"JDC" (space) message & send to 7575

پاکستان انکل سام کی نظرمیں… (3)

گزشتہ دو کالموں میں چار اہم امریکی شخصیات کی پاکستان کے بارے میں آرا کا ذکر کیا گیا تھا اس بحث کو سمیٹتے ہوئے اب یہ دیکھتے ہیں کہ اہم امریکی شہریوں کی پاکستان کے بارے میں رائے منفی کیوں ہے؟ امریکہ کو پاکستان میں ''بڑھتی ہوئی انتہا پسندی‘‘ سے خوف کیوں آتا ہے؟ آخر جنرل جیمز میٹس نے پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک کیوں کہا تھا اور اگر ایک اہم ملک کے سرکردہ افراد پاکستان کو اس قدر خطرناک گردانتے ہیں تو سوچنے کا مقام ہے کہ ہمارا امیج ایسا کیسے بنا؟
جنرل میٹس کی نظر میں پاکستان خطرناک اس لیے بھی ہے کہ ہماری حکومت کمزور ہے‘ وہ انتہا پسندوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہونے کے بجائے وقتی مصلحتوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ ہماری قیادت کو عمومی طور پر عوام کے مستقبل میں کوئی دلچسپی نہیں اور عوام بھی جاہل اور ان پڑھ ہیں۔ خود غرضی اور انفرادی اہداف کا حصول حکمرانوں اور عوام دونوں کے اعمال میں جھلکتا ہے۔ یہ اُس امریکی جنرل کے پاکستان کے بارے افکار ہیں جو نائن الیون کے بعد افغانستان میں کمانڈر رہا اور اس حیثیت میں اُسے پاکستان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں ماضی قریب میں انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا ثبوت مردان یونیورسٹی میں قتل ہونے والے طالب علم مشال خان کا افسوسناک واقعہ بھی ہے اور متعدد بار پنجاب کی اہم شاہراہوں پر کچھ عناصر کا قبضہ بھی۔ متعدد حکومتوں کی یہ سوچ رہی ہے کہ دائیں بازو کی جماعتیں اپنا ووٹ بینک رکھتی ہیں اور ان کی مخالفت سے یہ ووٹ دوسری جانب چلے جائیں گے‘ لیکن اس پالیسی سے نہ صرف حکومتی کمزوری عیاں ہوئی بلکہ ہمارے معاشرے کے بے لگام اور خطرناک ہونے کا تاثر پوری دنیا میں گیا۔
کیا ہمارے ہاں انتہا پسندی کے فروغ میں ہمارے تعلیمی نظام کا بھی ہاتھ ہے؟ میرا جواب اثبات میں ہوگا۔ ہمارے تعلیمی نظام نے پچھلے ستر سالوں میں یا تو ممی ڈیڈی والی جنریشن پیدا کی ہے جسے اسلام کا کوئی علم نہیں اور دوسری طرف مدارس کے وہ طلبا ہیں جو صرف اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کرتے رہے مگر سائنس‘ ریاضیات‘ کمپیوٹر اور انگلش سے نابلد رہے۔ ہمیں ان دو نظام ہائے تعلیم کے درمیان ایک پاکستان دوست اور روشن خیال مذہبی اسلوب کی ضرورت تھی۔ اگر ہم یہ راستہ اختیار کرتے تو شاید ہماری اقلیتیں اس قدر خوف زدہ نہ ہوتیں۔ نظام تعلیم کے علاوہ رہی سہی کسر ضیا الحق کے زمانے میں عجلت میں بنائے گئے قوانین نے پوری کر دی۔
کچھ سال پہلے کی بات ہے لاہور میں ایک معیاری پرائیویٹ یونیورسٹی نے تجویز دی کہ وہ تقابلی مذاہب (Comparative Religion) کا مضمون یونیورسٹی میں ایف اے اور بی اے لیول پر پڑھائے گی۔ پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت تھی اور حکومت کا ردعمل تھا کہ تجویز اچھی ہے مگر پھر دائیں بازو کی جماعتوں اور مذہبی طبقے کی جانب سے مخالفت ہونے لگی اور حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پاکستانی طالب علموں کو دوسرے ادیان کے بارے میں بھی معلومات ملتیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ ریاست مدینہ میں یہودی آباد تھے اور بلاخوف و خطر رہتے تھے۔ یہی صورت حال سپین میں مسلمانوں کی حکومت کے دوران تھی۔ سلطنتِ عثمانیہ میں بھی یہودی خوش حال تھے۔ مجھے یاد ہے کہ 1961ء میں میٹرک میں تاریخِ ہندوستان ہمارے کورس میں شامل تھی۔ اشوک اور چندر گپت موریہ کے دور کے ابواب میں بدھ مت اور ہندو مت کے مذہبی افکار کا تفصیل سے ذکر تھا۔ ان مذاہب کے بارے میں پڑھ کر ہمارا تو اسلام پر یقین متزلزل نہیں ہوا تھا۔
رچرڈ ہالبروک اور ولی نصر جب افغانستان کے مسئلے پر بات چیت کیلئے صدر زرداری سے ملے تو ان کا تاثر یہ تھا کہ موصوف لالچی نظروں سے امریکہ کے وسائل کی جانب دیکھ رہے تھے۔ یہ بھی منفی تاثر تھا کیونکہ صدر اوباما کے افغانستان کیلئے خصوصی نمائندے کی رائے تھی کہ پاکستان کو دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے خود کفالت کی طرف جانا چاہئے۔ خود کفالت کی جانب لے جانے والا سب سے بڑا قدم اشرافیہ کا ایمانداری سے ٹیکس ادا کرنا ہے اور یہ ہدف ہم نے خود حاصل کرنا ہے۔ رچرڈ ہالبروک کی بات اگرچہ کڑوی لگتی ہے مگر سچی ضرور ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم اقبال کا خودی والا درس بھول گئے اور کشکول کو نہ توڑ سکے۔
سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کا کہنا ہے کہ میں نے پاکستانی قیادت کو متعدد بار متنبہ کیا کہ جو سانپ آپ ہمسایوں کیلئے پال رہے ہیں وہ آپ کو بھی ڈس سکتے ہیں۔ ان کی بات بادی النظر میں درست لگتی ہے لیکن ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ان سانپوںکی پہلی کھیپ تیار کرنے میں کلیدی رول خود امریکہ کا تھا۔ دورِ حاضرمیں نان سٹیٹ ایکٹرز کی بڑی مثالیں مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی اور آئر لینڈ میں ریپبلکن آرمی یعنی آئی آر اے ہیں‘ لیکن ان دونوں کو اہداف حاصل کرنے کے بعد غیر مسلح کر دیا گیا۔ ہمارے ہاں ایسا نہ ہو سکا اور نتیجہ ہم نے فوجی قیادت پر حملوں اور پشاور میں سکول کے معصوم بچوں کے قتل کی صورت میںد یکھا ۔ہم ارد گرد نظر دوڑائیں تو جس ملک میں بھی نان سٹیٹ ایکٹرز کی حوصلہ افزائی کی گئی اُسے ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اس کی ایک زندہ مثال لبنان ہے جو ایک زمانے میں خوشحال ملک تھا لیکن آج بہت مختلف نظر آتا ہے۔
صدر اوباما کے عہد کے ڈپٹی فارن منسٹر سٹروب ٹالبوٹ جو 1998ء میں امریکی امریکی وفد کے سربراہ کے طور پر اسلام آباد آئے تھے کہ پاکستان کو ایٹمی دھماکے نہ کرنے پر رضامند کیا جائے‘ کا کہنا ہے کہ ملاقات کے دوران پاکستانی وزیر خارجہ گوہر ایوب خان کو خاصا جذباتی پایا۔ اچھا سفارت کار مشکل اوقات میں بھی جذباتیت کا شکار نہیں ہوتا اور اگر جذبات اُس پر حاوی ہو جائیں تو نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔ زیادہ جذباتیت سے اہداف کم ہی حاصل ہوتے ہیں۔ غصّے کے بجائے اگر بات مدلل طریقے سے کی جائے تو زیادہ موثر ہو سکتی ہے۔
میں نے گزشتہ کالم میں ذوالفقار علی بھٹو کی یو این سکیورٹی کونسل میں 1971ء کی تقریر کا حوالہ دیا تھا جہاں انہوں نے جذباتی ہو کر پولینڈ کی قرارداد پھاڑ دی تھی اور کہا تھا کہ ہم انڈیا کے ساتھ ہزار سال تک لڑیں گے۔ اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے انہیں کہا تھا کہ پاکستان کو خالی لفاظی سے نہیں بچایا جا سکتا۔ اور کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ہمارے موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایک دوست خلیجی ملک کی پالیسی کے بارے میں خاصے جذباتی ہو گئے تھے ا ور پھرنتیجہ بھی ہم نے دیکھ لیا۔ مجھے دو وزرائے خارجہ نے اپنے ٹھنڈے مزاج اور مدلل انداز سے متاثر کیا اور وہ تھے ایران کے سابق وزیر خارجہ جواد ظریف اور روس کے موجودہ وزیر خارجہ مسٹر سرگئی لاوروف۔
امریکہ ہمارے لئے اب بھی بہت اہم ہے۔ ہماری برآمدات سب سے زیادہ اب بھی امریکہ جاتی ہیں۔ ہماری بڑی کمیونٹی وہاں مقیم ہے‘ بہت سے طالب علم وہاں زیر تعلیم ہیں۔ گزشتہ دس پندرہ سال سے ہمارے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں تناؤ کا عنصر نمایاں ہے لیکن پاکستان کے بارے میں امریکی شخصیات کی آرا پر غور پھر بھی مفید ہو گا۔ ہمیں اپنے گریبان میں گاہے بگاہے ضرور جھانکنا چاہئے کیونکہ اس گلوبل ویلج میں ہم دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں