"JDC" (space) message & send to 7575

جمہوریت کے چند اصول اور ہمارے رویے

جمہوریت کی عمومی تعریف یہ ہے کہ عوام کی وہ حکمرانی‘ جو عوامی نمائندوں کے ذریعے عام آدمی کے لیے کام کرے‘ جمہوریت کہلاتی ہے‘ لیکن جمہوریت کی کامیابی کے لیے چند شرائط بھی ہیں مثلاً پڑھا لکھا باشعور معاشرہ‘ آزاد عدلیہ‘ فعال میڈیا‘ جاندار اور محب وطن سیاسی جماعتیں وغیرہ۔ باشعور معاشرے کے رویے بھی جمہوری اور فرض شناس ہوں تو جمہوریت تقویت پاتی ہے۔ ووٹر کو اس بات کا احساس ہونا ضروری ہے کہ اُس کا ووٹ قیمتی ہے اور وہ ذات برادری‘ دباؤ اور مالی منفعت سے بالا تر ہو کر ووٹ دے۔
رواداری اور برداشت جمہوریت کی بنیادی ضرورت ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں ڈائیلاگ جاری رہنا چاہئے۔ کسی لیڈر کا یہ کہنا کہ میرے مخالف عوامی نمائندے چور اور ڈاکو ہیں‘ لہٰذا میں ان سے بات نہیں کروں گا‘ غیرجمہوری رویہ ہے۔ کون چور ہے اور کون ڈاکو‘ یہ فیصلہ صرف عدالتیں کر سکتی ہیں‘ سیاسی لیڈر بذاتِ خود اپنے مخالفین کے لیے یہ القاب استعمال نہیں کر سکتے۔ ویسے بھی جب تک جرم ثابت نہ ہو جائے آپ کسی کو مجرم نہیں کہہ سکتے۔ ہمارے ہاں عبوری وزیراعظم‘ چیف الیکشن کمشنر اور نیب کے چیئرمین کے انتخاب کے لیے حکومت اور اپوزیشن میں مشاورت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ قانون سازی میں بھی باہمی مشورے ضروری ہیں‘ ہمارے ہاں یہ عمل کئی برسوں سے رکا ہوا ہے‘ وجہ صرف ذاتی انا اور چور ڈاکو کے بے محل القاب ہیں۔
فرض کریں کہ حکومت اور اپوزیشن دو ٹیمیں ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف میچ کھیل رہی ہیں‘ اب یہ بھی فرض کر لیں کہ ایک ٹیم انڈیا کی ہے اور ایک پاکستان کی۔ میچ شروع ہونے سے پہلے دونوں کپتان ہاتھ ملائیں گے‘ پھر ٹاس ہوگا۔ تینوں امپائرز پر دونوں کپتانوں کو اعتماد ہوگا‘ میچ شروع ہو جائے تو فرض کریں ایک فاسٹ باؤلر کی تیز گیند مخالف ٹیم کے بلّے باز کے جسم پر لگتی ہے تو باؤلر بلّے باز کے پاس جا کر معذرت ضرور کرتا ہے‘ یہ ہوتی ہے سپورٹس مین سپرٹ‘ جس کا ہماری سیاست میں فقدان ہے مگر مغربی ممالک میں رواداری اور ایک دوسرے کی رائے کا احترام موجود ہے۔ صرف صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہد میں باہمی احترام اور اعتماد میں کمی نظر آئی۔ پارلیمنٹ ہِل پر ٹرمپ کے حامیوں نے حملہ بھی کیا جس سے امریکہ کا بین الاقوامی امیج بری طرح متاثر ہوا۔
جدید جمہوری ریاستوں میں اختیارات کی واضح تقسیم نظر آتی ہے۔ انتظامیہ‘ مقننہ اورعدلیہ ریاست کے تین ستون ہیں جن کے فرائض اور اختیارات آئین میں بیان کر دیے جاتے ہیں۔ مغربی جمہوری ریاستوں میں سویلین بالادستی کا اصول رائج ہے۔ جنگ کی حالت میں بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے مشورہ ضرور کیا جاتا ہے لیکن فائنل فیصلہ منتخب حکمران کا ہوتا ہے۔ عدلیہ‘ مقننہ اور انتظامیہ اپنے اپنے دائرہ ہائے کار میں کام کرتے ہیں۔ امریکہ میں اس طریقہ عمل کو Separation of Powers کہا جاتا ہے‘ اسے Checks & Balances کا نظام بھی کہا جاتا ہے تاکہ ریاست کا کوئی ایک ستون دوسروں پر حاوی نہ ہو سکے‘ گویا ایک توازن ضروری ہے تاکہ قانون کی حکمرانی قائم رہے کہ آئین تمام قوانین سے اعلیٰ اور ارفع ہے۔
قرونِ وسطیٰ کی اسلامی حکومتوں میں ہمیں اختیارات کی واضح تقسیم نظر نہیں آتی۔ اُس وقت کوئی منتخب مقننہ نہیں ہوتی تھی؛ البتہ وزیر اور مشیر ضرور ہوتے تھے‘ جنہیں خلیفۂ وقت مقرر کرتا تھا۔ قاضی بھی ضرور ہوتے تھے لیکن اہم اور حساس مقدمات میں آخری رائے خلیفۂ وقت کی ہوتی تھی۔ ہندوستان کی مغلیہ سلطنت میں بھی ایسی ہی صورت حال تھی۔ اختیارات کی واضح تقسیم کا تصور ہمارے ہاں مغرب سے آیا ہے۔ ا نگلینڈ کے مشہور سکالر جان لوک نے سب سے پہلے کہا تھا کہ بادشاہ کے علاوہ مقننہ‘ یعنی پارلیمنٹ کو بھی قانون سازی کرنی چاہئے۔ فرانس کے مشہور سیاسی دانشور Montesquieuنے اٹھارہویں صدی میں اس آئیڈیا کو مزید نکھارا۔
پاکستان کے آئین میں بھی ریاست کی تینوں شاخوں میں اختیارات کی تقسیم موجود ہے لیکن ہمارا سیاسی نظام چونکہ افراط و تفریط کا شکار ہے لہٰذا اپوزیشن کا ایک بڑا لیڈر اسلام آباد میں بڑا اجتماع کرنے کے لیے اعلیٰ عدلیہ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ ماضی قریب میں عدلیہ نے از خود نوٹس لے کر ایک سرکاری محکمے کے تمام تبادلوں کا ریکارڈ منگوا لیا کیونکہ عام تاثر یہ تھا کہ بڑے پیمانے پر یہ تبادلے حکومت اپنے خلاف کرپشن کیسز درست کرانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔سویلین بالادستی‘ یعنی منتخب نمائندوں کا مکمل طور پر بااختیار ہونا جدید جمہوری حکومتوں کا طرۂ امتیاز ہے۔ Civilian supremacyکا تصور مغرب میں جاری و ساری ہے۔ دوسری جنگ عظیم میںونسٹن چرچل کا کردار اپنی جگہ بے حد اہم تھا۔ یہی صورت حال امریکہ کے صدر ٹرومین کی بھی تھی۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جمہوری ممالک جنگ بھی بہتر طریقے سے لڑتے ہیں کیونکہ ہر بڑا قدم مکمل مشورے سے اٹھایا جاتا ہے اور ہر ادارہ اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے کام کرتا ہے۔لیکن ہمارے ہاں نہ جانے کیوں سویلین لیڈر اپنے ہی اداروں پر اعتماد نہیں کرتے۔ میاں نواز شریف نے اپنے تیسرے دورِ حکومت میں ایک اہم ادارے سے بجلی کی میٹر ریڈنگ کی درخواست کی تھی۔ موجودہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام سول افسروں کی بھرتی‘ پوسٹنگ اور پروموشن کے بارے میں جانچ پڑتال ایک حساس ادارہ کرے گا۔ اس ادارے کی پرفارمنس ہمیشہ اچھی رہی ہے لیکن اس کے کام کرنے کی نوعیت بالکل مختلف ہے‘لہٰذا یہ اندیشہ ہے کہ ایسے فیصلے ایک اچھے قومی ادارے کی کارکردگی کو متاثر کرنے کا سبب بن سکتے ہیں جوکہ ہماری قومی سلامتی کے لیے بھی خدشات کا باعث ہوگا۔
کامیاب جمہوری نظام کے لیے ایک شرط فعال سیاسی جماعتوں کا وجود ہے‘ قومی سطح کی مضبوط سیاسی جماعتیں ملک کے اتحاد کو تقویت دیتی ہیں‘ مگر ہمارے ہاں چار سیاسی جماعتوں پر چار خانوادوں کا قبضہ ہے۔ اس کے علاوہ اکثر سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی تھِنک ٹینک نہیں‘ گویا ہماری سیاسی پارٹیوں نے قومی مسائل پر سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ ہمیں خشک سالی کا سامنا ہے۔ آبادی کا آتش فشاں روز لاوا اگل رہا ہے۔ افراطِ زر کی وجہ سے غربت کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے مگر سیاسی لیڈر صرف اپنے اقتدار کی ہوس میں مبتلا ہیں‘ انہیں قومی مسائل سے کوئی غرض نہیں۔ہمارے دوست ممالک بھی اب کہہ رہے ہیں کہ پہلے آئی ایم ایف ہاں کرے گا تو ہی ہم قرض دینے کا سوچیں گے۔ پاکستان دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہے جس کے ہاتھ میں بڑا کشکول ہے۔
ہمارے عسکری ادارے کے سپوکس مین نے بارہا کہا ہے کہ ہمیں سیاست میں نہ گھسیٹا جائے یہ سویلین بالادستی کی جانب خوش آئند پیش رفت ہے‘ لیکن سیاسی جماعتیں پھر بھی اس سے اجتناب نہیں کر رہیں۔ یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہئے۔ایک قد آور سیاسی رہنما کا یہ بیان کہ قومی اداروں نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو ملک کے تین ٹکڑے ہو جائیں گے‘ انتہائی افسوس ناک ہے۔ سیاسی لیڈروں کو چاہیے کہ سوچ سمجھ کر بولا کریں۔ انٹ شنٹ بیانوں سے قوم کا مورال گرتا ہے۔ پاکستان ایک ملک ہے اور ہمیشہ ایک ملک رہے گا۔
اور آخر میں ایک تجویز۔ ہماری آبادی کا نصف حصّہ خواتین پر مشتمل ہے‘ تقریباً پچاس فیصد لوگ غریب ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ تمام سیاسی جماعتیں اگلے الیکشن میں خواتین اور مزدوروں کو زیادہ سے زیادہ ٹکٹ دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں