"JDC" (space) message & send to 7575

پست معیارِ تعلیم‘ پسماندہ قوم … (2)

پچھلے کالم کے آخری جملوں میں اس امر کا ذکر آیا تھا کہ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے دوسری علم دوست اقوام سے استفادہ ضروری ہے۔ آپ سوچئے کہ ڈاکٹر عبدالسلام انگلینڈ اور اٹلی نہ جاتے تو کیا نوبیل انعام پا سکتے تھے؟ ڈاکٹر قدیر خان اگر جرمنی اور ہالینڈ نہ جاتے تو کیا پاکستان کو ایٹمی قوت بنا پاتے؟ میرا جواب نفی میں ہے۔
کئی سال پہلے گورنمنٹ کالج لاہور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر خالد آفتاب نے حکومتِ پاکستان کو تجویز دی تھی کہ پاکستان میں سارک یونیورسٹی قائم کی جائے مگر فنڈز کی کمی کو جواز بنا کر یہ تجویز رَد کر دی گئی لیکن میرا خیال ہے کہ اصل وجہ ہماری سکیورٹی کے بارے میں مخصوص سوچ تھی‘ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ہمسایہ ملک سے ہمارے ہاں پروفیسر اور سٹوڈنٹس آئیں حالانکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ انڈیا کے تعلیمی ادارے ہم سے بہتر ہیں لہٰذا انڈیا کے ساتھ تعلیمی تعاون میں ہمارا فائدہ ہو سکتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ انڈیا میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار یہاں سے زیادہ ہے اور یہ اچھے بیج کی بدولت ہے تو کیا ہمیں انڈیا کے زرعی اداروں سے اچھے بیج کی ڈویلپمنٹ کے بارے میں نہیں سیکھنا چاہیے؟ کیا ہمیں مصر سے کاٹن کی تازہ ترین ریسرچ کی معلومات حاصل نہیں کرنی چاہئیں؟
میانمار کی مثال ہمارے سامنے ہے‘ میں وہاں رہا ہوں۔ 1962ء سے پہلے برما کشادہ ذہن کے لوگوں کا خوشحال ملک تھا۔ تیل کی دولت کے علاوہ برما کے لوگ مغربی ممالک سے علم کی دولت بھی حاصل کرتے تھے۔ وہاں کی مشہور لیڈر آنگ سان سوچی انگلینڈ سے فارغ التحصیل ہے اور پھر برما کو دو بیماریاں لاحق ہو گئیں‘ ایک سوشلزم اور دوسری مارشل لاء۔ میں 1997-98ء میں وہاں تھا اور سب سے بڑی دانش گاہ یعنی رنگون یونیورسٹی کئی سال سے بند تھی۔ عسکری حکمرانوں کو خوف تھا کہ یونیورسٹی کھولی تو طلبہ سڑکوں پر آ جائیں گے اور آج آپ میانمار کی حالت دیکھ لیں‘ قابلِ ترس ہے۔ ماضی کے کشادہ ذہن اور خوش حال ملک میں آج جہالت اور غربت کے ڈیرے ہیں۔ کیا ہم پاکستان کو میانمار بنانا چاہتے ہیں یا ہم ترکی اور ملائیشیا کے نقشِ قدم پر چلنا چاہتے ہیں؟ ہمارے آئین کے آرٹیکل 25-A کے مطابق لازمی اور مفت تعلیم ہر بچے کا حق ہے مگر ہمارے سوا دو کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں تو کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ ہمارے یہ بچے گلیوں میں آوارہ پھر رہے ہیں یا گھروں‘ دکانوں اور ورکشاپوں میں بطور چائلڈ لیبر کام کر رہے ہیں۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ اس آئین کی خلاف ورزی کا از خود نوٹس کیوں نہیں لیتی کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ہمارے ہاں تعلیمی خلا کو کسی حد تک پرائیویٹ سکولوں اور دینی مدارس نے پورا کیا ہے۔ اگر سرکاری سکول اچھی طرح چلتے تو پرائیویٹ سکولوں کی ضرورت ہی نہیں تھی لیکن آج اس امر سے انکار ناممکن ہے کہ پرائیویٹ سکولوں کا معیار سرکاری سکولوں سے بہتر ہے مگر ان سکولوں کی فیس عوام کی پہنچ سے باہر ہے۔
تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے واحد طریقہ سرکاری سکولوں کی اصلاح ہے تاکہ ہم قوم کے بچوں کی بے پناہ چھپی ہوئی صلاحیتوں کو نکھار سکیں۔ تعلیم انسان میں صحیح سوچ کی صلاحیت پیدا کرتی ہے‘ اسے عزتِ نفس اور خود اعتمادی دیتی ہے۔ تعلیم کی بدولت ہی ایک پاکستانی نژاد بس ڈرائیور کا بیٹا لندن کا میئر بنتا ہے۔ اور اب آتے ہیں دینی مدارس کی طرف۔ پاکستان میں ہر مسلک کے سینکڑوں دینی مدارس ہیں۔ یہاں عربی قواعد یعنی گرامر‘ ناظرہ قرآن‘ منطق‘ فقہ اور حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اب اِکا دُکا دینی مدارس نے سائنس اور انگلش بھی پڑھانا شروع کر دی ہے لیکن ایک عام دینی مدرسے میں فوکس عربی زبان کے قواعد پر ہی رہتا ہے۔ یہ بچے ابتدائی آٹھ سال مندرجہ بالا مضامین ہی پڑھتے ہیں۔ آغاز عربی گردان کے زبانی یاد کرنے سے ہوتا ہے۔ آٹھ سال مسلسل عربی پڑھنے کے باوجود شاید ہی کوئی بچہ ہو جو عربی زبان میں گفتگو کر سکتا ہو۔ ان کے مقابلے میں پرائیویٹ سکولوں یعنی انگلش میڈیم والے بچے دو چار سال میں فرفر انگریزی بولنے لگتے ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ دینی مدارس کے پاس زبان سکھانے کے جدید سمعی اور بصری آلات نہیں ہیں۔
ہمارے ہاں میٹرک کا معیار بہت پیچھے رہ گیا ہے‘ اسی وجہ سے اشرافیہ او لیول اور اے لیول کی طرف چلی گئی ہے۔ میٹرک لیول سلیبس کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ انڈیا میں کوئی اے اور او لیول نہیں مگر پھر بھی وہاں کے سٹوڈنٹس بیرونِ ملک اعلیٰ تعلیم کے لیے بڑی تعداد میں جاتے ہیں۔ اب ہمارے ہاں اسلامیات اور پاکستان سٹڈیز کے مضامین کالج لیول تک پڑھائے جاتے ہیں۔ یہ مضامین میٹرک تک ہونے چاہئیں اس کے بعد فزکس‘ کیمسٹری‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ پیشہ ورانہ تربیت‘ بائیولوجی اور ریاضیات پر توجہ مرکوز کی جائے۔ تعلیم کے علاوہ تربیت پر بھی زور دیا جائے۔ والدین اور اساتذہ خود رول ماڈل بنیں۔ ہمارے سٹوڈنٹس اچھے سائنس دان‘ اچھے انجینئر‘ اچھے ڈاکٹر اور اچھے انسان ہونے چاہئیں۔
اچھی تعلیم ذہن کو کشادہ کرتی ہے۔ مخالف نقطۂ نظر کو حوصلے سے سننے کی تربیت دیتی ہے۔ مشکل سوال پوچھنے کی ہمت دیتی ہے۔ مغرب کی اچھی درسگاہیں طوطے اور روبوٹ پیدا نہیں کرتیں۔ امریکہ میں کوئی سالانہ امتحان نہیں ہوتے‘ کوئی رَٹا نہیں لگاتا وہاں روز کے روز سٹوڈنٹ کی کلاس پرفارمنس کو پرکھا جاتا ہے۔ سوال پوچھنے پر اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ وہاں ہر اچھی یونیورسٹی میں ریسرچ ہوتی ہے جو ہمارے ہاں تقریباً ناپید ہے۔
میں نے جب سے اسلام آباد میں گھر بنایا ہے‘ الیکٹریشن ایک ہی ہے۔ نعیم نامی یہ شخص ہمارے گھر کے ایک ایک سوئچ‘ پنکھے اور اے سی سے واقف ہے۔ اسے جب بھی بلاتے ہیں وہ اپنے ساتھ ایک لڑکا ضرور لاتا ہے‘ وہ اس کی ٹول کٹ اٹھاتا ہے اور نعیم کو استاد جی کہتا ہے۔ یہ لڑکے بدلتے رہتے ہیں۔ کام سیکھ کر روزی روٹی کے قابل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے متعدد ووکیشنل اداروں کی ضرورت ہے جو بچوں کو ٹیکنیکل تعلیم دیں۔ نعیم کے ساتھ آنے والے لڑکے عموماً میٹرک پاس ہوتے ہیں مگر اس مرتبہ اس کے ساتھ ایسا لڑکا آیا جو اَن پڑھ تھا۔ میں نے نعیم سے پوچھا کہ میٹرک تک سائنس پڑھے ہوئے لڑکے بجلی کا کام جلد سیکھتے ہیں یا اَن پڑھ؟ نعیم کا جواب تھا کہ پڑھے لکھے لڑکے بجلی کا کام چھ ماہ سے ایک سال میں سیکھ جاتے ہیں جبکہ اَن پڑھ لڑکوں کو دو سال لگ سکتے ہیں۔
انڈیا میں پنڈت نہرو نے آغاز میں ہی ٹیکنیکل ایجوکیشن کی اہمیت کو سمجھ لیا تھا۔ آج ممبئی‘ دہلی‘ کانپور اور بنگلور میں ورلڈ کلاس انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے تدریسی ادارے ہیں۔ اس سال انڈیا جاپان سے زیادہ کاریں بنائے گا۔ انڈیا کی ریاست کیرالا میں مرغیوں کے فضلے سے بجلی بنائی جا رہی ہے۔
پاکستان کی بقا کی جنگ فقط سرحدوں پر نہیں بلکہ تعلیمی اداروں میں بھی لڑی جانی چاہیے۔ اگر گھوسٹ سکول قائم رہے‘ نقل جاری رہی‘ میٹرک کا سلیبس فرسودہ رہا‘ یونیورسٹیوں سے ریسرچ غائب رہی تو ہم یہ جنگ نہیں جیت سکتے۔ مشہور مسلمان سائنس دان ابنِ سینا‘ ابن الہیثم‘ ابنِ خلدون اور ابوبکر الرازی نے دین اور دنیا کے علوم ساتھ ساتھ چلائے۔ دوسری اقوام سے کسبِ فیض کیا اور دنیا کے لیے علم کے خزانے چھوڑ کر گئے۔ پاکستان کی بقا کی جنگ جیتنی ہے تو ان مشاہیر کی پیروی کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں