"JDC" (space) message & send to 7575

سیاسی بے یقینی کی قیمت

عین اس وقت جب پاکستان کو سیاسی استحکام امن اور سکون کی اشد ضرورت ہے ملک شدید بے امنی اور عدم استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ پچھلے دو‘ چار ماہ میں سیاست دانوں نے خود اپنی بے توقیری کرائی ہے۔ اس سیاسی افراتفری کی وجہ سے ہماری نظریں اصل اہداف سے ہٹ گئی ہیں۔ اگر میں آپ کو بتاؤں کہ پاکستان نے اگلے سال کتنا قرضہ واپس کرنا ہے تو آپ کے ہوش اُڑ جائیں گے لیکن ملک میں لایعنی سیاسی دنگل اپنے عروج پر ہے۔
پہلی بات تو ہمیں یہ طے کر لینی چاہئے کہ اہم قومی فیصلے سڑکوں پر نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں ہوں گے۔ انتقالِ اقتدار دھونس دھاندلی سے نہیں بلکہ ووٹ کی طاقت سے ہوگا اور پرامن مہذب طریقے سے ہوگا۔ اب ہم مغلیہ دور میں نہیں رہتے کہ شہزادے بادشاہ کے بال سفید ہوتے ہی لشکر بندی شروع کر دیں اور پھر اقتدار کی جنگ میں بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہو جائے۔
سیاسی تحریکوں کی تاریخ ہماری پرانی ہے لیکن ایسی تحریکیں بظاہر بڑے نیک مقاصد کے لیے شروع ہوتی ہیں مگر کوئی ضروری نہیں کہ نتیجہ حسب ِمنشا نکلے۔ 1968ء میں ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک چلی۔ مقصد اصل جمہوریت کی بحالی تھا۔ لیکن تحفہ ہمیں یحییٰ خان کا ملا۔ 1977ء میں بھٹو مخالف تحریک بظاہر الیکشن میں دھاندلی کے خلاف شروع ہوئی لیکن نتیجہ ضیا الحق کے مارشل لا کی صورت میں نکلا اور بھٹو صاحب کو پھانسی ہوئی جس کے نتائج بڑی دیر تک بھگتتے رہے۔ 2008ء میں پرویز مشرف کے خلاف وکلا تحریک چلی جس کا ظاہری مقصد قانون کی بالادستی اور جمہوریت کی بحالی تھا لیکن نتیجے میں ہمیں صدر زرداری اور وکلا ایکٹوازم ملے۔ چند سال پہلے مولانا طاہر القادری نے دو مرتبہ اسلام آباد میں دو بڑے دھرنے دیے اور دونوں بے نتیجہ رہے۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کو انصاف نہ مل سکا۔ عمران خان نے کئی ماہ کا دھرنا دیا لیکن حکومت نہ گر سکی البتہ چینی صدر کا اہم دورہ ملتوی ہو گیا۔ ملک کا نقصان ہی ہوا‘فائدہ نہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا دھرنا بھی بے ثمر رہا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس دھرنے کے نتیجے میں میاں نواز شریف کو ملک چھوڑنے کا موقع ملا‘ لیکن نواز شریف کا جیل سے لندن جانا اور پھر واپس نہ آنا ہمارے نظام انصاف پر ایک بڑا سوالیہ نشان بن گیا۔
الیکشن دنیا بھر میں ہوتے ہیں اور اکثر ممالک میں عبوری حکومت بھی نہیں بنائی جاتی۔ انڈیا میں بھی ریگولر حکومت ہی انتخابات کراتی ہے۔ اکثر ممالک میں نتائج خوش دلی سے تسلیم کئے جاتے ہیں اور حکومتیں اپنی مقررہ مدت پوری کرتی ہیں‘ مگر ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔ کبھی 35 پنکچر کی بات کی جاتی ہے تو کبھی سلیکٹڈ کی گردان شروع ہو جاتی ہے۔ اصل میں جمہوریت ایک نظام کا ہی نہیں بلکہ ایک مائنڈ سیٹ کا بھی نام ہے۔ جمہوریت میں مخالفین کی آرا کو سننا لازمی امر ہے جبکہ ہمارے ہاں اپنی رائے دوسروں پر ٹھونسنے کا رواج ہے۔ پچھلے تین چار سال حکومت اور اپوزیشن میں ڈائیلاگ مفقود رہا۔ تلخیاں اور دوریاں بڑھتی گئیں اپوزیشن نے حکومتی پارٹی میں نقب لگا کر نہ صرف چند ممبران کو اپنا ہمنوا بنا لیا بلکہ اتحادی پارٹیوں کو بھی ساتھ ملا لیا اس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں میں بھی تال میل کی کمی تھی یہ بھی ایک طرفہ تماشا ہے کہ شریف خاندان اور بھٹو زرداری فیملی‘ جو کل تک ازلی دشمن لگتے تھے‘ آج شیر و شکر ہیں اور ان کا ملاپ اقتدار کی دیوی کی مشترکہ خواہش نے کرایا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ اقتدار میں آ کر اپنے کرپشن کیسزختم کرائیں گے۔ اداروں میں اپنی مرضی کی تقرریاں کریں گے۔ حلقہ بندیاں اپنی خواہشات کے مطابق کریں گے اور الیکشن جیت جائیں گے۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ اقتدار کانٹوں کی سیج بھی ہو سکتا ہے۔ تو ہمارے یہ لالچی اور خود غرض لیڈر کیا اس قابل ہیں کہ میری اور آپ کی نمائندگی کریں۔ کیا ہمارے ٹیکس کا پیسہ ان کی تنخواہوں اور لمبی چوڑی مراعات پر صرف ہونا چاہئے۔ ان کی پرفارمنس کیا ہے؟ زرداری اور شریف خاندان کا بڑا تحفہ اٹھارہویں ترمیم ہے جس کی وجہ سے فیڈریشن کمزور ہوئی اور کپتان ساڑھے تین سال ساری اپوزیشن کو چور ڈاکو کہتے رہے مگر پکڑ کسی ایک کو بھی نہ سکے۔ اگر دو چار بڑے ملزموں کو سزا ہو جاتی تو آج ملک میں اتنی بے یقینی کی حالت نہ ہوتی۔
اس سیاسی بے یقینی کا سب سے بڑا شاخسانہ معاشی بدحالی ہے جس کا سب سے بُرا اثر عام آدمی پر پڑا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ پچیس‘ تیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والا عام مزدور گزارہ کیسے کرتا ہے۔ سیاسی حالات کا سب سے منفی اثر روپے کی قدر اور سٹاک ایکسچینج پر پڑا ہے۔ چونکہ پاکستان میں کوئی قابلِ اعتماد اور دیرپا حکومت ہی نہیں اس لیے آئی ایم ایف کے ساتھ بھی مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے۔ عالمی ادارہ بضد تھا کہ پہلے پٹرول اور ڈیزل کی قیمت بڑھائیں پھر اگلا قرضہ ملے گا۔اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت صرف دو ووٹوں کی اکثریت سے قائم ہے۔ پنجاب میں حمزہ شہباز کی چار روزہ وزارت عظمیٰ پر بڑا قانونی اعتراض اب یہ ہے کہ ان کا الیکشن ہی مشکوک تھا۔ اگر چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ بن بھی جاتے ہیں تو وہ بھی کوئی مستحکم حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔
25مئی کو سارا اسلام آباد مفلوج تھا۔ میرا بیٹا کوشش کے باوجود بلیو ایریا میں اپنے دفتر نہیں جا سکا۔ جی 13کی جنوبی سائیڈ جو کشمیر ہائی وے کے قریب ہے‘ وہاں آنسو گیس کی بُو پھیلی ہوئی تھی۔ پانچ شہری ملک کے مختلف حصوں میں جان سے گئے۔ ڈی چوک کے ارد گرد پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگائی گئی‘ چند درخت بھی جل گئے۔ انڈیا میں کشمیری لیڈر یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سنائی جا رہی تھی اور ہم ایک دوسرے سے دست و گریباں تھے۔
اسلام آباد میں 79سفارت خانے ہیں۔ ان میں سے اکثر سکیورٹی کی وجہ سے ڈپلومیٹک انکلیو میں محصور ہیں۔ 25مئی کو ڈپلومیٹک انکلیو کے چار داخلی اور خارجی راستوں میں سے تین بند کر دیے گئے یعنی سفارت کار بھی قلعے میں محصور ہو کر رہ گئے۔ یہ لوگ مسلسل اپنی حکومتوں کو ہماری صورت حال سے مطلع رکھتے ہیں۔ فارن ٹی وی چینلز بھی پاکستان کے حالات دکھا رہے تھے۔ مجموعی تاثر بہت ہی منفی تھا۔ ایک پارٹی کہہ رہی ہے کہ الیکشن اگلے پانچ چھ ماہ میں ہو جانا چاہئیں‘دوسری وقت مقررہ یعنی ایک سال دو ماہ بعد پر مصر ہے۔ دونوں کی اَنا ملک کا اور عوام کا نقصان کر رہی ہے۔اس قدر نقصان کہ عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ہم بھی انوکھی قوم ہیں۔ راجہ ریاض قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے لیڈر منتخب ہوئے ہیں اور ساتھ ہی موصوف فرماتے ہیں کہ اگلا الیکشن میں مسلم لیگ کی ٹکٹ پر لڑوں گا۔ ادھر پی ٹی آئی کے ایک اور منحرف ایم این اے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین بن گئے ہیں۔ احتساب جمہوریت کی جان ہے اور ہمارے ہاں احتساب سے مسلسل مذاق ہو رہا ہے۔میں نے اپنے ایک بہت نستعلیق اور حساس دوست سے موجودہ مسائل کا حل پوچھا تو کہنے لگے کہ سب کو بحری جہاز میں بٹھاؤ اور سمندر میں ڈبو دو۔ لوگ بہت سنکی ہو رہے ہیں۔ کئی ایک ڈپریشن کا شکار ہیں۔ سیاسی بے یقینی عروج پر ہے۔ آئی ایم ایف اپنی شرائط پر بضد ہے مگر سیاست دانوں کا دنگل جاری ہے اور بیڑہ غرق عوام کا ہو رہا ہے۔ امیج پاکستان کا خراب ہو رہا ہے۔اب بھی وقت ہے کہ ہم اکٹھے بیٹھ کر اپنے مسائل کا حل سوچیں‘ ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں