"JDC" (space) message & send to 7575

شہر اقتدار کے گمبھیر مسائل

برادرم محمد اظہار الحق نے اپنے تازہ کالم میں اس بات کی تشدید کی ہے کہ نوکر شاہی وزیراعظم کے شکایات پورٹل کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے چیف کمشنر اسلام آباد تک مسلسل کوشش کے باوجود اپنی نارسائی کا قصہ بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اظہار صاحب کا خیال ہے کہ کالے صاحب انگریز بہادر کی نقالی میں عوام الناس سے دور رہتے ہیں‘ لیکن میں نے سنا ہے کہ اگر کوئی انڈین اپنی جائز شکایت انگریز افسر کے پاس لے کر جاتا تھا تو اس کا حتماً ازالہ ہوتا تھا۔ دوسری بات گورے افسروں کے بارے میں یہ سنی ہے کہ وہ زیادہ وقت دفاتر کی بجائے فیلڈ میں گزارتے تھے‘ تا کہ لوگوں کے مسائل کا علم رہے۔ ہمارے برائون صاحبان یہ باتیں بھول گئے ہیں۔
میں 2007ء میں ریٹائر ہو کر پاکستان واپس آیا تو اسلام آباد میں گھر بنانے کا مرحلہ در پیش تھا۔ پنشن کا حصول ایک اور مسئلہ تھا۔ ہمیں سروس کی ٹریننگ کے دوران بتایا جاتا تھا کہ کوئی سرکاری یا غیر سرکاری خط آئے‘ اس کا جواب ضرور جانا چاہیے اور جلد جانا چاہیے ‘مگر وطن عزیز میں یہ روایت خاصی کمزور ہو چکی ہے۔ میں نے جتنے خط لکھے اکثر کے جواب نہیں آئے تو یار لوگوں نے بتایا کہ اب خط لکھنے سے کام نہیں ہوتے‘ افسران کو آفس جا کر ملنا ضروری ہے ‘لیکن جیسا کہ اظہار صاحب نے بتایا ہے کہ برائون صاحب کو ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ 
گھر مکمل ہو گیا تو سی ڈی اے سے درخواست کی کہ جناب موقع پر آ کر انسپکشن کر کے تکمیلی سرٹیفکیٹ عنایت فرمائیں۔ کوئی جواب نہ ملا‘ تنگ آ کر وفاقی محتسب کے ہاں درخواست دی‘ تب جا کے سی ڈی اے والوں نے وہ سرٹیفکیٹ جاری کیا۔ دوسری چیز جو میں نے نوٹ کی وہ یہ تھی کہ ہماری نوکر شاہی ہر وقت پلاٹوں کے شکار میں مصروف رہتی ہے۔ جی13 سیکٹر‘ جہاں میری رہائش ہے‘ وہاں بیوروکریسی نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی منظوری سے سو سے زائد رہائشی پلاٹ کمرشل مرکز اور پارکوں کے لیے مختص کردہ زمین پر بنا لیے۔ سیکٹر کے باسیوں نے ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر کے سٹے آرڈر لیا اور بابوئوں کو اپنے سیکٹر کا حلیہ بگاڑنے سے روکا‘ لیکن چند با خبر اور سمارٹ بابو بروقت پلاٹ بیچ کر جیبیں بھرنے میں کامیاب رہے۔
معاصر کالم نگار رئوف کلاسرا کو شکوہ ہے کہ اسلام آباد کراچی کی طرح گندا شہر بن گیا ہے۔ ان کا یہ شکوہ بالکل بجا ہے۔ مجھے اس سے بڑھ کر یہ گلہ ہے کہ اسلام آباد ایک کنکریٹ کا جنگل بن رہا ہے۔ کھلے میدان کم ہو رہے ہیں‘ بچے گلیوں میں کرکٹ کھیلنے پر مجبور ہیں۔ اسلام آباد میں پانی کی شدید کمی ہے۔ یہاں واٹر مافیا کا کاروبار عروج پر ہے۔ خاص طور پر موسم گرما میں۔ پورے شہر میں ایک ہی بڑا پارک ہے وہاں بھی انٹرنیشنل فرنچائز کا فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ بنا ہوا ہے۔ ایک بائولنگ کلب بن چکا ہے۔ نظریۂ پاکستان والوں نے وسیع عمارت کھڑی کر دی ہے۔ ذرا کوئی لندن کے ہائیڈ پارک میں عمارت بنا کے دکھائے۔ پورا ملک احتجاج کرے گا۔ تبھی تو انگلستان کی بیورو کریسی کو غلط کام کرنے کی جرأت نہیں ہوتی۔
اسلام آباد اور کراچی میں ایک اور قدرِ مشترک چائنا کٹنگ ہے۔ زمینی لیول پر چائنا کٹنگ ہو تو فوراً نظر آ جاتی ہے؛چنانچہ اب یار لوگ آسمان کی جانب چائنا کٹنگ کرتے ہیں۔ یعنی پانچ منزلہ عمارت کا نقشہ پاس کرائو اور دس منزلہ عمارت بنا لو۔ اسلام آباد میں یہ کام نمبر ون شارع دستور پر کنونشن سنٹر کے پاس ہوا ہے۔ جی 13 میں ہائوسنگ فائونڈیشن نے جوائنٹ وینچر بنا کر کارپوریٹ سیکٹر کو اس گناہ میں شامل کر لیا ہے۔ اصل نقشہ میں چار منزلہ عمارتیں اب چودہ منزلہ ہو گئی ہیں۔ یہاں تین ہزار فلیٹ ہوں گے۔ یہ پروجیکٹ اصل نقشے کی موت ہے۔ اردگرد پلاٹوں کی قیمتیں برُی طرح گری ہیں۔ جب یہ تین ہزار گھر آباد ہو جائیں گے تو سیکٹر کی سڑکوں پر کاریں ہی کاریں ہوگی‘گزرنا مشکل ہو جائے گا۔ گیس اور پانی کا شدید بحران ہوگا۔ پانی پہلے سو فٹ پر نکلتا تھا اب لوگ ساڑھے تین سو فٹ بور کرا رہے ہیں۔ اگر غازی بروتھایا خان پور ڈیم سے پانی جلد نہ لایا گیا تو اسلام آباد میں پانی کی قلت سیاسی مسئلہ بن سکتی ہے۔
ریاست کے بنانے کا اولین مقصد جان و مال کی حفاظت تھا۔ اسلام آباد کا محل وقوع ایسا ہے کہ کیپٹل کا علاقہ جرائم پیشہ لوگوں کے لیے جنت ہے۔ یہاں سے جرم کر کے پنجاب یا کے پی کے چلے جانا بہت آسان ہے۔ فیض آباد سے پنجاب شروع ہو جاتا ہے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کی دوسری جانب خیبرپختونخوا ہے۔ آزاد کشمیر بھی زیادہ دور نہیں۔ مجرم کا سراغ لگ بھی جائے تو اسلام آباد پولیس دوسرے صوبے میں جا کر خود اُسے گرفتار نہیں کر سکتی۔ قانونی کارروائی میں ایک دو روز لگ جاتے ہیں‘ اتنے میں مجرم ضمانت قبل از گرفتاری کروا لیتا ہے۔ اسلام آباد کی جرائم پیشہ لوگوں سے حفاظت کے لیے خصوصی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اس سال مئی میں میرے گھر پر ڈاکے کو دس سال ہو جائیں گے۔ کیس اچھی طرح ٹریس ہو گیا تھا مگر ڈاکو آج بھی آرام سے اٹھ مقام آزاد کشمیر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
تمام فوجداری کیس ریاست کے خلاف جرائم تصور کیے جاتے ہیں‘ لہٰذا ریاست خود مجرموں کا تعاقب کرتی ہے‘ لیکن بوجوہ اسلام آباد پولیس اس ضمن میں بہت ماٹھی ہے۔ شاید ٹریننگ ناقص ہے یا کوئی اور وجوہات ہیں۔ میں چار آئی جی صاحبان کو مل چکا ہوں ‘ہر ایک نے پوری مدد کرنے کا وعدہ کیا‘ مگر نتیجہ صفر۔ تنگ آ کر صدر آزاد کشمیر جناب مسعود خان کو لکھا۔ انہوں نے فوراً اپنے آئی جی کو لکھا‘ پھر کیا ہوا مجھے علم نہیں۔ آئی جی نے بھی مناسب نہیں سمجھا کہ مجھے کچھ پراگریس رپورٹ بتائی جائے۔ چونکہ برادرم اظہار الحق صاحب کی طرح میرے نام کے ساتھ بھی ریٹائرڈ کا لاحقہ لگ چکا ہے‘ لہٰذا صاحب بہادر نے سوچا ہوگا کہ اس پرانے کیس پر وقت ضائع نہ کیا جائے۔
ریاست شہریوں کے ٹیکسوں سے چلتی ہے۔ میں نے 2019ء میں دو لاکھ چالیس ہزار انکم ٹیکس دیا ہے۔ بیالیس ہزار روپے سی ڈی اے کو پراپرٹی ٹیکس کی مد میں دیئے۔ صفائی کے چارجز ہائوسنگ فائونڈیشن‘ جو اتھارٹی بن چکی ہے‘ علیحدہ وصول کرتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی پچھلی حکومت میں فائونڈیشن کی کارکردگی زیرو رہی۔ 2013ء میں لگائے ہوئے ڈی جی صاحب کے ساتھ ڈی ایم جی کا لاحقہ لگا ہواتھا وہ اپنی اعلیٰ سروس کا بھرم بھی گنوا بیٹھے۔ رعونت البتہ بلا کی تھی۔ جی 13 اور جی 14 کے باسیوں نے اُن کے دفتر کے باہر تین مظاہرے کئے‘مگر کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ موصوف کو یہ بھی زعم تھا کہ ایک بڑی شخصیت کے داماد ہیں۔اپنی نالائقی اور ضد سے سیکٹر کا بیڑہ غرق ضرور کر گئے۔ ایک سال پہلے نئے ڈی جی کا تقرر ہوا تو حالات بہتر ہونے شروع ہوئے۔ مسلم لیگ کی حکومت جانے کا یہ فائدہ بھی ہوا کہ ہائوسنگ اینڈ ورکس وزارت کی اکرم درانی سے جان چھوٹ گئی۔
جی 13میں میرے گھر کے بالکل سامنے بھینسوں کے تین باڑے ہیں۔ ان کی وجہ سے سخت تعفن ہے۔ دن کے وقت یہ جانور پورے سیکٹر کی سیر کرتے ہیں ‘گندگی پھیلاتے ہیں‘ پودے کھا جاتے ہیں۔ ڈیڑھ سال پہلے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے ملا‘ مگر وہ بھی بے بس نکلے۔ وفاقی محتسب کو درخواست دی۔ دسمبر 2018ء میں محتسب نے فیصلہ دیا کہ صاف ستھرے ماحول میں رہنا شہری کا حق ہے‘ مسئلے کو حل کیا جائے۔ سال سے زائد عرصہ ہو گیا‘ اسلام آباد کی نوکر شاہی محتسب کے احکامات کو خاطر میں نہیں لا رہی۔ اب 29 جنوری اگلی تاریخ پڑی ہے۔ کیا نکمّے بابوئوں سے کام کروانا ناممکن ہو گیا ہے؟ یہ سوال آئندہ پیشی پر میں خود کروں گا۔
وزیراعظم نے اسلام آباد کے لیے لوکل گورنمنٹ کمیشن بنا دیا ہے جو خوش آئند قدم ہے‘ کیونکہ موجودہ میئر‘ سی ڈی اے‘ اسلام آباد پولیس اور چیف کمشنر کی کارکردگی ناقص ہے۔ اسلام آباد کا اولین پرابلم پانی ہے‘ دوسرا مسئلہ ناقص صفائی ہے‘ تیسرا ایشو بڑھتے ہوئے جرائم ہیں‘ چوتھا رولا مغربی نصف حصے میں صحت اور تفریح کی ناکافی سہولتیں ہیں۔ کشمیر ہائی وے کے متوازی ہائی ویز ضروری ہیں۔ امید ہے کہ کمیشن کے ممبران کو ان مسائل کا ادراک ہوگا اور ہاں بلڈنگ کنٹرول کو فعال کیجیے ورنہ زلزلے کی صورت میں اس شہر میں بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں