"JDC" (space) message & send to 7575

سفارت کاری میں افراط و تفریط

چند روز پہلے یہ بات موضوعِ بحث رہی کہ وزیر اعظم عمران خان کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ٹیلیفون پر بات کرنا چاہیے تھی یا نہیں۔ آپ میری رائے جاننا چاہتے ہیں تو امریکی وزیر خارجہ کو سلیقے سے یہ جواب دینا چاہیے تھا کہ آپ اپنے ہم منصب یعنی پاکستانی وزیر خارجہ سے گفتگو فرمائیں۔ میں وزیر اعظم ہائوس میں بطور سفارت کار کبھی نہیں رہا‘ لہٰذا اس بات کا کھوج لگانا ضروری سمجھا کہ ماضی میں کیا پریکٹس رہی ہے۔ پتہ چلا کہ ہر لیول کے امریکی سفارت کاروں سے ہمارے وزیر اعظم پہلے بھی فون پر بات کرتے رہے ہیں‘ محترمہ بے نظیر بھٹو مسز شیفرز Mrs. Shaffers اور رابن رافیل Robin Raphel سے فون پر اکثر بات کرتی تھیں اور ان دونوں امریکن خواتین کا رتبہ اسسٹنٹ ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ کا تھا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ کم از کم امریکیوں کی حد تک ہمارے وزرائے اعظم سفارتی پروٹوکول کی خلاف ورزی ماضی میں کرتے آئے ہیں۔ میرے ایک کولیگ‘ جو محترمہ کے عہدِ حکومت میں پی ایم سیکرٹریٹ میں رہے تھے‘ کہنے لگے کہ ایک مرتبہ کسی نے جرأت کر کے محترمہ سے کہہ ہی دیا کہ یہ دونوں امریکن سفارت کار ہمارے ہاں کے ڈپٹی سیکرٹری کے رینک کی ہیں‘ تو جواب ملا کہ وہ میری ذاتی دوست ہیں۔ میرے نزدیک یہ جواب بھی تسلی بخش نہیں تھا‘ کیونکہ جب آپ ملک کے وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو پروٹوکول کا احترام آپ کا فرض ہوتا ہے‘ ذاتی دوستیاں پسِ پشت چلی جاتی ہیں۔ اور اب چونکہ نئے پاکستان کا آغاز ہو چکا ہے‘ لہٰذا میری وزیر اعظم سے درخواست ہو گی کہ پچھلی غلط روایات کو ختم کریں اور بین الاقوامی پریکٹس کے مطابق چلیں‘ پاکستان کی عزتِ نفس بحال کرائیں۔
جس طرح ہم نے افغانستان کے سفیر ملا ضعیف کو نکالا وہ ہماری تاریخ کا سنہری باب نہیں۔ جب آپ غیر ملکی سفراء کی اسناد قبول کرتے ہیں تو ویانا کنونشن کے مطابق ان کا تحفظ میزبان ریاست کا فرض ہوتا ہے۔ ملا ضعیف نے سارا قصہ اپنی کتاب میں بیان کیا ہے اور یہ کتاب کئی زبانوں شائع ہو چکی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس جاسوس تھا‘ سفارت کار نہیں تھا‘ اسے کوئی سفارتی استثنیٰ حاصل نہیں تھا‘ اس نے دو پاکستانی شہریوں کو دن دیہاڑے قتل کیا‘ پھر بھی ہم نے اسے رہا کرنے کے لیے سب جتن کئے۔ اپنے شہری کی مدد کے لیے صدر اوباما نے بھی جھوٹ بولا کہ وہ سفارت کار ہے‘ اور میری نظر میں صدر بارک اوباما کی عزت بڑھ گئی کیونکہ کہا جاتا ہے کہ قومی مفاد میں جھوٹ بولنا جائز ہے۔ ہماری قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کتنے سالوں سے امریکی جیل میں ہے‘ ہم نے اس کے لیے کیا کیا ہے؟ عافیہ صدیقی نے کتنے قتل کئے تھے؟ ہم اس کا مؤثر دفاع کیوں نہیں کر پائے؟
ایمل کانسی کا واقعہ یاد آ رہا ہے۔ اُس پر ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں دہشت گرد حملے کا الزام تھا۔ دوسرا الزام یہ تھا کہ اُس نے امریکہ میں سی آئی اے کے دو بندے قتل کئے‘ واردات کے بعد بھاگ کر پاکستان آیا اور دور دراز علاقے میں روپوش ہو گیا۔ امریکہ نے ہم سے ایمل کانسی مانگا اور ہم نے کمال مستعدی سے اسے ڈیرہ غازی خان کے ایک گمنام ہوٹل میں ڈھونڈ نکالا اور امریکہ کے حوالے کر دیا۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا کیونکہ اس پر دہشت گردی اور قتل کے الزامات تھے‘ دراصل امریکی حکام نے ایمل کانسی کی پاکستان میں گرفتاری پر خطیر رقم صرف کی تھی۔ اس پر ایک امریکن آفس ہولڈر کا بیان چشم کشا تھا‘ اس نے کہا کہ اتنے پیسے خرچ کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی‘ اس سے کم رقم آپ کسی پاکستانی کو دیں وہ آپ کو اپنی جان پیش کر دے گا۔ گو کہ اس بات میں صریحاً مبالغہ ہے‘ لیکن امریکہ والوں نے ہمارے بارے میں یہ رائے یقیناً ہماری اشرافیہ کے کردار کو دیکھ کر قائم کی ہو گی۔ وکی لیکس کے مطابق اس وقت کی امریکی سفیر این پیٹرسن Ann Peterson کی رائے تھی کہ پاکستان میں صدر زرداری کے بعد یوسف رضا گیلانی سب سے کرپٹ سیاستدان ہیں‘ اور اس بات کو بھی وکی لیکس نے ہی افشا کیا کہ ہمارے مولانا فضل الرحمن نے وزیر اعظم بننے کے لیے امریکی سفیر سے مدد کی درخواست کی تھی۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو این آر او دلوانے میں امریکی رول کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ چند سال پہلے پاکستان میں تباہ کن سیلاب آیا‘ ترکی کی خاتون اول نے پاکستانیوں کی محبت میں اپنا ذاتی ہار بطور امداد بھیجا اور پھر وہی ہار ہمارے وزیر اعظم کے گھر سے برآمد ہوا۔ اگر غیر ملکیوں کی رائے ہمارے بارے میں اس قدر خراب ہے تو پھر اس میں کیا تعجب ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو یہ منفی تاثر زائل کرنا ہو گا۔
معاف کیجئے گا‘ بات موضوع سے ذرا ہٹ گئی۔ اسلام آباد میں تین سفارت خانے اپنے قومی دن کی مناسبت سے استقبالیے کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ 1994ء کی بات ہے‘ میں ان دنوں وزارت خارجہ میں ڈی جی تھا۔ مشرق بعید کے ایک ملک نے ڈپلومیٹک انکلیو میں اپنے قومی دن کو منانے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ میں بھی موجود تھا۔ پروٹوکول یہ ہے کہ قومی دن کے استقبالیہ کے لئے حکومتی لیڈروں کو خواہ درجنوں دعوت نامے آئیں‘ حکومت اپنا ایک نمائندہ ہی بھیجتی ہے۔ میں استقبالیہ میں پہنچا تو کئی وزراء وہاں نظر آئے۔ کسی صاحب نے کہا کہ چھ فیڈرل منسٹر آئے ہوئے ہیں۔ پانچ تو میں نے بھی گنے۔ اس استقبالیے میں' انگور کی بیٹی‘ فراخدلی سے پیش کی جا رہی تھی اور ہمارے وزراء بد ذوق نہیں ہو سکتے۔ لیکن یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اتنے زیادہ وزیروں کا ایک ہی فنکشن میں پاکستان کی نمائندگی کرنا‘ پروٹوکول کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
غالباً 2011ء کی بات ہے‘ ڈپلومیٹک انکلیو میں ایک خلیجی ملک نے اپنے قومی دن کی مناسبت سے بڑے کھانے کا بندوبست کیا تھا۔ بڑے کھانے اور استقبالیہ میں فرق ہے‘ حالانکہ دونوں کو عموماً نام ایک ہی دیا جاتا ہے۔ استقبالیہ میں مکمل ڈنر کا بندوبست نہیں ہوتا۔ میں بھی اس بڑے کھانے کے لیے مدعو تھا۔ شمس گیٹ کے پاس پولیس کی بڑی نفری تھی‘ ہر آنے والے کا دعوت نامہ اور شناختی کارڈ چیک کئے جا رہے تھے۔ لگتا تھا کہ کوئی بہت ہی اہم شخصیت آنے والی ہے۔ سفیر صاحب کی رہائش گاہ کے باہر بڑا پنڈال لگا ہوا تھا۔ سینکڑوں لوگ مدعو تھے۔ عرب ممالک کا دستر خوان بھی وسیع ہوتا ہے۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ایسے مواقع پر قومی ترانے بجائے جاتے ہیں پھر کیک کاٹا جاتا ہے اور ایک آدھ تقریر ہوتی ہے۔ اس تقریب میں مہمان خصوصی صدر آصف علی زرداری تھے۔ کسی ایمبیسی میں صدر مملکت کا جانا غیر معمولی فعل ہے اور یہ مروجہ پروٹوکول کے مطابق نہیں‘ البتہ اس ملک کا سربراہ اگر پاکستان کے قومی دن یعنی 23 مارچ کے استقبالیہ میں آتا ہو تو اور بات ہے‘ اور میں نے کبھی کسی خلیجی ملک کے بادشاہ یا امیر کو کسی سفارت خانے کے استقبالیہ میں نہیں دیکھا‘ تو زرداری صاحب اس ملک پر خاص عنایت کیوں فرما رہے تھے؟ پتہ چلا کہ اس ملک میں زرداری صاحب نے سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ نہ جانے ہمارے حکمران اپنے سرکاری عہدوں کو ذاتی اغراض کے لیے کیوں استعمال کرتے ہیں۔
جنرل مشرف کو ایک دوست خلیجی ملک کے حکمران نے خطیر رقم بطور تحفہ پیش کی جو انہوں نے خوشی سے قبول کر لی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ سلیقے سے یہ تحفہ لینے سے معذرت کر لیتے‘ اس سے پاکستان کے وقار میں اضافہ ہی ہوتا۔ پچھلے دنوں مجھے یہ معلوم کرنے کا اشتیاق ہوا کہ صدر مملکت یا وزیر اعظم کو کسی ملک کے لیڈر کی ٹیلیفون کال آئے تو سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (SOP) کیا ہے۔ پتہ چلا کہ سب سے پہلے کال ملٹری سیکرٹری کے پاس آتی ہے‘ ملٹری سیکرٹری وزیر اعظم کو انفارم کرتا ہے اور طے شدہ وقت دوسری سائیڈ کو بتایا جاتا ہے۔ میرے لیے حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سارے پروسیجر میں سے فارن آفس کیوں غائب ہے۔ استفسار کرنے پر پتہ چلا کہ اگر ضروری ہو تو فارن آفس سے ٹاکنگ پوائنٹ منگوا لیے جاتے ہیں۔ میرے خیال میں کال لینے یا نہ لینے کا فیصلہ فارن آفس کے ساتھ مشورے سے ہونا چاہیے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے حکمران خودداری اور عزتِ نفس کا مظاہرہ کریں اور قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیں‘ تا کہ پاکستان کے وقار میں اضافہ ہو‘ سبز پاسپورٹ کی عزت ہو اور ہم ہر جگہ فخر سے کہہ سکیں کہ ہم پاکستانی ہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں