اس وقت ملک شدید سیلابوں سے دوچار ہے اور ان سے چاروں صوبے متاثر ہوئے ہیں۔ عوام بڑی تعداد میں سیلابی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ ان کے گھر بار‘ مال مویشی پانی میں بہہ گئے ہیں اور وہ اس وقت پانی‘ مٹی اور گندگی میں بیٹھے مدد کے منتظر ہیں۔ ان کے کئی پیارے سیلاب کی نذر ہوگئے ہیں اور ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ کچھ تو بالکل چپ ہیں اور کچھ شور کررہے ہیں کہ ہماری مدد کرو۔ سفید پوش افراد کے لیے کسی دوسرے کے آگے ہاتھ پھیلانا آسان نہیں ہوتا لیکن یہ آفت ہی ایسی ہے کہ سب کچھ اپنے ساتھ لے گئی ہے۔ جتنے لوگ دردِ دل رکھتے ہیں وہ لوگوں کو تکلیف اور دکھ میں دیکھ کر خود بھی کرب کا شکار اور ان کی مدد کے خواہاں ہیں۔ اس وقت ایدھی فائونڈیشن، الخدمت اور جے ڈی سی جیسے ادارے سیلاب متاثرین کے لیے بڑھ چڑھ کر کام کررہے ہیں۔ ان کے ساتھ حکومتِ پاکستان اور پاک آرمی نے بھی فنڈز قائم کردیے ہیں تاکہ لوگ سیلاب زدگان کی مدد کر سکیں۔ بہت سے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بھی ان کی مدد کررہے ہیں؛ تاہم سوال یہ ہے کہ سیلاب متاثرین کی مدد کیسے کی جائے۔ سب سے پہلے تو نقدی سے مدد کی جائے۔ آپ اپنی پسند کے کسی بھی فلاحی اور رفاہی ادارے کو نقدی دے سکتے ہیں یا براہِ راست یہ رقم سیلاب متاثرین کو دی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد باری آتی ہے اشیائے خورونوش کی۔ انسان کسی بھی آفت میں مبتلا ہو‘ بھوک اور نیند اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ جن لوگوں کے گھر اور سازوسامان‘ سب کچھ پانی میں بہہ گیا‘ ان کے پاس پیسے ہیں نہ ہی کھانے پینے کا کوئی سامان۔ ان کو کھانا دیا جائے، متاثرہ علاقوں میں پینے کے صاف پانی کا مسئلہ بھی سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ ان کو آٹا‘ گھی‘ دالیں‘ چاول اور مسالا جات وغیرہ بھی دیں اور ساتھ ہی ساتھ پکا ہوا کھانا بھی دینا چاہیے کیونکہ لازمی نہیں کہ ان کے پاس کھانا پکانے کے لیے برتن ہوں یا ان کے پاس آگ جلانے کے لیے خشک لکڑیاں ہوں۔ ان کو کچھ برتن بھی دیے جائیں جو وہ استعمال میں لا سکیں اور جن کے ٹوٹنے کا خطرہ نہ ہو۔ اس وقت ڈبے میں بند اور پکا ہوا کھانا سیلاب متاثرین کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ صاف پانی دینا بھی از حد ضروری ہے کیونکہ سیلاب کے بعد گندے پانی سے پیٹ کی بیماریاں پھیل جاتی ہیں‘ اس لیے سیلاب متاثرین کو صاف پینے کا پانی دیا جائے۔ اس کے ساتھ خشک دودھ‘ چینی‘ پتی اور قہوہ بھی دیا جائے تاکہ وہ اپنی چائے وغیرہ سے اپنی انرجی بحال کر سکیں۔ سیلاب متاثرین کو ڈبہ بند دودھ‘ جوس اور بسکٹ دیے جائیں تاکہ وہ ان اشیا سے اپنے جسم میں توانائی محسوس کر سکیں۔ کھانے پینے کی اشیا کے جو پیکٹس بنائے جائیں ان میں کھجور، شربت ، چنے، بیسن، جلدی پکنے والی اشیا مثلاً نوڈلز، سوپ،مکھن ، جیم ، گڑ، نمک اور ماچس ضرور دی جائے۔ ان کے علاوہ چاکلیٹس اور نمکو وغیرہ بھی دی جاسکتی ہیں۔ پانی کا ڈونگا اور ٹب بھی دیے جائیں، ساتھ ہی سرف اور صابن بھی امدادی پیکٹ میں رکھے جائیں تاکہ وہ کپڑے دھونے اور نہانے میں کام آسکیں۔
اگر بچوں کی بات کریں تو ان کے لیے جوس ، چپس ،دلیہ ، فیڈر، ڈائپر وغیرہ ڈونیٹ کیے جائیں۔ سیلاب متاثرین بیماریوں سے محفوظ رہیں‘ اس کے لیے انہیں خیمے ، نیٹ ، مچھر دانی ،سپرے اور ہینڈ واش دیے جائیں۔ ان کے سامان میں صابن، شیمپو، جراثیم کش محلول، ریزر اور قینچی رکھی جائے۔ ان کو بخار سے بچائو کی دوائیاں اور او آر ایس دیا جائے۔ خواتین کے استعمال کی چیزوں کے بھی پیکٹس بنائے جائیں۔ اس وقت ہمارے بہت سے صاحبِ ثروت بھائی سڑک پر آگئے ہیں۔ سیلاب ان سے سب کچھ چھین کر لے گیا ہے۔ ان کی مدد کرتے وقت اس چیز کا خیال رکھیں کہ کسی کی عزتِ نفس کو ٹھیس نہ پہنچے۔ سیلفیاں لیے بنا اور وڈیو ریکارڈ کیے بنا بھی امداد تقسیم کی جا سکتی ہے۔
میں نے سیلاب زدگان کے حوالے سے ایک چیز نوٹ کی ہے کہ جب ان کو ریسکیو کیا جارہا تھا تو زیادہ تر افراد کے پیروں میں چپل نہیں تھے۔ ان کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ ان کو اس وقت کپڑے اور جوتوں کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنا تن ڈھانپ سکیں۔ اب بات کرتے ہیں ان کے رہنے سہنے کی۔ اس کے لیے خیمے، چارپائی، کمبل اور تکیے وغیرہ بہت ضروری ہیں۔ آگے سردی آرہی ہے تو گرم کپڑے اور لحاف بھی ان کو چاہیے ہوں گے۔ہم سب کو ان کی مدد میں سنجیدگی دکھانا ہوگی کیونکہ اس وقت وہ کھلے آسمان تلے بنا مدد کے بیٹھے ہیں۔اس لیے تمام پاکستانیوں کو اس وقت اپنے ان ہم وطنوں‘ جو اس وقت سیلاب کی زد میں ہیں‘ کی مدد کرنا ہوگی ۔ اس وقت سیلاب زدگان متعدد بیماریوں کا سامنا کررہے ہیں۔ ان تک طبی امداد پہنچانا بھی بہت ضروری ہے۔ ان کو ادویات‘ تھرمامیٹر‘ وٹامن سی کی گولیاں‘ روئی‘ جراثیم کش محلول دیے جائیں۔ سیلاب کے دوران بہت سی وبائی بیماریاں بھی پھوٹ پڑتی ہیں تو اس حوالے سے سیلاب متاثرین کو ویکسین بھی دی جائے تاکہ وہ بیماریوں سے محفوظ رہیں اور وہ وبائی امراض کا شکار نہ ہوں۔ سیلاب کے بعد ہیضہ‘ اسہال‘ گردن توڑ بخار اور ٹائیفائیڈجیسی بیماریاں عام پھیل جاتی ہیں۔ متعدد جلدی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ دانے اور پھوڑے‘ پھنسیاں نکل آتے ہیں۔ اس لیے فوری طور پر ان چیزوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک بھر میں کورونا کے بھی نئے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ اس بات کے خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ متاثرین کے کیمپس میں بھی کورونا پھیل سکتا ہے۔ جو لوگ متاثرین کے لیے امداد لے کر جارہے ہیں‘ ان کو چاہیے کہ وہ خود بھی ماسک اور ہاتھوں میں دستانے پہنیں‘ اس کے علاوہ امدادی سامان میں بھی ماسک دیے جائیں تاکہ سیلاب زدگان میں کورونا نہ پھیل سکے۔
بہت سے پاکستانی‘ جو خود کفیل تھے‘ سیلاب کی وجہ سے کوڑی کوڑی کے محتاج ہوگئے ہیں۔ ان کے پاس مال‘ دولت اور گھر بار سمیت کچھ بھی نہیں رہا۔ ان کی بحالی کے لیے بڑھ چڑھ کر کام کرنا ہوگا۔ اس کی زیادہ ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ سب سے پہلے حکومت ایسے افراد کو عارضی رہائش مہیا کرے۔ اگر کوئی سرکاری فلیٹس خالی ہیں یا سرکاری ریزورٹس اور ہاسٹلز خالی ہیں توسیلاب متاثرین کو وہاں شفٹ کیا جائے اور ان کی دیکھ بھال کی جائے۔ ان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے بنا سود قرضے فراہم کیے جائیں تاکہ وہ دوبارہ پیسے کمانے کے قابل ہو سکیں۔ جب تک سیلاب متاثرین کی مکمل بحالی نہیں ہو جاتی‘ ان کو نقد مدد دی جائے۔
اس وقت غیر ملکی امداد آنا شروع ہوگئی ہے لہٰذا اس چیز کو کون یقینی بنائے گا کہ وہ چیزیں واقعی سیلاب زدگان کو مل رہی ہیں۔ کہیں یہ اشیا بازار میں بکنا تو نہیں شروع ہوگئیں۔ اس امداد کے عمل کو شفاف کون بنائے گا؟ اس کے علاوہ جو لوگ فنڈز جمع کررہے ہیں‘ وہ اس میں شفافیت کیسے برقرار رکھیں گے؟ ان کو چاہیے کہ ان کو جو چندہ آرہا ہے اور جو خرچ ہورہا ہے‘ وہ سارا حساب کتاب وہ اپنی ویب سائٹس پر اَپ ڈیٹ کرتے جائیں تاکہ جو لوگ چندہ دے رہے ہیں وہ اس عمل سے مطمئن رہیں کہ ان کا پیسہ صحیح جگہ پر لگ رہا ہے۔ کسی بھی پُرتشدد یا کالعدم تنظیم کو چندہ مت دیں۔
ہم سب کو مل کر اس قدرتی آفت کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس وقت سیاست کو ایک طرف رکھا جائے اور عوام کی خدمت میں وقت صرف کیا جائے۔ سیاست کے لیے بہت وقت پڑا ہے اور عوام‘ جو اس وقت سیلاب سے متاثرہ ہیں‘ کے لیے ایک ایک پل بھاری ہے۔ نمائشی دوروں یا آٹے کے ایک تھیلے سے کچھ نہیں ہوگا۔ عوام کو حقیقی مدد اور ہمدردی کی ضرورت ہے۔ وہ کوئی بھیڑ بکریاں نہیں کہ ان پر کھانا اچھال کر پھینک دیا جائے یا ان کو پچاس پچاس روپے کے نوٹوں پر ٹرخا دیا جائے۔ سیلاب زدگان باعزت شہری ہیں‘ ان کی بھرپور مدد کی جائے۔ اس وقت وہ بھوک اور موسم کی شدت سے بے حال ہیں۔ ہم سب کا فرض ہے کہ ان کی مدد کریں اور ان کو صاف پانی‘ کھانا‘ ادویات‘ تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے اور سر چھپانے کے لیے رہائش فراہم کریں۔