"JDC" (space) message & send to 7575

ایک ووٹر کا مخمصہ

میں 1970 سے ایماندار لیڈر اور فعال سیاسی جماعت کی تلاش میں ہوں جو پاکستان کو سیاسی، اقتصادی اور سماجی مسائل سے نکال سکے۔ جو نوجوانوں کے لیے رول ماڈل ہو‘ جسے قومی مفاد اپنے ذاتی فوائد سے کہیں زیادہ عزیز ہو۔ جس کے وجود اور اعمال سے روشنی کی کرنیں پھوٹیں‘ قوم کو امید ملے‘ حوصلے بلند ہوں۔ 1970 میں ایسا لیڈر ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ اسی لیے میں نے اپنا پہلا ووٹ پیپلز پارٹی کو دیا تھا۔ اس پارٹی کا روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ بے حد دلکش تھا۔ اور آج دیکھیں تو عوام ان تینوں چیزوں سے محروم ہیں البتہ پارٹی لیڈر شپ بہت خوشحال ہے۔
ریٹائر ہو کر واپس پاکستان آیا تو ایک آمر کے خلاف وکلا تحریک سرگرم تھی۔ امید ہو چلی تھی کہ عدلیہ مکمل آزاد ہو گی۔ قانون کے رکھوالے یعنی وکلا قانون کی بالادستی لائیں گے‘ امیر غریب سب کو یکساں انصاف ملے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اس تحریک کی سپورٹ اس وقت کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں کررہی تھیں اور انہیں لیلائے اقتدار کا شدت سے انتظار تھا۔
2013میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ سال مکمل کر لیے لیکن وہ مختلف قومی مسائل حل کرنے میں خاصی ناکام رہی۔ اس کا اپنی جنم بھومی یعنی پنجاب میں صفایا ہو گیا۔ یہ پارٹی جو فیوڈل ازم کی سب سے بڑی مخالف ہوا کرتی تھی اب یکسر بدل چکی تھی۔ این آر او لینے کی وجہ سے یہ امریکہ کی احسان مند بھی تھی۔ ہمدردی کی وہ لہر جو 2008میں اسے اقتدار میں لائی تھی وہ اب ختم ہو چکی تھی‘ لہٰذا اب چوائس مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے مابین تھی۔ میرا خاندان 1946 سے مسلم لیگ کا حامی تھا لیکن آزادی کے بعد مسلم لیگ نظریاتی سیاست سے دور ہوتی گئی‘ اور میں 1970 میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دے کر روایتی فیملی لائن کو ترک کر چکا تھا اور پھر 1997 میں مجھے مسلم لیگ کی قیادت کی جانب سے اقربا پروری اور ذاتی بزنس پروموشن کی وجہ سے سخت ذاتی مسائل پیش آئے تھے‘ لہٰذا میں اب تحریک انصاف کی طرف زیادہ مائل تھا۔
اکتوبر 2011 کے جلسے کے بعد عمران خان کی عوامی مقبولیت باقی لیڈروں سے کہیں زیادہ تھی۔ قوم کو یقین تھا کہ ہمارا ہیرو اگر نامساعد حالات میں ورلڈ کپ جیت سکتا ہے تو وہ ہر ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔ وہ اجلا اجلا تھا۔ دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں تھا۔ لوگ دو پرانی پارٹیوں کی سیاست اور طرز حکمرانی کو 1988 کے بعد تواتر سے دیکھ کر بیزار ہو چکے تھے۔ پیپلز پارٹی روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ کبھی کا بھول چکی تھی۔ اس کی کرپشن کی کہانیاں خاص و عام کی زبان پر تھیں۔ مسلم لیگ ایک جوائنٹ سٹاک کمپنی میں تبدیل ہو چکی تھی‘اور اس کے شیئر ہولڈر زیادہ تر سنٹرل پنجاب تک محدود تھے۔ دونوں جماعتوں پر دو خاندان حاوی تھے؛ چنانچہ 2013 میں میرا ووٹ اسلام آباد سے پی ٹی آئی کے امیدوار جاوید ہاشمی کو ملا۔ 2014 میں ایک دو مرتبہ پی ٹی آئی کے دھرنوں میں بھی گیا لیکن پارٹی جوائن نہیں کی تاکہ کالم نگاری میں آزادیٔ رائے کا قیمتی اثاثہ ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
2014 کے دھرنے عوامی میلہ تھے کہ وطن عزیز میں تفریح کے مواقع بہت کم ہو گئے ہیں‘ لیکن جب کپتان کی تقریر شروع ہوتی تھی تو سامعین کا جوش و جذبہ دیدنی ہوتا تھا۔ تحریک انصاف اب ایک مضبوط اپوزیشن پارٹی تھی۔ کپتان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے کرپشن کے قصے مکمل شماریات کے ساتھ سناتا تو لوگ ہمہ تن گوش ہو جاتے۔ عطا اللہ عیسیٰ خیلوی ''جب آئے گا عمران‘‘ خاص میانوالی والے لہجے میں گاتا تو لڑکے لڑکیاں خوب رقص کرتے۔ ایک جذبۂ جنوں تھا جو کپتان کے شیدائیوں پر طاری تھا۔ 2014 میں تحریک انصاف کے ممبران پارلیمنٹ نے استعفے دیئے تو میرا دوست اور بیچ میٹ گلزار خان انکاری تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ گلزار خان کپتان کے آمرانہ رویّے سے شاکی ہے۔ ہمارا دوست بھی سول سروس کے اعلیٰ عہدوں پر رہ چکا تھا۔ اسے سیاست اور گورننس کے اصولوں کا خوب علم تھا۔ اسے پتا تھا کہ سیاست میں مشاورت بے حد اہم ہے جو پارلیمنٹ میں رہ کر ہی ممکن ہے۔ مگر کپتان کا کہنا تھا کہ 2013 والی پارلیمنٹ دھاندلی کی پیداوار ہے اور چند اہم شخصیات نے مل کر تحریک انصاف کو ہرایا ہے‘ اور آج دیکھیں تو 2013 کی اندرونی سازش 2022 میں بیرونی سازش محسوس ہوتی ہے۔ کپتان کی شخصیت میں لچک بہت کم ہے۔
بہرحال 2018 میں میرا ووٹ پھر پی ٹی آئی کو پڑا۔ میرے لیے کپتان اب بھی دوسروں سے بہتر تھا۔ میری تحریریں دیکھ کر قطر کے ایک معروف عربی چینل نے مجھے دوحہ آنے کی دعوت دی۔ 2018 کے الیکشن کے بارے میں ایک گھنٹے کا پروگرام تھا۔ دو معروف عرب تجزیہ کار بھی شریکِ گفتگو تھے۔ دونوں کا کہنا تھا کہ عمران خان کی جیت مقتدرہ کی حمایت کی وجہ سے ہوئی ہے۔ میں نے تحریک انصاف کی جیت کا کھل کر دفاع کیا اور کہا کہ یہ پاکستانی عوام کا کرپشن کے خلاف ووٹ ہے۔
2018 میں ہمیں امید تھی کہ نوے دن میں نہ سہی‘ کپتان دو تین سالوں میں کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا‘ مگر پی ٹی آئی کی حکومت سے تو ساڑھے تین سالوں میں پلاسٹک کے شاپر تک ختم نہ ہو سکے اور ہمارے ایم این اے اسد عمر بھی اسلام آباد کے پانی کے گمبھیر مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہے۔ وہ بھی خوشامدیوں کے حصار میں قید ہو کر رہ گئے۔ اب ہم سوچنے لگے کہ اسد عمر سے تو جماعت اسلامی کے میاں اسلم بہتر ایم این اے ہوتے کہ ہر وقت عوام کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔
2018 میں کپتان نے کرپشن کے خلاف بیانیہ بنایا اور اسے اپنی انتخابی کامیابی کیلئے خوب استعمال کیا۔ جب کرپشن کو ختم کرنے میں ناکام ہوئے اور کسی بھی کرپشن کیس کو منطقی انجام تک نہ پہنچا سکے تو ریاستِ مدینہ کا راگ الاپنے لگے۔ بیوروکریسی اور پولیس کو سیاست سے آزاد نہ کرا سکے۔ ناصر درانی مرحوم پولیس کی اصلاحات پر مامور ہوئے لیکن زمینی حقائق دیکھ کر جلد ہی علیحدہ ہو گئے۔
2021 تک کرپشن کے مخالف بیانیے سے ہوا نکل چکی تھی۔ پنجاب میں گورننس مفلوج تھی کہ ریموٹ کنٹرول بنی گالہ میں تھا۔ چند نان سٹیٹ ایکٹر پوسٹنگ ٹرانسفر کرا رہے تھے۔ ناامیدی عروج پر تھی۔ اتحادی پارٹیاں بغاوت کے موڈ میں تھیں کہ دو ماہ پہلے بیرونی سازش کا منصوبہ خان صاحب کے ہاتھ لگ گیا۔ اگرچہ حالیہ گیلپ سروے یہ کہہ رہا ہے کہ عوام کی اکثریت کی رائے میں قیمتوں میں اضافے پر اضافہ حکومت گرانے کا سبب بنا ہے‘ لیکن 34 فیصد لوگ اس سروے میں بھی سازشی تھیوری کے حامی نکلے‘ اور یہ تعداد کچھ کم نہیں۔ میری رائے میں سازش والا بیانیہ خاصا مقبول ہوا ہے اور اس سے تحریک انصاف کو خاصا فائدہ ہوا ہے‘ لیکن شومئی قسمت سے مدینہ منورہ میں ہونے والے افسوسناک واقعات کا تحریک انصاف کو بہت نقصان بھی ہوا ہے۔
اب عوام سے پوچھیں تو کہتے ہیں کہ ہمارے لیے تینوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک جیسی ہیں۔ زیادہ غریب طبقہ‘ جو چالیس فیصد آبادی پر مشتمل ہے‘ خال خال ہی تحریک انصاف کا حامی رہ گیا ہے۔ تینوں جماعتوں میں زبان دراز اور بدتمیز لوگوں کی بڑی عزت ہے۔ سوشل میڈیا نیا میدان کارزار ہے جہاں پی ٹی آئی اچھا کھیل رہی ہے۔ اب اگر پاکستان میں کوئی سیاسی پارٹی ایسی رہ گئی ہے جس پر کرپشن کا الزام نہیں تو وہ جماعت اسلامی ہے۔ جماعت منظم بھی ہے۔ یہ واحد سیاسی پارٹی ہے جس کا ایک فعال تھنک ٹینک ہے اور یہ اکلوتی پارٹی ہے جس میں شفاف الیکشن ہوتے ہیں۔ اگرچہ میری جماعت اسلامی سے فکری ہم آہنگی کبھی نہیں رہی مگر میں 1970 سے ایماندار لیڈرشپ کی تلاش میں ہوں اور جماعت اسلامی پر کرپشن کا الزام کبھی نہیں لگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں