"JDC" (space) message & send to 7575

شام سے امریکہ کا عسکری انخلاء

حال ہی میں جب امریکی صدر ٹرمپ نے شام سے فوج کے انخلاء کا فیصلہ کیا تو ان کے وزیر دفاع مستعفی ہو گئے۔ عمومی طور پر مشاہدے میں آیا ہے کہ قدامت پسند یعنی ری پبلکن پارٹی والے دوسرے ممالک میں عسکری مداخلت کے حق میں ہوتے ہیں جبکہ لبرل طبقہ‘ جو ڈیمو کریٹک پارٹی کا جزو لازم ہے‘ بیرونی مہم جوئی کا مخالف رہا ہے۔ افغانستان اور عراق میں عسکریت مداخلت ری پبلکن صدر جارج بش کے زمانے میں ہوئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ بہت سالوں بعد ایسے ری پبلکن صدر ہیں جو بیرونِ ملک امریکی افواج کے وجود کو کم کرنے کی فکر میں ہیں۔ پچھلے دنوں ٹرمپ نے ایک اور بیان میں کہا تھا کہ امریکہ اب دنیا کے پولیس مین کا رول ادا نہیں کر سکتا۔ ان کی زیادہ توجہ اکانومی پر ہے گو کہ ڈیفنس بجٹ میں بھی کوئی کمی نہیں ہوئی۔ ٹرمپ امریکہ کو عسکری طور پر بھی مضبوط رکھنا چاہتے ہیں لیکن بیرونی عسکری مہم جوئی کے وہ خلاف ہیں۔
اس سے پہلے امریکی حکومت کا موقف تھا کہ امریکی افواج شام سے تب نکلیں گی جب ایران اپنی فوجیں نکالے گا لیکن ایران کا اس قسم کا ارادہ دور دور تک نظر نہیں آتا‘ لہٰذا صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کو ایک اور یوٹرن کہا جا سکتا ہے۔ اس امریکی فیصلے سے ایران کو یقینا خوشی اور طمانیت ہوئی ہے جبکہ اسرائیل اور خلیجی ممالک تشویش کا شکار نظر آتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا استدلال ہے کہ ہمارا شام میں فوجی دستے بھیجنے کا مقصد داعش کا خاتمہ تھا اور وہ ہدف ہم نے حاصل کر لیا ہے لہٰذا شام میں اب امریکی عسکری وجود کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ لیکن کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ داعش کی باقیات شام میں چھپ کر خاموشی سے بیٹھی ہوئی ہیں اور امریکی عسکری انخلاء کے بعد دوبارہ پر پُرزے نکال سکتی ہیں۔ گو کہ صدر ٹرمپ کے فیصلے پر عمل درآمد ابھی شروع نہیں ہوا، لیکن اس کے ممکنہ اثرات پر بحث ضروری ہے۔
اس وقت ایران میں امریکہ کے علاوہ جو ممالک عسکری وجود رکھتے ہیں وہ ہیں روس ،ایران اور ترکی۔ ان میں سے ایران اور ترکی خطے کے ممالک ہیں جبکہ روس کو ایک طرح سے خارجی عسکری عنصر کہا جا سکتا ہے۔ توقع ہے کہ امریکی عسکری انخلاء کے بعد داعش اور شامی جہادی‘ روسی افواج کے خلاف سرگرم ہو جائیں گے کیونکہ پھر یہی غیر مسلم افواج رہ جائیں گی۔
روس ایران اور ترکی شام میں الگ الگ اہداف رکھتے ہیں۔ اس وقت وہ امریکی عسکری وجود کی وجہ سے کسی حد تک متحد نظر آتے ہیں لیکن پھر وہ اپنے اپنے مفادات کے پیچھے بھاگیں گے۔ مثلاً ترکی کو یقین ہے کہ شامی کردوں کے ترک اکراد کے ساتھ مسلسل رابطے ہیں، خاص طور پر اُن عناصر کے ساتھ جو انقرہ مخالف ہیں۔ اس پر بھی یقین ہے کہ بشار الاسد کی حکومت اس سے عمداً اغماض کر رہی ہے۔ امریکہ نے شامی اکراد کو داعش کے خلاف جنگ میں استعمال کیا اور اپنا ہدف بڑی حد تک پورا کر لیا ہے لیکن وہ کردوں کا آزادی کا خواب پورا نہیں کر سکا۔ اب شام کے شمالی علاقے میں ترک اثر و نفوذ بڑھے گا۔ شامی اکراد اب بڑی حد تک ترکی کے کنٹرول میں ہوں گے۔ تو کیا شام نفوذ کے حلقوں (Spheres of Influence) میں تقسیم ہو جائے گا۔ یہ کہنا فی الحال مشکل ہے کیونکہ ایران کی سرحدیں شام کے ساتھ نہیں لگتیں۔ شام کی سرحدیں اردن، لبنان، اسرائیل اور ترکی سے ملحقہ ہیں۔ اردن اور لبنان دونوں آبادی اور رقبے کے لحاظ سے شام سے چھوٹے ممالک ہیں۔ معاف کیجئے شام کی سرحدیں عراق سے بھی ملتی ہیں لیکن جب میں دمشق میں پوسٹڈ تھا تو یہ بارڈر اکثر بند رہتا تھا، حالانکہ دونوں ممالک میں بعث پارٹی کی حکومت تھی لیکن یہ مخالف دھڑے تھے۔ بغداد والے اپنے آپ کو زیادہ نظریاتی سمجھتے تھے جبکہ دمشق والی بعث پارٹی پر حافظ الاسد کی فوجی اسٹیبلشمنٹ حاوی تھی۔ بات عنوان سے ذرا دوسری جانب چلی گئی۔ آج کا عراق اس قابل نہیں کہ وہ شام میں اپنا اثر ورسوخ بڑھا سکے۔ ترکی اور اسرائیل دو جغرافیائی ہمسایہ ممالک ہیں، جو طاقتور ہیں۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے، ترکی کی دلچسپی زیادہ تر شام کے شمالی علاقے میں ہیں۔ وہ نہیں چاہتا کہ شامی اکراد ترکی کے معاملات میں زیادہ دلچسپی لیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ترکی کی رائے میں دمشق کی حکومت کو اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے اور ایسا اس صورت میں ممکن ہے جب دمشق میں ترکی دوست حکومت ہو جو کہ اس وقت نہیں ہے۔ اسرائیل کا شام میں حلقۂ نفوذ بنانا اس لیے ناممکن نظر آتا ہے کہ وہاں اسرائیلی مخالف سوچ آج بھی باقی عرب ممالک سے زیادہ ہے۔
یہ تجزیہ بھی غلط ہوگا کہ شام میں ایرانی اور روسی اثر ورسوخ جلد ختم ہو جائے گا۔ ایک موثر نان سٹیٹ ایکٹر حزب اللہ، ہمسایہ ملک لبنان میں وجود رکھتی ہے۔ حزب اللہ کو عسکری امداد بھیجنے کے لیے ایران کو عراق اور شام کی سپورٹ حاصل ہے اور مستقبل میں بھی درکار ہوگی لہٰذا ایران شام سے جلد ہاتھ کھینچنے والا نہیں ہے۔ ایک اور دلچسپ زاویہ یہ ہے کہ ایران اور حزب اللہ کا شام میں بڑھتا ہوا اثرو رسوخ اسرائیل کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ وہ شام میں ایران کے عسکری وجود کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ دوسری جانب روس اور اسرائیل کے تعلقات دوستانہ ہیں لہٰذا اسرائیل کی خواہش ہوگی کہ روسی افواج شام سے اُس وقت تک نہ جائیں جب تک ایرانی افواج اور حزب اللہ وہاں موجود ہیں۔
شام سے امریکہ کے عسکری انخلاء کی وجہ سے امریکہ ترکی تعلقات بہتر ہوں گے۔ اب تک امریکہ اور ترکی شام کے شمالی علاقے میں مخالف دھڑوں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ اب ان کے تعلقات پر منفی اثر ڈالنے والا یہ عنصر نکل جائے گا۔ ٹرکش اور امریکن کنسٹرکشن کمپنیاں للچائی ہوئی نظروں سے شام کی تعمیرِ نو کے منصوبوں کودیکھ رہی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ روسی کمپنیاں بھی میدان میں آئیں گی۔ لیکن شام کی تعمیرِ نو کے لیے بہت زیادہ سرمایہ درکار ہے جو ایران روس اور ترکی کے پاس کم ہے۔ سرمایہ خلیجی ممالک کے پاس ہے۔ امریکہ نے بڑی حد تک سعودی عرب کو سرمایہ لگانے کے لیے تیار کر لیا ہے۔ اس سے سعودی عرب کے لیے خیر سگالی کے جذبات کسی حد تک پھر سے پیدا ہوں گے۔
کئی یار لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ امریکہ خطے سے بھاگ رہا ہے اور یہ تجزیہ بھی غلط ہے۔ خلیجی ممالک میں امریکہ کے فوجی اڈے قائم ہیں اور مستقبل قریب میں بند ہوتے نظر نہیں آتے تاآنکہ ایران اور خلیجی ممالک کے درمیان تناؤ ختم نہ ہو جائے اور ایسا فی الحال ممکن نہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شام سے جانے والی امریکی افواج عراق میں پوسٹ کر دی جائیں گی۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایران کے گرد دائرہ تنگ کرنے والی سٹریٹیجی کا حصہ ہے۔
امریکہ میں چند مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کا شام سے فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ اس امید پر کیا گیا ہے کہ اس طرح شاید 2016ء کے الیکشن میں مبینہ روسی مداخلت والا پریشر کم ہو جائے۔ جب سے ایوان زیریں میں ڈیمو کریٹک پارٹی کو اکثریت حاصل ہوئی ہے، ہاؤس میں صدر ٹرمپ پر تنقید میں اضافہ ہوگیا ہے، لیکن صدر کے مواخذے کا چانس اس وقت نظر نہیں آتا۔ دراصل یہ رائے غلط ہے اور یاد رہے کہ 1973ء میں صدر نکسن نے ویت نام سے افواج کے انخلاء کا فیصلہ بھی اسی امید پر کیا تھا لیکن واٹر گیٹ سیکنڈل کا پریشر کم نہیں ہوا تھا۔
میں نے شام میں تین سال سے زائد کا عرصہ گزارا ہے۔ شامی بہت محنتی، ذہین اور سمارٹ لوگ ہیں۔ عالمی ماہرینِ اقتصادیات کہہ رہے ہیں کہ شام بہت جلد دنیا کے تیز ترین ترقی پذیر ممالک میں شامل ہوگا۔ سیریا (شام) ایک بار پھر سیاحت کا مرکز ہوگا۔ لوگ وہاں بڑی تعداد میں زیارتوں کے لیے جائیں گے۔ یہ ملک ہزارہا سالوں سے تجارتی قافلوں کی گزرگاہ ہے۔ یہ ایسے ہی ترقی کرے گا جیسے تباہ حال ویت نام نے کی جس طرح جاپان اور جرمنی جیسے تباہ شدہ ممالک پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں اور یہ حاصل کرنے کے لیے شام کو امن کی اشد ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں