"JDC" (space) message & send to 7575

’’نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘

گزشتہ چودہ ماہ سے پی ڈی ایم حکومت اقتدار کے گھوڑے پر سوار ہے مگر اقتدار پر اس کاکنٹرول نہیں ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف اسمبلی کے فلور پر فرماتے ہیں کہ ٹیکس چور اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ایک زمانے سے ان کی جماعت اقتدار کی باریاں لے رہی ہے‘ ان سے پوچھا جائے کہ آپ کی پارٹی ٹیکس چوروں کو الیکشن کیلئے ٹکٹ کیوں دیتی رہی ہے اور کیا اگلے الیکشن میں ایسے ہی لوگ دوبارہ نہیں آئیں گے؟ وزیر موصوف کی تقریر سے غریب عوام کا دکھ درد بھی خوب جھلک رہا تھا۔ انہیں پتا ہے کہ اس عوام کو جہاں ہم پہلے بیوقوف بناتے رہے ہیں تو ایک مرتبہ اور بھی غریبوں کیلئے مگرمچھ کے آنسو بہا کر انہیں مزید بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔
اگر حکومت کی واقعی نیت ہوتی اور اس کے بس میں کچھ ہوتا تو کم از کم قیمتوں پر کنٹرول کرتی‘ مگر اس بھان متی کے کنبے میں اس کی صلاحیت نہیں اور نہ ہی یہ اس کی اولین ترجیح ہے۔ آپ اہم سیاسی جماعتوں بشمول ایک نوزائیدہ پارٹی کے ممبران کو غور سے دیکھیں‘ نظریاتی سیاست آپ کودور دور تک نظر نہیں آئے گی۔ سب کا تعلق اشرافیہ سے ہے اور سب اقتدار میں آکر اپنے طبقے کے مفادات کا دفاع کریں گے۔ وزیر دفاع کی پارٹی بھی مالی طور پر مستحکم اور اپنی اپنی برادری میں مقبول لوگوں کو ہی ٹکٹ دے گی۔ پاکستان اور لندن میں موجود قائدین کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے اور پارٹی کا کوئی اور وزیر پانچ سال بعد پھر کہے گا کہ ٹیکس چور پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ ہماری حکومت اور ہمارا نظام تضادات سے بھرپور ہیں۔ کیا حکومت کی کارکردگی بڑھانے کیلئے نوے وزیر درکار تھے؟ قائداعظم کی کابینہ میں صرف چھ وزیر تھے اور مشرقی پاکستان بھی ہمارے ساتھ تھا۔ مہاجرین کی آبادکاری کا گمبھیر مسئلہ بھی تھا لیکن چھوٹی سی کابینہ نے باصلاحیت بیورو کریسی کی مدد سے تمام مسئلے حل کر لیے۔ اب ہمارا ایک بڑا تضاد فیملی پلاننگ کے حوالے سے ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ محکمہ مکمل طور پر صوبائی حکومتوں کے کنٹرول میں ہے۔ این ایف سی ایوارڈ جس کی بنا پر مرکزی حکومت صوبوں میں وسائل تقسیم کرتی ہے اس ایوارڈ میں وسائل کی تقسیم میں آبادی کا حجم اہم ترین عنصر ہے‘ لہٰذا صوبوں کو اس بات کی ترغیب ملی ہے کہ اپنی اپنی آبادی زیادہ سے زیادہ بتائیں۔ محکمہ پاپولیشن پلاننگ اسی وجہ سے صرف اشتہارات کی حد تک فعال نظر آتا ہے۔بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی اب پاکستان سے زائد ہے‘ اس کی ایک وجہ وہاں کا کامیاب پاپولیشن پلاننگ پروگرام ہے۔ حکومت 1972ء سے اس معاملے میں یکسو ہے‘ علما نے بھی حکومت کا اس ضمن میں مکمل ساتھ دیا ہے۔ خواتین کو کاروبار میں فعال کرکے بھی مطلوبہ مقاصد کامیابی سے حاصل کئے گئے۔ مصروف خواتین زیادہ بچوں کے حق میں نہیں ہوتیں اور ان میں خود اعتمادی آ جاتی ہے کہ خاوند سے مختصر فیملی کے حق میں بات کر سکیں۔ پاکستان میں غریب طبقہ کی خواتین میں یہ خود اعتمادی ابھی تک ناپید ہے اور نہ ہی حکومت کا غریب طبقے کو بااختیار کرنے کا کوئی پروگرام ہے۔ ملک اللہ کے سہارے چل رہا ہے لیکن ہماری ڈنگ ٹپائو پالیسیوں نے اسے کمزور کردیا ہے۔ جہاں ہر دو تین سال بعد حکومت بدل جائے وہاں طویل عرصے کی پلاننگ نہیں ہو سکتی۔ ہمیں معلوم ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے‘ سیلاب پہلے بھی آتے رہتے ہیں اور آئندہ بھی آنے کا امکان ہے۔ تربیلا ڈیم بنے ہوئے نصف صدی ہونے کو ہے اس کے بعد ہم نے کوئی بڑا ڈیم نہیں بنایا‘پانی سٹور کرنے کا نہیں سوچا۔ پانی کے کُل بہائو کا 85فیصد ہمارے دریائوں میں موسم گرما میں آتا ہے اور اس کا بیشتر حصہ سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ قرآن ہم سے بار بار پوچھتا ہے ''افلا تعقلون‘‘ تم سوچتے کیوں نہیں۔ مگر غوروفکر کی عادت نہ حکومت میں ہے اور نہ عوام میں۔ اگر عوام میں قومی سطح پر سوچنے کی صلاحیت ہوتی تو وہ بار بار ٹیکس چوروں کو ووٹ نہ دیتے۔ کراچی کی حالت بگاڑنے میں ایک حصہ پیپلزپارٹی کا بھی ہے مگر میئر پھر بھی اسی کا منتخب ہوا ہے۔
قومیں پہلے اپنا قبلہ درست کرتی ہیں‘ اپنے اہداف کا تعین کرتی ہیں‘ پھر ان اہداف کو حاصل کرنے کیلئے یکسوئی سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ہیں اور پھر بڑے قدم اٹھانے کے لیے خود اعتمادی آتی ہے۔ پھر سے بنگلہ دیش چلتے ہیں‘ وہاں آرمی میں یہ رول ہے کہ جس فوجی کا صرف ایک بچہ ہو اسے راشن مفت ملتا ہے۔ اگر دوسرا بچہ پیدا ہو جائے تو مفت راشن بند ہو جاتا ہے۔ یہ ہے وہاں فیملی پلاننگ کا مؤثر طریقہ اور ہمارے ہاں سرکاری سکولوں میں بڑے بھائی کی فیس پوری ہوتی ہے اور دوسرے کی آدھی تو کیوں نہ لوگ زیادہ بچے پیدا کریں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ آج ہم بنگلہ دیش سے بھی زیادہ غریب ہیں۔
حال ہی میں پاکستان کو مستحکم کرنے کیلئے ایک نئی پارٹی وجود میں آئی ہے۔ یہ پارٹی یکدم کیسے وجود میں آئی اس پر کئی سوال اٹھ رہے ہیں۔ اس ملک میں کبھی راتوں رات ریپبلکن پارٹی نے جنم لیا تھا‘ پھر ایوب خان کے دور میں محب وطن لوگوں نے کنونشن لیگ بنائی۔ 2002ء میں مشرف کو سیاسی بیساکھیوں کی ضرورت پیش آئی تو مسلم لیگ کا ایک نیا دھڑا تخلیق کیا گیا اور قائداعظم کے لقب سے اولین حرف مستعار لے کر اس مسلم لیگ (ق )کے نام کے ساتھ لگا دیا گیا۔ گویا ہم سیاسی طور پر پھر سے 2002ء میں واپس چلے گئے ہیں یا اس سے بھی پیچھے۔ یہ معکوس سفر ایک عرصے سے جاری ہے۔
یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہمارے ہاں آزادیٔ رائے کو سب سے زیادہ فروغ مشرف کے دور میں ملاجب پرائیویٹ ٹی وی چینل قائم ہوئے۔ آج کہنے کو پاکستان میں جمہوری حکومت ہے مگر آزادیٔ رائے پر اچھی خاصی پابندیاں ہیں۔ ایک بڑی پارٹی حکومت لے کر پچھتا رہی ہے وہ 2018ء کے صدمے سے ہی نہیں نکل پا رہی حالانکہ حکومت اب اس کے پاس ہے۔ جب پرفارمنس خراب ہو تو کسی دوسرے پر الزام دھرنا ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم تو ناچ خوب جانتے ہیں لیکن پچھلی حکومت آنگن کو ٹیڑھا کر گئی ہے۔ وزیر خزانہ ایک زمانے میں دعویٰ کرتے تھے کہ میں آئی ایم ایف سے ڈیل کرنا خوب جانتا ہوں لیکن اب فرما رہے ہیں آئی ایم ایف سے معاہدہ جیو پولیٹکل حالات کی وجہ سے کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ جب اقتدار کے گھوڑے پر متعدد سوار بیک وقت بیٹھے ہوں تو گھوڑا کنفیوز ہو جاتا ہے۔ وہ صحیح سمت میں چل نہیں سکتا۔
چلیں ڈار صاحب کی بات مان لیتے ہیں کہ آئی ایم ایف سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو گیا مگر موڈیز تو غیر سرکاری اور غیر جانبدار ادارہ ہے۔ یہ مختلف ممالک کی اقتصادی ریٹنگ کرتے رہتے ہیں۔اس ادارے کا تازہ ترین بیان یہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان کے حالیہ بجٹ میں آمدنی بڑھانے اور اخراجات کم کرنے کے اقدامات تسلی بخش نہیں ہیں۔ حکومت جماعتیں عوام کے ووٹوں کی جانب دیکھ رہی ہیں اور اسی وجہ سے ایسا کڑا بجٹ نہیں بنا سکیں جو ہمارے مسائل کا دیر پا حل ہوتا۔ ڈنگ ٹپائو پالیسیوں کے ایسے ہی نتائج ہوتے ہیں :
رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں