"JDC" (space) message & send to 7575

سلطان قابوس بن سعید

سلطان قابوس کی وفات ایک عہد کی انتہا ہے۔ ایک ایسے رجل رشید کی دنیا سے رحلت ہوئی ہے جس نے نصف صدی تک نہ صرف حکومت کی بلکہ اپنے ملک و قوم کی کایا پلٹ دی۔ اس ذی شعور اور مخلص لیڈر نے یہ ثابت کر دکھایا کہ ایک چھوٹا ملک بھی عالمی اور ریجنل امن میں بڑا حصّہ ڈال سکتا ہے۔ سلطان محروم کا ہاتھ ہمیشہ اپنی قوم کی نبض پر رہتا تھا۔ ان کا عہد امن، خوشحالی اور دور رس اصلاحات کے عہد کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
سلطان قابوس کو عربی تراث پر فخر تھا۔ وہ فقہ اسلامی سے بھی خوب واقف تھے۔ ہر سال پارلیمنٹ میں آ کر اہم قومی اور بین الاقوامی مسائل پر فصیح عربی میں خطاب کرتے۔ اس اجلاس میں وزرا اور اعضائے پارلیمان تو ہوتے ہی تھے اس کے علاوہ تمام سفرا اور اہم ممالک سے میڈیا کے لوگ بھی مدعو ہوتے تھے۔ میں تین سال تک سلطنتِ عمان(پاکستان میں اسے اومان بھی لکھتے ہیں‘ اصلی لفظ عُمان ہے) میں سفیر رہا۔ اسنادِ سفارت پیش کرنے سے لے کر الوداعی ملاقات تک مجھے متعدد مرتبہ سلطانِ معظم سے ملنے کا موقع ملا۔ وہ ایک سنجیدہ انسان تھے۔ بات نپی تلی کرتے تھے۔ ان کی زندگی عوام کی بہبود کے لیے وقف تھی۔ ہر سال دو تین ماہ اندرونِ ملک جا کر عوام کو ملتے‘ ان کی شکایات سنتے اور بہت سے مسائل فوراً ہی حل کر دیتے۔ سلطنتِ عمان کی آبادی گو کم ہے لیکن رقبہ بہت وسیع ہے۔ وہ عوامی رابطے کے لیے ہر سال مختلف علاقے کا انتخاب کرتے۔
سلطان قابوس کا خاندان 1744 ء سے سلطنتِ عمان پر حکومت کر رہا ہے۔ سلطان مرحوم نے 1970ء میں اقتدار سنبھالا تو ملک بھر میں کوئی پکی سڑک نہیں تھی۔ صرف مسقط اور صلالہ میں چند کلو میٹر پکی گلیاں تھیں۔ دارالحکومت مسقط میں رات کو لوگ لالٹین ہاتھ میں لے کر چلتے تھے۔ پورے ملک میں معدودے چند سکول تھے۔ صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں ۔ غربت عام تھی۔ عمانی شہری اکثر تلاشِ معاش میں بحرین اور کویت جاتے تھے۔ آج ملک میں اعلیٰ پائے کی سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ مسقط کی سلطان قابوس یونیورسٹی وسیع و عریض رقبے پر قائم شاندار دانش گاہ ہے، جہاں میڈیسن انجینئرنگ، زراعت، انگلش ، عربی کے علاوہ بہت سے شعبے ہیں۔ باقی ملک کی طرح اس یونیورسٹی کا ڈسپلن بہت متاثر کرتا ہے۔ میں وہاں علامہ اقبال کی شاعری پر عربی میں لیکچر دینے گیا تھا۔ اساتذہ اور طلبا دونوں نے بہت پُر مغز سوال پوچھے تھے۔
آج دنیا کے کونے کونے سے لوگ سلطنت عمان کام کرنے آتے ہیں۔ بیس لاکھ کے قریب فارنر یہاں رہتے ہیں۔ سنگاپور کے بعد مسقط دنیا کا سب سے صاف شہر شمار کیا جاتا ہے۔ یہاں اباضی، سنی اور شیعہ مسلمان بھائیوں کی طرح رہتے ہیں۔ خلیجی ممالک میں ہندوئوں کا سب سے پہلا مندر مسقط میں بنا تھا۔ پورے مل میں مکمل امن ہے۔ جگہ جگہ مساجد ہیں۔ مسقط کی گرینڈ مسجد فنِ تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ پچھلے ہفتے سلطان قابوس کی نماز جنازہ اسی مسجد میں ادا کی گئی تھی۔
1970ء میں جب سلطان قابوس نے اقتدار سنبھالا تو معاشرہ بری طرح منقسم تھا۔ صلالہ کے قرب و جوار میں سول وار کی سی کیفیت تھی۔ دنیا میں کولڈ وار اپنے جوبن پر تھی۔ صلالہ کے آس پاس بائیں بازو کے ہمدردوں کو ایک سپر پاور کی حمایت حاصل تھی۔ برطانیہ، ایران اور اردن نے نوجوان سلطان کی مدد کی اور اس بغاوت کو کچل دیا گیا۔ یہ سلطانِ معظم کی پہلی بڑی کامیابی تھی لیکن جس بات کا بہت کم لوگوں کو علم ہے وہ ہے ہمارے بلوچ بھائیوں کا سلطان کے لیے دلیری سے لڑنا۔ بلوچ عمان میں ایک عرصے سے آباد ہیں اور آپ کو یاد ہوگا کہ گوادر ایک زمانے میں سلطنتِ عمان کا حصہ تھا۔ سلطنت کی فوج اور پولیس میں بلوچی بھائی خوشی سے بھرتی ہوتے ہیں اور وہاں کی حکومت بھی ان کی بہادری کی قدر دان ہے۔ مجھے وہاں کے آرمی چیف نے بتایا کہ صلالہ کی جنگ میں بلوچ سپاہی مورچے میں چھپتے نہیں تھے بلکہ کھڑے ہو کر لڑتے تھے۔ بہادری کے یہ قصے سن کر میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا تھا۔
عمان کا سمندری ساحل ہزار کلو میٹر سے زیادہ ہے۔ یہ لوگ صدیوں سے سمندری تجارت سے وابستہ تھے۔ سلطنت عمان کی نیوی بہت مضبوط تھی۔ عمانی نیوی نے پرتگالی بحریہ کو شکست دی تھی۔ اس فتح کے نتیجے میں مشرقی افریقہ کا وسیع ایریا سلطنت عمان کا حصہ بنا۔ 1840 میں زنجبار کچھ عرصہ مسقط کی بجائے، سلطنت عمان کا دارالحکومت بھی رہا۔ 
ہمارے مکران کے علاقے اور انڈیا کے گجرات کاٹھیا واڑ کے ساتھ عمانی تاجر صدیوں تک تجارت کرتے رہے۔ اپنے صدیوں کے خارجی تجربوں کی وجہ سے عمانی با اعتماد اور اور متانت سے بھرپور لوگ ہیں۔ تکبّر اور رعونت ان کو چھو کر نہیں گئی۔ سلطان قابوس کی شخصیت میں بھی یہی دلفریب انکساری، خود اعتمادی اور خلوص بدرجہ اتّم نظر آتے تھے۔ وہ جس سے ملتے وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا۔ پورے ملک میں ڈسپلن ہے۔ سرکاری دفاتر میں سب لمبا کرتہ پہنتے ہیں اور پگڑی باندھ کر آتے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کے لوگ بھی سر پر ٹوپی ضرور رکھتے ہیں۔ کوئی شخص ننگے سر نظر نہیں آتا۔
ایک مختصر عرصے میں سلطان قابوس نے اپنے ملک کی اقتصادی کایا پلٹ دی۔ انہیں ہم جدیدِ عمان کا بانی کہہ سکتے ہیں۔ آج نزویٰ میں بھی یونیورسٹی ہے۔ صحار میں بین الاقوامی معیار کی ڈیپ سی پورٹ بنی ہے۔ تمام ملک میں سکول اور ہسپتال ہیں۔ شاپنگ مال انواع و اقسام کی امپورٹڈ اور لوکل چیزوں سے بھرے پڑے ہیں۔ 2011ء میں عرب سپرنگ کا پھیلائو شروع ہوا تو حرارت سلطنت تک بھی پہنچی۔ صحار میں چند بے روزگار لوگوں نے مظاہرہ بھی کیا۔ ایک بی بی سی کے نمائندے نے لوگوں سے پوچھا کہ مصر کے عوام صدر حسنی مبارک سے جان چھڑانا چاہتے ہیں‘ کیا آپ بھی ایسا ہی چاہتے ہیں؟ سب لوگوں کا جواب نفی میں تھا کیونکہ عمان کے عوام سلطان قابوس سے محبت کرتے تھے اور بے پناہ محبت اور یہ رشتہ دو طرفہ تھا۔ دانش مند سلطان نے فوراً بے روزگاری الائونس کی منظوری دے دی اور معاملہ ختم ہو گیا۔
سلطنت عمان سے باہر سلطان قابوس اپنی آزاد اور امن پسند فارن پالیسی کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ 1979ء میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا تو اکثر عرب ممالک نے مصر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لئے، لیکن سلطنت عمان نے تعلقات بحال رکھے۔ اسی طرح پہلی عراق ایران جنگ میں تمام خلیجی ممالک نے عمان پر پریشر ڈالا کہ وہ تہران سے قطع تعلقی کریں مگر ایسا نہیں ہوا۔ سلطان قابوس کی خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول تھا کہ ہمسایوں سے اچھے تعلقات رکھو اور دوسروں کی لڑائی میں مت پڑو۔ وہ ہمیشہ متحارب ملکوں میں صلح کے لیے خاموشی سے کوشاں رہے۔ 1990ء میں ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بحال کرانے میں پاکستان اور عمان دونوں کی مساعی کا دخل تھا۔ 2013ء میں سلطان مرحوم نے امریکہ اور ایران میں ایٹمی معاہدہ کرانے کی جدوجہد شروع اور دو سال کی مسلسل کوشش کے بعد کامیاب ہوئے۔ 2018ء میں چند خلیجی ممالک نے قطر کا سیاسی اور اقتصادی بائیکاٹ کیا مگر سلطان قابوس اس کا حصہ نہ بنے ۔ وہ ہمیشہ صلح جوئی کی کوشش میں مگن رہتے تھے۔ لڑائی اور چپقلش سے بہت دور رہتے تھے۔ صلح جو اور امن دوست خارجہ پالیسی کے طفیل ان کے ملک نے بہت ترقی کی کیونکہ جنگی اخراجات سے بچا رہا۔ 
ایک لحاظ سے سلطنت عمان اور پاکستان کے مابین ہمسائگی کا رشتہ ہے کیونکہ ہماری سرحدیں سمندری میں ملتی ہیں۔ میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ سلطان قابوس کی شدید خواہش تھی کہ انڈیا اور پا کستان کے مابین امن ہو جائے۔ وہ اس سلسلہ میں کوشاں بھی رہتے تھے۔ چونکہ وہ خاموش سفارت کاری پر یقین رکھتے تھے لہٰذا یہ بات زیادہ لوگوں کے علم میں نہیں۔ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ موجودہ سلطان ھیثم بن طارق پاکستان سے خوب واقف ہیں۔ ان کے والد محترم سید طارق بن تیمور بہت عرصہ پہلے کوئٹہ سٹاف کالج کورس کرنے آئے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں