لوگوں نے لکھوایا۔ آخر اسے لکھنے میں چار ماہ کیوں لگے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ کچھ لوگوں کو واشنگٹن کی سفارت کا بڑا شوق ہے۔ ثبوت کیلئے دو مشہور اینکرزکے نام لئے جو امریکہ میں سفارت کیلئے پر تول رہے ہیں مجھے تو یہ سب باتیں ہوائی لگتی ہیں۔میری بس یہ دعا ہے کہ پاکستان کی پہلی دفاعی لائن یعنی فارن سروس مضبوط رہے اور باسط ،اعزاز بدمزگی پھر کبھی نہ ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں