"JDC" (space) message & send to 7575

انسانی سمگلنگ اور پاکستان

13اور 14جون کی درمیانی شب کو یونان کے سمندر میں‘ جسے اردو میں بحیرۂ روم کہا جاتا ہے‘ 350سے زائد پاکستانی لقمۂ اجل بن گئے۔ مجھے اسی دن سے کرم فرمائوں کے پیغام آنا شروع ہوئے کہ آپ یونان میں سفیر رہے ہیں‘ لہٰذا اس بات کی صراحت کے ساتھ تشریح کر دیں کہ ایسے واقعات زیادہ تر یونان ہی میں کیوں ہوتے ہیں اور کیا ان کا تدارک ممکن ہے؟ سب سے پہلے تو میں اس بات کی وضاحت کر دوں کہ یہ اپنی قسم کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ میں مارچ 1999ء میں ایتھنز پہنچا تھا اور تین ماہ قبل ایسا ہی واقعہ ہو چکا تھا۔ البتہ فرق یہ تھا کہ اموات کم ہوئی تھیں‘ ڈوبنے والے جہاز میں زیادہ تر لوگ انڈین اور پاکستانی تھے اور وہ ترکی کے راستے سے یونانی سمندر میں غیرقانونی طور پر داخل ہوئے تھے۔ اب روٹ بدل چکا ہے اور میں یہ بھی کہتا چلوں کہ جب تک وطنِ عزیز میں معاشی حالات بہتر نہیں ہوتے اور بیرونِ ملک کے غیرقانونی سفر کا تدارک کرنے والے محکمے رشوت لینا بند نہیں کرتے‘ یہ قبیح دھندا جاری رہے گا۔ حال ہی گرفتار ہونے والے ایک ایجنٹ نے رشوت اور انسانی سمگلنگ کے باہمی تعلق کو واضح کر دیا ہے۔
علی بلال احمد ایک پڑھا لکھا پاکستانی ہے جو آج کل نیروبی میں مقیم ہے۔ اس نے چند سال پہلے پاکستانی نوجوانوں کی یورپ جانے اور وہاں سکونت اختیار کرنے کی وجوہات تلاش کرنے کیلئے تحقیق کی اور اسے کتابی شکل میں شائع کر دیا۔ مصنف نے اس کی دو بڑی وجوہات بیان کی تھیں۔ پہلی وجہ نوجوانوں کی مہم جوئی کی خواہش ہے۔ ظاہر ہے کہ غیرقانونی سفر چھپ چھپا کر ہوتا ہے۔ ترکی کے راستے یونان میں داخل ہونا چاہیں تو راستے میں گھنا جنگل آتا ہے جو خطرناک تو ہے مگر غیرقانونی تارکینِ وطن کو چھپنے کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔ جنگل سے آگے یونانی علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ سمندر بھی یہاں سے قریب ہے۔ زمینی حدود پر بارڈر گارڈ اکثر گشت کرتے رہتے ہیں‘ لہٰذا غیرقانونی تارکین وطن اکثر کشتیاں استعمال کرتے ہیں۔ کشتی میں بیٹھتے ہی وہ اپنا پاکستانی پاسپورٹ سمندر میں پھینک دیتے ہیں اور اس کی بھی ایک وجہ ہے۔
علی بلال احمد نے اس موضوع کو نوجوانوں کی نفسیات کے حوالے سے ایڈریس کیا ہے۔ نوجوانوں کی مہم جوئی کی خاصیت کے علاوہ مصنف کا خیال ہے کہ یورپی ممالک کی آزادیاں ہمارے نوجوانوں کیلئے پُرکشش ہیں جبکہ پاکستان میں کئی حوالوں سے خاصی گھٹن ہے۔ میرے لیے علی بلال احمد سے مکمل اتفاق کرنا قدرے مشکل ہے‘ میں نے یونان میں کئی پابند صوم و صلوٰۃ پاکستانی دیکھے اور ایسے بھی چند لوگ دیکھے جو یورپین رنگ میں رنگے گئے تھے۔ ویسے بھی وقت حاضر میں پاکستان سے غیر قانونی طریقے سے فرار ہونے کی محرکات میں اقتصادی بدحالی اور بے روزگاری بے حد اہم ہیں۔ اپریل 2022ء سے ملک سے باہر جانے کا رجحان یکدم بڑھا ہے۔ میرے خیال میں معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ پاکستانی نوجوانوں کو دیس سے بھگانے والی ہماری اشرافیہ ہے جس نے 75سال میں عوام کو ملکی وسائل میں ان کا حصہ نہیں دیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے پچھلے دن پہلے کہا تھا کہ ٹیکس چور اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ بات قومی اسمبلی میں کہی گئی تھی۔ دوسری بڑی وجہ عوام خود ہیں۔
اب اصل سوال کی طرف آتے ہیں کہ ایسے حادثات یونان کے ساحلوں پر ہی کیوں ہوتے ہیں؟ اس کا سیدھا سا جواب یونان کا جغرافیہ ہے۔ پاکستان سے مغرب کی جانب جائیں تو یورپ کا پہلا ملک یونان آتا ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ یونان یورپی یونین کا ممبر بھی ہے اور شینجن ممالک میں شامل ہے جہاں آپس میں ویزہ لیے بغیر آزادانہ سفر ہو سکتا ہے لہٰذا یونان کو اکثر پاکستانی‘ انڈین اور بنگلہ دیش اپنے پہلے پڑاؤ کے طور پر استعمال کرتے ہیں جبکہ ان کا اصل مقصد سپین‘ جرمنی‘ اٹلی یا فرانس جانا ہوتا ہے۔ شینجن ممالک کی تعداد 25ہے جس میں برطانیہ کے علاوہ مغربی یورپ کے تقریباً سارے ملک شامل ہیں۔ پاکستانی اور انڈین اگر یونان میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جائیں تو زراعت یا انڈسٹری میں چھوٹے موٹے کام کرکے گزارہ کرتے ہیں۔ سفارت خانے میں آکر اپنے پرانے سپورٹ کی گمشدگی کی رپورٹ کرتے ہیں۔ سفارت خانہ کوائف پاکستان بھیجتا ہے اور تصدیق ہو جانے پر نیا پاسپورٹ ایشو کر دیتا ہے۔ ایتھنز میں میری پالیسی یہ تھی کہ یہ لوگ غیرقانونی کام کرکے تو آئے ہیں لیکن ان کو نیا پاسپورٹ جلد از جلد ایشو کردیا جائے۔ پاسپورٹ سیکشن کے تمام لوگوں کو پتا تھا کہ اگر ہم نے رشوت مانگی یا غلط کام کیا تو ہماری خیر نہیں۔ میں روزانہ ایک مرتبہ خود پاسپورٹ سیکشن میں جا کر پوچھتا تھا کہ کسی کو کوئی شکایت تو نہیں۔
کچھ قارئین نے پوچھا ہے کہ یونان کے امیگریشن کے قوانین کیسے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یونان کے قوانین سخت ہیں لیکن وہاں ہر دو تین سال بعد Legalisationکا مرحلہ آتا ہے جس میں غیرقانونی تارکینِ وطن کو عارضی کارڈ ایشو کیے جاتے ہیں۔ موجودہ یونانی حکومت غیر ملکیوں کے یونان میں داخلے کے سخت خلاف ہے۔ یہ کشتی جس کو حادثہ پیش آیا‘ سو مسافروں کی گنجائش رکھتی تھی مگر اس میں 750 سے زائد مسافر ٹھونس دیے گئے جن میں آدھے سے زیادہ پاکستانی تھے۔ بقول ڈاکٹر حفیظ پاشا پاکستان میں اس وقت بیروزگاری 12فیصد ہے اور انسانی سمگلر دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق لیبیا میں موجود چند پاکستانی یہی دھندا کر رہے ہیں۔ میں ایک اور ملک میں بھی رہا ہوں جہاں پاکستانی غیرقانونی طور پر جاتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور وہ ملک ہے سلطنت آف عمان جو گوادر سے زیادہ دور نہیں۔ یہاں یہ قبیح دھندا ایران کے راستے سے ہوتا ہے۔ ایرانی بلوچستان کی ایک چھوٹی سی بندرگاہ سے یہ لوگ رات کی تاریکی میں عمان کے ساحل کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔ انہیں مسقط اور صحار کے درمیان کسی بھی جگہ ساحلِ سمندر پر اتار دیا جاتا ہے۔ اکثر کو عمانی کوسٹ گارڈز والے فوراً گرفتار کرکے صحار جیل بھجوا دیتے ہیں۔ میرے زمانے میں کمیونٹی ویلفیئر اتاشی طہٰ حسین بگٹی کو ہفتہ میں ایک مرتبہ صحار جانا پڑتا تھا کہ ان لوگوں کی ڈی پورٹیشن کا بندوست کیا جا سکے۔
میں مسقط میں ہی تھا کہ ایف آئی اے نے حکومتِ وقت سے مطالبہ کیا کہ ہمارا ایک افسر مسقط ایمبیسی میں پوسٹ کیا جائے‘ میں نے اس تجویز کی مخالفت کی۔ میرا استدلال یہ تھا کہ اس مسئلے کی جڑیں پاکستان میں ہیں۔ آپ اس مسئلے کو گجرات‘ منڈی بہائوالدین‘ کھاریاں اور پاک ایران بارڈر پر کنٹرول کریں۔ان ایجنٹوں کو پکڑیں جو اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں لیکن متعلقہ محکمہ بھی شست لگا کر بیٹھا ہوا تھا۔ میری ریٹائرمنٹ قریب تھی‘ میں جیسے ہی مسقط سے پوسٹ آئوٹ ہوا تو ایف آئی اے کا افسر وہاں پہنچ گیا مگر عمان کی جانب انسانی سمگلنگ اب بھی جاری ہے۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ یونان کی طرف غیرقانونی طور پر جانے والے اپنا پاسپورٹ سمندر میں کیوں پھینکتے ہیں؟ دراصل وہ اس بات کا ثبوت ختم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ یونان کس تاریخ کو داخل ہوئے۔ یونانی کوسٹ گارڈ کو پاسپورٹ مل جائے تو وہ فوراً مہر لگا دیتی ہے کہ یہ شخص فلاں تاریخ کو غیرقانونی طور پر آیا تھا۔ موجودہ حادثے پر پاکستان میں سوگ منایا گیا‘ حکمران بھی اس سوگ میں شامل تھے اور مجھے خواجہ آصف کی بات یاد آ رہی تھی کہ ہماری اسمبلی میں ٹیکس چوربیٹھے ہیں اور یہی اشرافیہ غریب بچوں کو غیر قانونی ہجرت پر مجبور کر رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں