"JDC" (space) message & send to 7575

ریٹائرمنٹ کی برکات

اکثر لوگوں کے لیے ریٹائرمنٹ ایک سانحے سے کم نہیں ہوتی۔ صبح کو گرین پلیٹ والی کار مع ڈرائیور گھر سے آفس لے جانے نہیں آتی۔ جب کار سے اترتے ہیں تو بریف کیس اٹھانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یوٹیلیٹی بل بھی خود ہی ادا کرنا پڑتے ہیں۔ گلی محلے والے لوگ بھی چلا ہوا کارتوس سمجھتے ہیں۔ بالخصوص جن لوگوں نے دورانِ سروس اتھارٹی کا خوب استعمال کیا ہوتا ہے ان کے لیے ریٹائرمنٹ کا زمانہ واقعی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ سنا ہے سب سے مشکل ریٹائرمنٹ تھانیدار کی ہوتی ہے۔ میرے پولیس سروس کے چند کولیگ اس بات کا اقرار کرتے ہیں۔
ریٹائرمنٹ کے دن قریب تھے‘ یہ 2007ء کے آخری مہینے کی بات ہے۔ میں نے اپنے دوست زاہد ملک مرحوم کو بتایا کہ ریٹائرمنٹ ہوا ہی چاہتی ہے۔ کہنے لگے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد دو عادات کو ترک نہ کرنا‘ ایک روزانہ شیو بنانا اور دوسرے باہر جاتے ہوئے پتلون پہننا۔ میں ان کی نصیحت پر آج بھی عمل کر رہا ہوں۔
زندگی کا ایک سنہری اصول یہ ہے کہ ماضی کی حسرتیں اور شکوے شکایتیں بھول جائیں۔ کئی لوگ ریٹائرمنٹ کے برسوں بعد اس بحث میں پڑے رہتے ہیں کہ مجھے فلاں پوسٹنگ کیوں نہ ملی یا فلاں پروموشن میں مجھے کیوں اگنور کیا گیا۔ یہ بے سود خیالات ہیں لہٰذا حال میں زندہ رہیں اور مستقبل کی پلاننگ کریں۔ میں نے اس پر عمل کیا ہے۔
راقم الحروف نے ریٹائرمنٹ کی تیاری اپنی آخری پوسٹنگ یعنی مسقط میں شروع کردی تھی۔ سمندر کے کنارے روزانہ سیر کرتا تھا تاکہ صحت اچھی رہے۔ ٹینس خوب کھیلی‘ وہاں ہمارے گھر کے پاس ہی ایک ہوٹل میں رمضان کے مہینے میں رات کو ہر سال ٹینس ٹورنامنٹ ہوتا تھا۔ میں وہاں باقاعدگی سے شرکت کرتا تھا۔ اہم لوگوں سے ملاقات بھی ہو جاتی تھی۔ ورزش کے ساتھ ساتھ تفریح بھی۔ یعنی ہم خرما و ہم ثواب۔ رمضان کرکٹ اور ٹینس ٹورنامنٹ مسقط کی خوبصورت روایتیں تھیں۔ کرکٹ ٹورنامنٹ پاکستان سکول میں رات کو سافٹ بال سے ہوتی تھی۔ وہاں میرا رول تقسیمِ انعامات تک محدود ہوتا تھا۔ واک کا سلسلہ ریٹائرمنٹ کے پندرہ سال بعد آج بھی جاری ہے۔
جب میں مسقط میں تھا تو الجزیرہ کے علاوہ عربی کے چند اور چینل بھی شروع ہو چکے تھے۔ عربی تو مجھے آتی تھی لیکن فرفر بولنے والی بات نہیں تھی۔ میرا پختہ ارادہ تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان سے عربی چینلز پر ٹاک شوز میں حصہ لوں گا لہٰذا میں نے ایک اچھے استاد کی خدمات حاصل کیں جو ہفتہ میں دو روز گھر آکر میرے ساتھ عربی میں حالاتِ حاضرہ پر گفتگو کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں عربی کے عالم ڈاکٹر بشیر کاشمیری نے میری بڑی مدد کی۔ اچھی اچھی کتابیں بھجواتے رہتے تھے اور پھر سلطان قابوس یونیورسٹی میں میرا علامہ اقبال کے شعری سفر کے بارے میں ایک گھنٹے کا لیکچر ہوا۔ یونیورسٹی کا بڑا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میڈیا میں خوب تشہیر ہوئی۔ اگلے روز ایک بااثر انڈین مسلمان کے گھر ڈنر تھا۔ انڈین سفیر بھی آئے ہوئے تھے۔ اشوک کمار‘ سفیرِ ہند مجھے لیکچر کے بارے میں پوچھتے رہے۔ لگتا تھا کہ انہیں پاکستان کے سافٹ امیج کی نشوونما انہیں اچھی نہیں لگی۔
پاکستان روانگی سے قبل کئی الوداعی ڈنر ہوئے۔ مسقط سے تین انگریزی اخبار نکلتے تھے۔ دو اخباروں کے مالکان نے مجھ سے رابطہ کیا کہ اسلام آباد سے ان کے لیے ہفتہ وار کالم لکھوں۔ میں نے عمان ٹریبیون کی آفر قبول کر لی۔ پاکستان آتے ہی انگریزی کالم نگاری شروع ہو گئی۔ جو پنشن مقرر ہوئی اس میں گزارا مشکل تھا لیکن کالم نگاری کی وجہ سے خاصی مالی آسودگی آ گئی اور پھر اپریل 2008ء میں بی بی سی کے عربی چینل پر میرا پہلا انٹرویو ہوا۔ عربی کے ٹی وی چینل پر انٹرویو کا معقول معاوضہ دیتے ہیں۔ مسقط میں کی گئی محنت کا صلہ ملنے لگا۔ انٹرویو دو تین سال خوب چلے البتہ عرب سپرنگ شروع ہونے کے بعد چینلز کا فوکس اپنے گھر میں لگی ہوئی آگ کی طرف ہو گیا مگر مسقط کے اخبار میں ہفتہ وار کالم نگاری 2017ء تک جاری رہی۔
سروس کے دوران سرکاری افسر کے دو باس (Boss) ہوتے ہیں‘ ایک دفتر میں اور ایک گھر میں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک باس کی خوش آئند کمی ہو جاتی ہے اور اگر مالی حالات آسودہ ہوں تو افسر کا بھرم ریٹائرمنٹ کے بعد بھی قائم رہتا ہے‘ اسی وجہ سے غالباً کئی لوگ کرپشن کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ الحمد للہ! اپنی محنت سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ میرے لیے شاملِ حال رہی۔ 2012ء میں روزنامہ دنیا شروع ہوا جو ایک مؤقر جریدہ بن چکا ہے۔ اس اخبار میں لکھتے ہوئے اب گیارہواں سال ہے۔ درمیان میں عربی چینل بھی کبھی کبھار بلاتے رہتے تھے۔ اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر حملہ ہوا تو متعدد انٹرویوز ہوئے۔ 2018ء کے انتخابات ہوئے تو مجھے ایک خصوصی پروگرام کیلئے دوحہ بلایا گیا۔ دریں اثناء سعودی عرب کے ایک سرکاری ادارے نے دنیا بھر سے بیس ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جو غیر عرب ہیں مگر عربی دان ہیں اور اعلیٰ عہدوں تک پہنچے ہیں۔ راقم الحروف کو اس لسٹ میں شامل کیا گیا اور کتابی شکل میں بیس لوگوں کے بارے میں معلومات دی گئیں کہ انہوں نے عربی کیسے سیکھی۔ میرے لیے یہ ایک اعزاز تھاکیونکہ پاکستان سے صرف مجھے شامل کیا گیا تھا۔2017ء میں عمان ٹریبیون میں کالم نگاری ختم ہو گئی‘ وجہ اشتہارات کی کمی کے طفیل مشکل مالی حالات تھے۔ چند ماہ ہی گزرے تھے کہ سعودی عرب کے اخبار عرب نیوز والوں نے رابطہ کیا کہ آپ ہمارے لیے کالم لکھئے اور وہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
کچھ دوست کہتے ہیں کہ آپ گریڈ بائیس کے مستحق تھے مگر آپ کو گریڈ 21میں ریٹائرکر دیا گیا۔ میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ جو میری قسمت میں تھا‘ مجھے مل گیا۔ گریڈ اکیس اور بائیس کی پنشن میں تیس چالیس ہزار کا فرق ہوتا ہے۔ مجھے اللہ نے اس سے زیادہ دیا۔ چار ملکوں میں سفارت کاری کی۔ بچوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور سب خود کفیل ہیں۔ میں اللہ کی کس کس نعمت کا شکر ادا کروں۔
اب بھی ہم چار دوست شام کو گھنٹے سے زائد واک کرتے ہیں۔ سنجیدہ اور غیرسنجیدہ سب باتیں ہوتی ہیں۔ شمروز خان آڈٹ اینڈ اکائونٹس کے ریٹائرڈ افسر ہیں۔ سیف اللہ صاحب معدنیات کے ریٹائرڈ انجینئر ہیں۔ سید عامر رضا آئی ٹی کے شعبہ سے متعلق ہیں۔ کرنل فاروق پرویز فوجی افسر رہے اور وکالت بھی کی۔ کچھ عرصہ سے انگلینڈ میں ہیں لیکن واپسی کا وعدہ کرکے گئے ہیں تو ہماری واک کے درمیان متنوع اور دلچسپ آرا سننے کو ملتی ہیں۔ کبھی کبھی ویک اینڈ پر اکٹھے ناشتہ کرنے کا بھی پروگرام بن جاتا ہے۔ دو اور گروپ ہیں جو اسلام آباد کلب میں باقاعدگی سے ملتے ہیں۔ ہم 1972ء بیچ کے پانچ چھ افسر مہینے میں ایک بار اکٹھے ڈنر کرتے ہیں۔
مختلف تربیتی ادارے اور تھنک ٹینک لیکچرز کے لیے بلاتے رہتے ہیں۔ اسلام آباد کلب کی سوئمنگ پول کمیٹی کا ممبر ہوں۔ ہمارے گورنمنٹ کالج لاہور کے مشہور تیراک وحید اللہ وائیں کمیٹی کے صدر ہیں۔ ہر کالم لکھنے سے پہلے مجھے ریسرچ کرنا پڑتی ہے لہٰذا میں گزشتہ پندرہ سال میں ایک لمحہ بھی بور نہیں ہوا۔ بیرونِ ملک آتا جاتا رہتا ہوں۔ اپنی مصروفیات کا فیصلہ خود کرتا ہوں۔ بیوی کے علاوہ کوئی حکم نہیں دے سکتا۔ ریٹائرمنٹ کی برکات جاری و ساری ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں