"JDC" (space) message & send to 7575

صدر پوتن اور طیب اردوان کا دورۂ تہران

جونہی صدر بائیڈن سعودی عرب سے واپس گئے‘ روس کے صدر پوتن تہران پہنچ گئے‘ اسی دوران ترکی کے صدر اردوان بھی ایران آئے اور یوں ایک سہ طرفہ سمٹ کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ بعض تجزیہ کار فوراً کہنے لگے کہ علاقے میں نئے بلاک بن رہے ہیں جبکہ ایسا کہنا قرینِ قیاس نہیں۔ پہلی سرد جنگ‘ عرصہ ہوا ختم ہو چکی‘ دوسری سرد جنگ کے آثار تو ہیں لیکن یہ ابھی پوری طرح شروع نہیں ہوئی اور یہ بھی واضح ہے کہ دوسری سرد جنگ اگر شروع ہوئی بھی تو اس کے خدوخال مختلف ہوں گے۔ روس گزشتہ پانچ ماہ سے حالتِ جنگ میں ہے‘ ایسی صور تحال میں روسی صدر کا بیرونِ ملک دورہ اضافی اہمیت کا حامل تھا۔ کئی مبصر یہ رائے بھی دے رہے ہیں کہ صدر بائیڈن اپنے دورے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے جبکہ صدر پوتن کا دورۂ تہران خاصا کامیاب رہا، میری رائے میں ایسا کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ صدر اردوان کو اس دورے کی پیشگی دعوت کیوں نہ دی گئی‘ اس کا جواب یہ ہے کہ تینوں ممالک کے شام میں واضح مفادات ہیں۔ ایران اور روس صدر بشار الاسد کے حامی رہے ہیں جبکہ ترکی کی نظریں مسلسل شام کے شمالی علاقے پر ہیں جہاں کرد بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ ترک حکومت کو یقین ہے کہ بارڈر کے دونوں جانب آباد کردوں میں تعاون ترکی میں علیحدگی پسند کرد تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ تینوں ممالک شام میں عسکری اعتبار سے چند برسوں سے موجود ہیں۔ ایران نے وہاں اپنی ریگولر فوج تو نہیں بھیجی مگر پاسداران اور حزب اللہ کے ذریعے شامی حکومت کو بچانے میں اس کا کردار واضح رہا ہے۔
ایک عام خیال یہ بھی ہے کہ روس ایران دوستی اب جز وقتی نہیں رہے گی بلکہ سٹریٹیجک پارٹنر شپ میں ڈھل جائے گی۔ اس رائے کے حامل اشخاص یہ استدلال رکھتے ہیں کہ روسی صدر کے دورے کے دوران ایران نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ روس کا یوکرین پر حملہ دراصل دفاعی نوعیت کا تھا اور حالات کا تقاضا بھی یہی تھا۔ اگر روس یوکرین پر حملہ نہ کرتا تو نیٹو افواج اس کی سرحد کے قریب آ سکتی تھیں۔ روس ایران سے جلد ڈرون خریدنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔روس اور ایران کو قریب تر لانے میں ایک بڑا فیکٹر دونوں کی عالمی تنہائی بھی ہے۔ دونوں مغربی پابندیوں کا شکار ہیں۔ روس نے یورپی ممالک سے بدلہ لینے کے لیے گیس کی برآمدات 80 فیصد کم کر دی ہیں۔ اس فیصلے سے یورپ میں اقتصادی ترقی رکنے کا خدشہ ہے۔ یورپ میں کساد بازاری کے اثرات عالمی منڈی پر بھی مرتب ہوں گے۔ یاد رہے کہ یورپ پاکستان ٹیکسٹائل کا بڑا خریدار ہے۔ ترکی اور مغربی ممالک کے تعلق کو بیک وقت محبت اور نفرت (Love and hate relationship) کہا جا سکتا ہے۔ ترکی کا یورپی یونین کا ممبر بننے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوا اور نہ اس کے پورے ہونے کا کوئی چانس مستقبل قریب میں نظر آتا ہے۔ چند سال پہلے ترکی نے امریکہ سے پیٹریاٹ (Patriot) میزائل خریدنا چاہے تو امریکہ نے انکار کر دیا۔ ترکی نے روس سے S-400 میزائل خرید لیے۔ امریکہ کو یہ بات بھی اچھی نہیں لگی۔ پھر ترکی نے امریکہ کے ساتھ F-35 فائٹر جیٹ کا سودا کیا۔ ایڈوانس ادائیگی بھی کر دی گئی لیکن روسی میزائل خریدنے کا غصہ ابھی باقی تھا۔ F-35 جیٹ ابھی تک ترکی کو نہیں ملے اور اب ٹرکش ڈیفنس انڈسٹری کانگریس کی عائد کردہ پابندیوں کا سامنا کر رہی ہے۔
یورپ کے ساتھ بھی ترکی کے مسائل چل رہے ہیں۔ اگرچہ ترکی نیٹو کا ممبر بھی ہے۔ یوکرین کی جنگ شروع ہونے کے بعد فن لینڈ اور سویڈن نے نیٹو کے ممبر بننا چاہا تھا مگر ترکی نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ نیٹو میں ممبر شپ کا فیصلہ اجتماعی ہوتا ہے۔ ترکی کے ان دو ممالک کی نیٹو ممبر شپ کے بارے میں تحفظات کی بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ کرد تنظیم PKK کو دہشت گرد تنظیم ماننے کے بجائے حریت پسند کہتے ہیں۔
روس‘ ایران اور ترکی کو کسی نہ کسی صورت میں مغربی ممالک کی مخاصمت کا سامنا رہا ہے بلکہ اب بھی ہے اور یہ ایک ایسا فیکٹر ہے جس کی وجہ سے تینوں ممالک کے لیڈر تہران میں جمع ہوئے۔ روس اور ایران مغربی ممالک کو یہ بھی بتانا چاہتے تھے کہ ہم عالمی تنہائی کا شکار نہیں ہیں لیکن اس ثلاثی سمٹ کے نتیجے میں مجھے کوئی بلاک بنتا پھر بھی نظر نہیں آ رہا۔ ایران اور روس تیل اور گیس کے ایکسپورٹر ہیں اور ان کے درمیان مسابقت کی کیفیت رہتی ہے۔ البتہ ایک قابلِ ذکر پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ روس نے ایران کے انرجی کے وسائل میں سرمایہ کاری کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ روس کا پلان ہے کہ گوادر کے راستے زیرِ آب گیس پائپ لائن بچھائی جائے جو بھارت تک جائے۔ اگر یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے تو پاکستان کے لیے اچھی نوید ثابت ہو گا۔
روس یوکرین جنگ کی وجہ سے عالمی معیشت کو سخت دھچکا لگا ہے۔ یورپی ممالک گیس راشنگ پر مجبور ہوئے ہیں۔ گندم اور غذائی مواد کی ترسیل پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ روس یوکرین جنگ میں ترکی نے نیوٹرل پوزیشن لی ہے‘ وہ دونوں ممالک کی صلح کرانے کی کوشش کررہا ہے۔ مغربی ممالک کو ترکی کا یہ رول بھی زیادہ اچھا نہیں لگ رہا لیکن ترکی کی بحیرۂ اسود کے راستے گندم کی ایکسپورٹ دوبارہ شروع کرانے کی کوششیں ایسی ہیں کہ ان کی کوئی ملک بھی مخالفت نہیں کر سکتا۔ آج کی دنیا میں بین الاقوامی رشتے مسلسل مد و جزر کا شکار رہتے ہیں۔ نہ کوئی مستقل دوست ہے اور نہ دشمن۔ قومی مفادات انٹرنیشنل تعلقات کا تعین کرتے ہیں۔ سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات میں بہتری کے آثار نمایاں ہیں۔ روس کے بیک وقت ایران اور اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔ اس سارے منظر نامے میں چین کے کردار کا بغور مطالعہ ضروری ہے۔ چین کی توجہ اقتصادی ترقی پر مرکوز ہے‘ وہ کسی عسکری مہم جوئی میں نہیں پڑنا چاہتا؛ البتہ اپنے دفاع کا اسے خوب ادراک ہے۔ ایران اور چین کی تجارت 40 ارب ڈالر ہے جبکہ ایران اور روس کی دو طرفہ تجارت صرف چار بلین ڈالر ہے۔ ایران کے روس اور چین دونوں سے تعلقات میں گرمجوشی نظر آ رہی ہے لیکن چین کے بھارت اور مغربی ممالک سے بھی تجارتی اور اقتصادی تعلقات جاری و ساری ہیں۔
خلیج کے علاقے میں امریکی کردار آہستہ آہستہ کم ضرور ہو رہا ہے لیکن ختم نہیں ہوا۔ صدر بائیڈن کے سعودی عرب کے دورے سے یہ بات تو ثابت ہو گئی ہے کہ ہماری دنیا کو تیل پر انحصار ختم کرنے میں ابھی وقت لگے گا۔ روس اور ایران دونوں مغربی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی بقا اور ترقی کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ ان حالات میں ایک راستہ تو باہمی دو طرفہ تعاون ہے۔ روس ایرانی ڈرون خریدنے پر آمادہ ہے اور انرجی کے میدان میں سرمایہ کاری بھی کرنا چاہتا ہے۔ دونوں ممالک ڈالر کے حصار سے نکل کر کسی اور کرنسی میں تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں تیزی سے بدلتے ہوئے علاقائی اور انٹرنیشنل حالات پر ہمہ وقت نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم اندرونی لڑائیوں ہی میں مصروف رہیں اور بیرونی مفادات کا بروقت ادراک نہ کر سکیں۔ ان حالات میں ایک چوکس فارن سروس کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں