"JDC" (space) message & send to 7575

عرب سپرنگ کے دس سال

عرب سپرنگ یا طویل عوامی احتجاج کو دس سال سے زائد ہو چکے ہیں۔ 17 دسمبر 2010ء کو تیونس میں محمد بو عزیزی نامی ایک غریب ریڑھی بان نے پولیس کی زیادتیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خود سوزی کی تو یہ آگ آناً فاناً دوسرے عرب ممالک تک پھیل گئی۔ تیونس کے صدر زین العابدین بن علی سعودی عرب میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ قاہرہ کے معروف تحریر (آزادی) چوک میں نوجوان لڑکے لڑکیاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہونے لگے۔ عرب دنیا میں سیاسی تحریک کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال عام ہوا۔ اس تحریک نے مصر کے صدر حسنی مبارک، لیبیا کے معمر قذافی اور یمن کے علی عبداللہ صالح کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا لیکن بالآخر تحریک ناکام ہوئی۔ عرب ممالک میں نہ جمہوریت آئی اور نہ شخصی آزادیاں پنپ سکیں۔
آئیے! اب عرب سپرنگ کی وجوہات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ عرب ممالک میں ایک عرصے سے شخصی اور آمرانہ حکومتیں قائم تھیں۔ ان میں سے چند ایک موروثی بادشاہتیں تھیں جیسا کہ خلیجی ممالک میں آج بھی قائم ہیں۔ دوسرے اکثر ممالک میں فوجی نوعیت کے آمر مساوات کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے اور اب حکومت چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ لیبیا پر معمر قذافی نے چار عشرے حکومت کی تو مصر میں حسنی مبارک تیس سال تک تخت پر براجمان ہے۔ شام میں صدر حافظ الاسد فوت ہوئے تو اقتدار ان کے بیٹے بشارالاسد کو منتقل ہوا۔ مصر میں اغلب گمان تھا کہ حسنی مبارک اپنے بیٹے جمال مبارک کو اقتدار منتقل کریں گے گویا ہر طرف آمریت ملوکیت میں ڈھل رہی تھی۔
نہ فلسطین آزاد ہو سکا اور نہ ہی مساوات آئی۔ عرب ممالک کی آبادی کا بیشتر حصہ نوجوان نسل پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ صحت اور تعلیم کے اعتبار سے اپنے والدین سے بہت بہتر ہیں۔ عرب ممالک میں میڈیا پر عرصے سے حکومتی کنٹرول ہے اور نوجوان نسل آزادیٔ رائے کا حق مانگ رہی تھی۔ یہ وہ نوجوان جنریشن ہے جو اپنے سرکاری ٹی وی کے بجائے الجزیرہ چینل دیکھتی ہے‘ اور سوشل میڈیا کا خوب استعمال کرتی ہے۔ ان میں سے کئی لوگ مغربی ممالک سے تعلیم یافتہ ہیں۔ انہیں مناسب جابز درکار تھیں جو یا تو ملتی نہیں تھیں اور اگر ملتیں بھی تو بڑی مشکل سے۔ ان لوگوں کا مطالبہ تھا کہ سیاسی نظام اور گورننس میں ان کی آواز شامل ہونی چاہئے۔ یہی وہ نوجوان نسل تھی جو عرب سپرنگ کو لیڈ کر رہی تھی۔
سرسری طور پر دیکھیں تو عرب سپرنگ سے بہت نقصان ہوا ہے۔ شام کی نصف سے زائد آبادی در بدر پھر رہی ہے۔ سنا ہے بنیادی اشیائے ضرورت خریدنے کے لیے لمبی لمبی قطاریں لگتی ہیں۔ لوڈ شیڈنگ عام ہے اور یہ داستان اس حصے کی ہے جو حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ شمال مشرق کا مختصر سا علاقہ جو اب بھی اپوزیشن کے زیر تسلط ہے، وہاں حالات اور بھی خراب ہیں۔ ملک میں روس، امریکہ، ترکی، ایران اور حزب اللہ کی مداخلت دور سے بھی نظر آتی ہے۔ اسرائیلی ایئر فورس باقاعدگی سے بمباری کرتی رہتی ہے۔ اسرائیل یہاں ایران کا اثر و رسوخ کم کرنا چاہتا ہے۔ شام میں تباہی اتنے وسیع پیمانے پر ہوئی ہے کہ ملک کی تعمیر نو کیلئے سالہا سال درکار ہوں گے۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو عرب سپرنگ کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہوا ہے۔
عرب سپرنگ ایک ایسا آتش فشاں تھا جو یکایک پھٹا اور چند سالوں میں بڑی حد تک ٹھنڈا ہو گیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مختلف عرب ممالک میں اٹھنے والی احتجاجی تحریک منظم نہ تھی۔ اس تحریک سے پہلے ضروری فکری جدوجہد بھی ناپید تھی۔ ہر انقلاب سے پہلے اس کی فکری اور تنظیمی تیاری ضروری ہوتی ہے۔ انقلاب فرانس کی آبیاری روسو اور والٹیر کے افکار سے ہوئی‘ مارکس اور اینجلز روسی نہ تھے مگر ان کے افکار نے انقلابِ روس میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر علی شریعتی اور آیت اللہ خمینی کی فکری، علمی اور سیاسی کاوشوں کے بغیر انقلاب ایران ممکن نہ تھا۔ عرب دنیا میں کہیں کہیں ہمیں نزار قبانی جیسا باغی شاعر ضرور نظر آتا ہے لیکن عرب دانشوروں کی اکثریت اپنی آرا دیتے وقت حکومتی نقطۂ نظر کو ملحوظِ خاطر رکھتی ہے۔ آپ پوری عرب دنیا کو دیکھیں‘ ہر ملک میں اپوزیشن یا تو ناپید ہے اور اگر ہے تو کمزور اور غیر منظم۔ سیریا میں دس سالہ خون آشام خانہ جنگی کے باوجود بشارالاسد کی حکومت کی بقا کی دو بڑی وجوہات ہیں: اول‘ روسی مداخلت اور دوم‘ غیر منظم اپوزیشن۔
شام کے علاوہ جو ممالک بغاوت کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچے‘ وہ ہیں لیبیا اور یمن۔ لیبیا عملاً دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ کرنل معمر قذافی سے اگلے پچھلے حساب چکانے کے عمل میں امریکہ اور یورپی ممالک نے لیبیا کو تباہ کر دیا ہے۔ 2011ء تک یمن کی نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے تھی آج اسی فیصد یمنی انتہائی غریب ہیں۔ بعض خلیجی ممالک کی مداخلت اور بمباری سے تعلیمی ادارے اور ہسپتال بھی متاثر ہوئے ہیں۔ ہیضہ اور دوسری وبائیں پھیل رہی ہیں۔ نوزائیدہ یمنی بچے ہڈیوں کے ڈھانچے لگتے ہیں۔ دوسری طرف اردن، ترکی اور لبنان میں قائم شامی مہاجرین کے کیمپوں میں بچوں کے لیے تعلیم کی سہولت عنقا ہے، ایک پوری نسل جہالت کے سائے میں پروان چڑھ رہی ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ خلیجی ممالک نے عرب سپرنگ کو بہتر طریقے سے ہینڈل کیا اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں آبادی محدود ہے اور مالی وسائل وافر ہیں۔ کویت کے علاوہ باقی ممالک میں سیاسی جماعتیں نہیں ہیں۔ اس کے باوجود عرب سپرنگ کے نعرے چند خلیجی ممالک تک گئے، سلطنتِ عمان میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور ساتھ ہی حکومت نے بے روزگار لوگوں کے لئے ماہانہ الائونس کا اعلان کر دیا۔
ویسے خلیجی حکمران اپنے عوام کی نبض پر خوب ہاتھ رکھتے ہیں۔ جب میں سلطنت عمان میں تھا تو سلطان قابوس بن سعید مرحوم ہر سال ملک کے دور دراز علاقوں کا طویل دورہ کرتے تھے۔ وہ عوام سے ان کے مسائل بنفس نفیس سنتے تھے۔
آج سے دس سال پہلے جو نوجوان قاہرہ کے تحریر چوک میں آزادیٔ رائے، انسانی حقوق اور جمہوریت کے نعرے لگا رہے تھے وہ آج کیا سوچتے ہوں گے۔ حسنی مبارک سے نجات ملی تو جنرل عبدالفتاح السیسی کی حکومت آ گئی۔ درمیان میں جمہوری تجربے کی بنا پر مختصر عرصے کے لیے اخوان کی حکومت ضرور آئی مگر مقتدر ادارے اس تبدیلی کو ہضم نہ کر سکے۔ صدر مرسی نے بھی نہایت قلیل عددی برتری کے باوجود اپنی طاقت کا غلط اندازہ لگایا اور پھر وہ لبرل طبقہ جو آغاز میں تحریک کو لیڈ کر رہا تھا اخوان کی مخالفت میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا ہم نوا بن گیا۔
مصر میں ایک عجیب روایت ہے کہ ہائی پروفائل مجرم کو آہنی پنجرے میں قید کر کے عدالت میں لایا جاتا ہے۔ یہی سلوک سابق صدر حسنی مبارک کے ساتھ ہوا۔ جب شام کے صدر بشارالاسد نے یہ سین دیکھا تو مصمم ارادہ کر لیا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے وہ اقتدار نہیں چھوڑیں گے۔ ان کے اس پکے ارادے کی وجہ سے ملک کا جو حشر ہوا وہ بھی سب نے دیکھا۔ عرب ممالک میں آزادیٔ رائے نہ ہونے کی وجہ سے بھی حکومت مخالف جذبات لمبا عرصہ نظر نہیں آتے اور پھر اچانک پریشر ککر پھٹتا ہے۔
تو کیا عرب سپرنگ ختم ہو گئی؟ کیا آزادی کے نعرے پھر کبھی نہیں لگیں گے؟ کیا نوجوان نسل سماجی سیاسی اور اقتصادی انصاف پھر نہیں مانگے گی؟ میرا خیال ہے کہ عرب سپرنگ کی ایک اور لہر جلد یا بدیر آئے گی کیونکہ اس کی وجوہات تا حال ختم نہیں ہوئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں