"JDC" (space) message & send to 7575

خالی گھونسلے اور لمبی پروازیں

پاکستان سے پڑھے لکھے پروفیشنلز کی امریکہ اور کینیڈا کی جانب ہجرت کا سلسلہ 1970ء کی دہائی میں شروع ہوا اور تین دہائیوں تک چلتا رہا۔ 1990 کی دہائی میں امریکہ اور کینیڈا کی حکومتوں نے غیر ملکیوں کو اپنے قریبی عزیزوں کو سپانسر کرنے کی اجازت دی۔ بعد میں یہ سلسلہ محدود ہونے لگا تو لڑکے لڑکیاں شادی کے ذریعے بیرون ملک جانے لگے۔ کچھ لوگوں نے سیاسی اور مذہبی حقوق کی بنا پر وہاں پناہ لی۔ امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی جانب سفر اس لیے بھی مقبول تھا کہ وہاں چند سالوں بعد شہریت مل جاتی تھی جبکہ یہ سہولت مڈل ایسٹ کے مسلم ممالک میں حاصل نہیں تھی۔ مڈل ایسٹ سے بہت سے پاکستانی ڈاکٹر اور انجینئر انویسٹر Investor visa پر مغربی ممالک چلے گئے۔
ہمارے ملک سے قابل اور پڑھے لکھے لوگوں کے انخلا کی ایک بڑی وجہ ہماری کرپٹ اور خود غرض قیادت بھی ہے‘ جس نے ملک کو بُری طرح نوچا اور یہاں روزگار کے مواقع سکڑتے گئے۔ اس کے برعکس مغرب اور مڈل ایسٹ میں کام کرنے کے مواقع بڑھ رہے تھے۔ تنخواہیں پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا تھیں۔ میرٹ کا نظام وہاں آج بھی جاری و ساری ہے۔ اگر آپ کی تعلیم اچھی ہے تو جاب تلاش کرنے کے لیے آپ کو کسی چاچے، مامے سے سفارش کرانے کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ اب امریکہ میں ایسے قوانین موجود ہیں جن کی بنا پر امریکی شہریوں کو ملازمتوں میں باہر سے آنے والوں پر فوقیت حاصل ہے اور اسی وجہ سے وہاں نوجوانوں کا جانا اب مشکل تر ہو رہا ہے۔
پاکستان میں اب ایسے بے شمار گھر ہیں جہاں سے بچے دوسرے ممالک چلے گئے اور والدین اکیلے رہ گئے ہیں۔ ان کے گھر اب خالی گھونسلے ہیں۔ وہ سکائپ اور فیس ٹائم پر روزانہ بچوں سے بات تو کر لیتے ہیں لیکن احساسِ تنہائی پھر بھی ہر وقت ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ ادھر نارتھ امریکہ میں مقیم بچوں کو احساس گناہ ہوتا ہے کہ ہم یہاں سکون سے رہ رہے ہیں اور ہمارے بزرگ والدین وطنِ عزیز میں اکیلے ہیں۔ وہ جب بیمار ہوتے ہوں گے تو انہیں ہسپتال کون لے کر جاتا ہو گا؟ ایسے سوالات ان کے اذہان میں مسلسل ابھرتے رہتے ہیں اور پھر وہ والدین کو قائل کرنے لگتے ہیں کہ وہ اُن کے پاس آ جائیں۔ اس خواہش کے پیچھے، والدین سے بے لاگ محبت سے لے کر بے بی سٹر (Baby sitter) حاصل کرنے کی خود غرض سوچ تک شامل ہو سکتی ہے کیونکہ مغرب میں اکثر میاں بیوی دونوں کام کرتے ہیں؛ چنانچہ والدین کو گرین کارڈ کے لیے سپانسر کردیا جاتا ہے۔ اس کارڈ کے حصول میں دو چار سال لگ سکتے ہیں۔ یہ کارڈ ایک قسم کا اقامہ ہے جس کی بنا پر آپ وہاں رہ سکتے ہیں اور کام بھی کر سکتے ہیں‘ لیکن بزرگ یا تو عمر کی وجہ سے کام کرنے کے قابل نہیں ہوتے اور اگر صحت اچھی ہو تو بھی عام سی جاب کرنے کے بارے میں ذہنی تحفظات ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بچوں کے گھر میں یا تو نوزائیدہ اطفال کو کھلاتے ہیں۔ زیادہ بوریت ہو تو ٹی وی لگا لیتے ہیں‘ ورنہ بور ہوتے رہتے ہیں۔ 1980ء میں جب پاکستان کا سفارت خارجہ اوٹاوہ میں تھا تو ایک بزرگ پاکستانی پاسپورٹ کے سلسلے میں آئے۔ میں نے استفسار کیا کہ آپ یہاں کیا کرتے ہیں؟ فرمانے لگے: میں کتاب لکھ رہا ہوں کہ میری عمر میں کوئی امریکہ یا کینیڈا نہ آئے۔ بات ان کی صحیح تھی۔ ہجرت جوانی میں ہی کی جائے تو کامیاب رہتی ہے۔ بہت بڑے پیڑ کو ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگایا جائے تو اس کے جڑیں پکڑنے کے امکانات ففٹی ففٹی سے بھی کم ہوتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ مغرب میں کوئی بھی اچھی جاب حاصل کرنے کیلئے لوکل ڈگری ضروری ہے اور اب بوڑھے طوطے تو پڑھنے سے رہے۔
ڈاکٹر اعجاز حسین میرے عزیز دوست ہیں اور واکنگ پارٹنر بھی۔ آج کل وہ اکثر کینیڈا میں پائے جاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ دونوں بیٹے نارتھ امریکہ میں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اور عصمت بھابھی پرماننٹ کارڈ حاصل کر چکے ہیں‘ ساتھ ہی ہیلتھ کارڈ بھی مل گیا۔ ڈاکٹر صاحب کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور آج کل ایک اور کتاب لکھ رہے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے پر ان کی کتاب کو دو انعام مل چکے ہیں۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ ہمارے لوگ مغرب کی جانب قطار اندر قطار کیوں جاتے ہیں؟ کہنے لگے کہ آزادیٔ اظہار مغربی جمہوری ممالک کا طرّہ امتیاز ہے۔ وہاں اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ ریسرچ آج بھی امریکہ میں ہوتی ہے۔ سندھ طاس منصوبے پر کتاب لکھنے کیلئے ورلڈ بینک لائبریری میں ہی مستند ریفرنس یعنی حوالہ جات تھے‘ پاکستان میں مواد کم تھا۔ 
آزادیٔ اظہار کے علاوہ مغرب میں دوسروں کے دینی عقائد پر حملے نہیں ہوتے۔ ہم سنتے رہتے ہیں کہ وہاں اسلاموفوبیا ہے لیکن ڈاکٹر طاہرالقادری سے لیکر جاوید غامدی اور ڈاکٹر ذاکر نائک تک سب شمالی امریکہ میں رہ کر زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں اور انہیں اسلامی ریسرچ اور دعوت و تبلیغ کی بھی آزادی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کینیڈا میں صفائی، صحت کی سہولتوں اور ڈسپلن سے خاصے متاثر ہیں۔ کورونا کے دنوں میں کینیڈا میں تھے۔ حکومت کے SOPs یعنی کورونا مخالف اقدامات میں شامل تھا کہ لفٹ میں ایک وقت میں ایک شخص ہی سوار ہو۔ ڈاکٹر صاحب ٹورنٹو میں ایک بلندوبالا عمارت میں آسمان کے آس پاس رہتے ہیں۔ کہتے ہیں: میں نے کسی شخص کو اس رول کی خلاف ورزی کرتے نہیں دیکھا‘ یعنی لفٹ میں ایک وقت میں ایک ہی شخص سوار ہوتا ہے۔ اس ڈسپلن کی وجہ سے ہی کینیڈا میں کورونا اموات کی شرح امریکہ کے مقابلے میں کم رہی۔
مغرب کی کشش بہت سٹرونگ ہے۔ وہاں بڑی سہولتیں ہیں، زندگی منظم ہے‘ لیکن ہر سکے کے دو رخ ہوتے ہیں۔ مغرب میں مقیم ہمارے قدامت پسند پاکستانی جس دن دیکھتے ہیں کہ نوجوان بیٹی اپنے بوائے فرینڈ کو گھر لے آئی ہے تو اُس دن اُن پر قیامت گزرتی ہے‘ مگر وہ نوجوان اولاد کے سامنے بے بس ہوتے ہیں۔ زیادہ سختی کریں تو اولاد پولیس کو فون بھی کرسکتی ہے۔
اختر جوڑہ میرے کالج کے دوست ہیں۔ آج کل گجرات میں سیاست اور وکالت دونوں کر رہے ہیں۔ دنیا خوب گھومے ہوئے ہیں۔ ان کا بیٹا فیصل امریکن شہریت رکھتا ہے۔ پیشے سے آٹو انجینئر ہے اور امریکہ میں خوب سیٹ تھا۔ کوئی پانچ سال پہلے اختر نے اپنے بیٹے سے کہاکہ وہ امریکہ چھوڑ کر پاکستان آ جائے۔ میں ان کے اس فیصلے پر حیران تھا۔ جب وجہ پوچھی تو اختر نے بتایا کہ جب ان کی بڑی پوتی نو دس سال کی ہو گئی تو انہیں بار بار خیال آنے لگا کہ اب اس بچی کا مغرب میں مزید رہنا درست نہیں۔ فرمانبردار بیٹے نے بات کی، بات مان لی اور آج کل مع فیملی لاہور میں ہوتا ہے۔ اختر جوڑہ نے یہ فیصلہ صحیح وقت پر کیا کیونکہ جب پوتے پوتیاں بڑے ہو جائیں تو وہ پاکستان آنے کی شدید مخالفت کرنے لگتے ہیں۔
اختر آج کل ہر ایک کو نصیحت کرتا نظر آتا ہے کہ بچوں کے رشتے ملک سے باہر اور خاص طور پر مغربی ممالک میں نہ کریں ورنہ وہ ہمیشہ کیلئے آپ کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ آپ اس رائے سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن یہ ایک جہاں دیدہ شخص کا نقطۂ نظر ہے لہٰذا اس پر غور کرنا ضروری ہے۔
گرین کارڈ فعال رکھنے کیلئے ایک شرط یہ ہے کہ آپ امریکہ سے چھ ماہ سے زائد متواتر باہر نہیں رہ سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا ہر سال آپ کا امریکہ جانا ضروری ہے۔ اس سے آگے پاسپورٹ کے حصول کا مرحلہ آتا ہے جو بڑا ہی صبر آزما ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ آپ پانچ سال میں سے کم از کم تین سال امریکہ یا کینیڈا میں مقیم رہیں۔ اس مرحلے کو مکمل کرتے کرتے کئی والدین وہیل چیئر پر آ جاتے ہیں لیکن تین سال کی قید تنہائی کئی والدین کاٹ ہی لیتے ہیں۔ مغرب کی کشش اور بچوں کی محبت انہیں سنہری پنجرے میں لے جاتی ہے اور پاکستانی گھونسلہ مکمل خالی ہو جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں