"JDC" (space) message & send to 7575

تنخواہوں کے تضادات

پچھلے سال ایف بی آر کے ملازمین نے چار دن تک قلم چھوڑ ہڑتال کی یعنی دفتر آتے تھے اور گپ شپ لگا کر چلے جاتے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ہماری تنخواہیں نیب اور ایف آئی اے کے برابر کی جائیں۔ پچھلے ہی سال اسلام آباد میں چند اداروں کو 150فیصد ایگزیکٹو الائونس ملا لیکن خطا یہ ہوئی کہ چند دیگر اداروں کو اس الائونس سے محروم رکھا گیا چنانچہ ان اداروں میں خاموش احتجاج ہوتا رہا۔ حالیہ بجٹ میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ سب اہلکاروں کو سو فیصد ایگزیکٹو الائونس دے دیتے ہیں۔ ایسے ایڈہاک فیصلوں‘ جو برس ہا برس سے جاری ہیں‘ کی وجہ سے تنخواہوں میں ہمواری اور مساوات ختم ہو چکی ہے۔ مندرجہ بالا اطلاعات کے برعکس یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایف بی آر میں تنخواہیں باقی کئی محکموں سے زیادہ ہیں مثلاً وہاں سپیشل الائونس یا پرفارمنس الائونس کی شکل میں اچھا خاصا معاوضہ مل جاتا ہے۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ اچھا پرفارم کرنے والے افسروں کو اچھا مشاہرہ ملنا چاہیے لیکن اگر یہ افسران اپنے اہداف حاصل نہ کر سکیں تو کیا ان کو سزا بھی ملتی ہے‘ شاید ملتی ہو مگر ہمارے علم میں نہیں۔
مصدقہ اطلاعات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کی ماہانہ تنخواہ بارہ لاکھ انتیس ہزار ہے جو اتنی زیادہ بھی نہیں لیکن صدرِ پاکستان کا مشاہرہ چیف جسٹس سے کم ہے اور لاہور میں ایک اعلیٰ حکومتی تربیتی ادارے کے ہیڈ کی تنخواہ چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی زیادہ ہے۔ رضا باقر کے زمانے میں گورنر سٹیٹ بینک کی ماہانہ تنخواہ 25لاکھ مقرر ہوئی تھی۔ اب اس سے زیادہ ہی ہو گی‘ مجھے یہ نہیں معلوم کہ چیئرمین نیب اور وفاقی محتسب کی تنخواہیں کتنی ہیں۔پنجاب پولیس‘ موٹروے پولیس اور اسلام آباد پولیس کی تنخواہوں میں بھی فرق رہا ہے۔ سنا ہے کہ اس وقت اسلام آباد پولیس کا مشاہرہ پنجاب پولیس سے زیادہ ہے‘ تو کیا واقعی اسلام آباد پولیس کی کارکردگی بھی بہتر ہے؟ میرا ذاتی تجربہ اس کے برعکس ہے۔ بارہ سال ہو گئے اسلام آباد پولیس میرے گھر ڈاکہ ڈالنے والے مجرموں کو نہیں پکڑ سکی حالانکہ اشارے بہت واضح تھے۔
اس سال بجٹ سے چند روز پہلے اسلام آباد سیکرٹریٹ کے ملازموں نے دروازے بند کردیے‘ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی تنخواہیں 30 سے 35فیصد بڑھا دی گئیں مگر مجھ جیسے سینئر پنشنرز چونکہ سڑکوں پر نہیں آ سکتے تھے لہٰذا ہمیں ساڑھے سترہ فیصد پر ٹرخا دیا گیا۔ سب سے بڑی ستم ظریفی حکومتِ پنجاب کے ریٹائرڈ ملازموں سے ہوئی ہے‘ جہاں60سے80سالہ پنشنرز کو صرف پانچ فیصد اضافہ دیا گیا ہے‘ تو کیا پنجاب میں ریٹائرڈ لوگوں کے لیے افراطِ زر کی شرح کم ہے؟ میں نگران حکومت سے مخاطب ہوں۔ ویسے بھی اسلام میں بزرگوں کے ساتھ زیادتی ممنوع ہے۔
اور اب آپ کو سچی اور دلچسپ کہانی سناتے ہیں۔ لاہور تا اسلام آباد موٹروے تکمیل کے مراحل میں تھی۔ میاں نواز شریف وزیراعظم تھے۔ میاں صاحب کا مصمم ارادہ تھا کہ ہماری موٹروے کسی اعتبار سے بھی انٹرنیشنل موٹرویز سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ جرمنی کی آٹو بان (Autobahn)اس زمانے میں اپنی کشادگی اور سپیڈ کے لحاظ سے دنیا بھر میں معروف تھی وہاں کی پولیس بھی مستعد تھی۔ چنانچہ وزیراعظم نے پولیس کے چند افسر جرمنی بھیجے تاکہ آٹو بان کی پولیس کا مشاہدہ کرکے آئیں۔ پولیس افسروں کی ٹیم نے آکر رپورٹ دی کہ آٹو بان کی پولیس کسی سے رشوت نہیں لیتی۔ لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آتی ہے اور اگر کسی کو کوئی مسئلہ پیش آئے تو حتیٰ الوسیع مدد بھی کرتی ہے۔ میاں صاحب نے کہا کہ مجھے بھی موٹروے پر ایسی ہی پولیس چاہیے‘ آپ لوگ اپنی سفارشات لکھ کر دیں۔ ٹیم نے لکھ کردیا کہ نئی تشکیل شدہ موٹروے پولیس کی تنخواہ عام پولیس سے ڈبل ہونی چاہیے۔ میاں صاحب بھی بادشاہ ہیں‘ انہوں نے فیصلہ کیا کہ موٹروے پولیس کی ماہانہ تنخواہ عام پولیس سے تین گنا ہو گی۔
ہمارے حکمرانوں کے شاہانہ رویوں کی وجہ سے بھی ملک کنگال ہوا ہے۔ حکم صادر کرتے وقت انہیں یہ خیال ہی نہیں رہتا کہ ایک غریب ملک کے لیڈر ہیں۔ پچھلے سال‘ جب فیڈرل گورنمنٹ نے اسلام آباد کے افسروں کو ایگزیکٹو الائونس دیا تو خیبر پختونخوا اور پنجاب کی حکومتوں نے بھی فوراً اس فیصلے کو از خود نافذ کیا۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ تین حکومتوں میں افسران کو ایگزیکٹو الائونس دینے سے قومی خزانے پر کتنا بوجھ پڑا ہوگا اور خاص طور پر ایسے وقت میں جب ہم پوری دنیا میں کشکول لیے پھر رہے تھے۔
تنخواہیں اور الائونس ایڈہاک طریقے سے کیسے بڑھتے رہے؟ ہمارے ہاں جس کی لاٹھی مضبوط ہو‘ سب سے اچھی بھینس کا حقدار وہی ہوتا ہے۔ قومی مفادات پر مبنی فیصلہ سازی کا فقدان ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال چیئرمین سینیٹ کی تاحیات مراعات کا بل ہے۔ میری صادق سنجرانی صاحب سے درخواست ہے کہ انڈیا میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے سابق سپیکر کی مراعات بھی دیکھ لیں‘ وہ لوگ انتہائی سادگی سے گزارا کرتے ہیں۔ مفت سفر تو کر سکتے ہیں لیکن صرف ٹرین پر‘ مفت علاج بھی کروا سکتے ہیں لیکن صرف سرکاری ہسپتالوں میں۔ مسلح افواج میں تنخواہیں اور مراعات اچھی ہیں لیکن ہمارے جوان اور فوجی افسر آپ کی اور میری حفاظت کی خاطر جان ہتھیلی پر اٹھائے پھرتے ہیں۔ بھلا بتائیے کہ ایف بی آر‘ ایف آئی اے اور نیب کے افسران کی جان کو کیا خطرہ ہے کہ انہیں چپڑی اور دو دو مل رہی ہیں۔
جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے کہ حکومتی مشاہرے نامعقول حد تک ناہموار ہو گئے بلکہ پنشنرز کے ساتھ تو صریحاً ظلم ہو رہا ہے۔ بیچارے اضافی انکم کیلئے بہبود سرٹیفکیٹ خریدتے ہیں تو وہاں بھی پندرہ فیصد ٹیکس منافع پر ادا کرتے ہیں۔ اس ملک میں کمزور آدمی کا زندہ رہنا بہت مشکل ہے۔ تنخواہوں اور پنشن میں معقولیت اور ہمواری لانے کے لیے صدر پرویز مشرف کے زمانے میں ایک کمیٹی مشہور بیورو کریٹ اور سابق گورنر سٹیٹ بینک جناب عشرت حسین کی سربراہی میں قائم ہوئی۔ کمیٹی نے کئی سال بڑی عرق ریزی سے کام کیا۔ ہر سرکاری محکمہ کے لوگوں سے انٹرویو کیے کیونکہ ان کا مینڈیٹ تنخواہوں اور پنشن میں بہتری لانے کے علاوہ سول سروس ریفارمز تھا۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ بھی پیش کردی لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ دراصل ہمارے ملک میں چند بااثر گروہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کے مفادات کو ذرا سا بھی نقصان پہنچے۔ چند سال پہلے میں نے اپنے ایک کالم میں فیڈرل ہائوسنگ فائونڈیشن کا ذکر کیا تھا افسر وہاں بھی دیگر سرکاری محکموں سے ڈیپوٹیشن پر آتے تھے لیکن ان کی تنخواہ یکدم بڑھ جاتی تھی۔ سرکاری گاڑی مل جاتی تھی۔ علاج یہ افسر پرائیویٹ ہسپتالوں سے کرا سکتے تھے اور کچھ عرصے بعد اپنے حصے کا پلاٹ لے کر واپس محکمے میں چلے جاتے تھے۔
ہمارے ملک میں تنخواہ اس محکمے میں زیادہ بڑھتی ہے جو بااختیار ہو‘ کسی کو براہِ راست نقصان پہنچا نے یا فائدہ دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فارن سروس والوں کا بیرونِ ملک الائونس 2011ء کے بعد ایک ڈالر بھی نہیں بڑھا۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فارن آفس میں قلم چھوڑ ہڑتال کی روایت نہیں۔ لہٰذا وہ اسی تنخواہ اور الائونس پر کام کرتے رہیں گے۔ میں نے کم از کم دو ایسے فارن سیکرٹری ایسے دیکھے ہیں جو نیم شپ سے پہلے گھر نہیں جاتے تھے لیکن ایف بی آر کے چیئرمین کی تنخواہ ان سے زیادہ تھی۔ تنخواہیں مکمل طور پر برابر نہیں ہو سکتیں مگر موجودہ نامعقول قسم کی عدم مساوات کی صلاح لازم ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں