پی ڈی ایم حکومت انتخابات کیوں نہیں چاہتی ؟

پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں 'ووٹ کوعزت دو‘، 'سویلین سپرمیسی‘ اور 'روٹی، کپڑا اور مکان‘ کا نعرہ لگاتی رہی ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ ہم عوامی جماعتیں ہیں اور صرف عوام کی طاقت سے اقتدار میں آتی ہیں۔ یہ الگ بات کہ ملکی سیاسی تاریخ مختلف ڈیلز اور این آر اوز کے ساتھ اقتدار کی منتقلی کی شاہد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کمزور ہے۔ یہ سیاسی جماعتیں خود بھی جمہوری نہیں ہیں اور موروثیت پر کھڑی ہیں۔ عمران خان کی حکومت کے دوران ان جماعتوں نے پی ڈی ایم کے نام سے ایک اتحاد بنایا۔ یہ حکومت کو اس فورم سے شدید تنقید کا نشانہ بناتی رہیں اور کہتی رہیں کہ پی ٹی آئی سے ملک سنبھالا نہیں جا رہا۔ ان جماعتوں نے خوب جوش و خروش سے مہنگائی مارچ کیا اور پورے ملک میں جلسے‘ جلوس اور ریلیاں نکالیں۔ اس کے علاوہ اسلام آباد میں دھرنے بھی دیے گئے۔ عوام کو یہ بتایا گیا کہ حکومت غریب عوام پر ٹیکسز لگا کر کتنا ظلم کررہی ہے‘ پی ڈی ایم آتے ہی سب کچھ ٹھیک کردے گی‘ ابھی تک تو سب کچھ تباہ کیا گیا ہے۔ عوام کو یہ یقین دلایا گیا کہ جیسے ہی پی ڈی ایم حکومت میں آئے گی‘ آتے ہی دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ پھر ایک مقناطیسی طاقت سے پورب اور پچھم کی سیاسی جماعتیں تحریک انصاف کے خلاف متحد ہونے لگیں۔ حکومتی اتحادی بھی ایک ایک کر کے ساتھ چھوڑنے لگے۔ ہم سب حیران تھے کہ ایسا کیسے ہو گیا‘ ان سب کو متحد کس نے کیا اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے کیوں تیار ہو گئیں، خیر چند ہی ہفتوں میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان حکومت کو گھر بھیج دیا گیا۔ عوام انگشت بدنداں تھے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ جو ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرتے تھے‘ وہ ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔ اقتدار ایسی ہی چیز ہے جس میں دشمن کسی بھی وقت دوست بن جاتے ہیں۔ پاکستان میں ویسے بھی سیاست کو خدمت سے زیادہ ایک اچھا کاروبار سمجھا جاتا ہے۔ یہاں سے کمائو اور بیرونِ ملک اثاثے بنائو۔ جب اقتدار ختم ہوجائے تو اپنے اصل ملک لوٹ جائو۔ ہمارے بیشتر سیاستدانوں کے پاس دیگر ممالک کی شہریت ہے یا وہاں پر جائیدادیں موجود ہیں۔ وہ تو یہاں صرف اپنے اقتدار تک رہتے ہیں‘ اس کے بعد انہی ملکوں میں چلے جاتے ہیں۔ اقتدار میں آتے ہی ان کی کوشش ہوتی ہے کہ سب سے پہلے خود پر قائم ان مقدمات کو ختم کیا جائے جو کرپشن کے حوالے سے ان پر قائم ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ان لوگوں کو نشانِ عبرت بنایا جاتا ہے جو کرپشن کے خلاف کام کررہے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر رضوان کے پُراسرار موت کس سے ڈھکی چھپی ہے؟ ارشد شریف کا کیس بھی سب کے سامنے ہے۔ ان دونوں کا جرم کرپٹ اشرافیہ کے خلاف بولنا تھا۔ اب جو لوگ اداروں میں یا جو میڈیا میں ہیں‘ وہ سو بار سوچیں گے کہ کس طرح اشرافیہ کی کرپشن کی تحقیقات کریں تاکہ اپنا تحفظ یقینی بنا سکیں۔ انہیں علم ہے کہ اگر کرپشن کا پردہ چاک کریں گے تو ان کا انجام بھی مختلف نہیں ہو گا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ تحقیقاتی صحافت اب سکڑتی جارہی ہے اور مالیاتی کرپشن کے سکینڈلز اب بہت کم سامنے آتے ہیں۔ کرپشن کا پردہ چاک کرکے کسی صحافی کو انعام یا تمغہ نہیں ملتا بلکہ موت اور گولیاں ملتی ہیں۔
پی ڈی ایم حکومت کو دس ماہ سے زائد عرصہ ہو چکا ہے لیکن ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ نہ ہم نئے پاکستان میں ہیں اور نہ ہی پرانے پاکستان میں۔ ہم کسی الگ ہی پاکستان میں ہیں جہاں لوگوں کو ٹویٹ کرنے پر گرفتار کرلیا جاتا ہے‘ جہاں پر بیوہ خواتین کی کردار کشی کی جاتی ہے‘ کسی کی تکلیف پر اس کا مذاق بنایا جاتا ہے‘ پارک میں واک کرتی خواتین کے ریپ ہوجاتے ہیں۔ موبائل چھینتے وقت کسی کی بھی جان لے لی جاتی ہے۔ مہنگائی اتنی ہوگئی ہے کہ مڈل کلاس طبقہ اب غربت کی لکیر سے نیچے چلا گیا ہے۔ لوگوں کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ وہ پیٹ بھر کر کھانا کھا سکیں۔ ہر کوئی مہنگائی کی وجہ سے اذیت و کرب میں مبتلا ہے۔
حکومت نے گزشتہ دنوں ایک بار پھر رات گئے عوام پر پٹرول بم مار دیا۔ گزشتہ تین ہفتوں میں پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں پچاس روپے سے زائد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ اس وقت پٹرول کی فی لیٹر قیمت 272 روپے کی تاریخی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ محض پٹرول ہی نہیں‘ ڈیزل‘اور مٹی کے تیل کی قیمت میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوا ہے۔ گیس اور بجلی پہلے ہی مہنگی ہیں اور ہر وقت دستیاب بھی نہیں‘ اس کے باوجود ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گیس کی قیمت میں 113 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ بجلی کی فی یونٹ قیمت میں بھی مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ملک کی معیشت ڈوبتی جارہی ہے اور روپے کی قدر گرتی جارہی ہے۔ لوگوں کی قوتِ خرید وہیں پر ساکت ہے اور مہنگائی کا گراف بلند سے بلند تر ہو رہا ہے۔ آٹا، گھی، چینی، پھل، سبزیاں اور دالیں متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں۔ اگر کوئی بیمار ہوجائے تو لوگ درد کی دوا کھا لیتے ہیں‘ ان کے پاس علاج کے پیسے نہیں ہیں۔ شادی‘ تعلیم‘ اچھی خوراک جیسی ضرورتیں پوری کرنا اب ایک خواب سا بن کر رہ گیا ہے۔ گزشتہ چند مہینوں میں کتنے ہی افراد غربت کی وجہ سے خودکشی کر چکے ہیں اور کوئی بھی ان کے لواحقین کی داد رسی کے لیے سامنے نہیں آیا۔ اس وقت سیاسی انتقام بھی عروج پر ہے۔ مخالف سیاسی قیادت اور صحافیوں کو اس کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
اتنی مہنگائی‘ معاشی بدحالی‘ افراتفری اور دہشت گردی کے ابھرتے خدشات سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ یہی کہ پی ڈی ایم کی حکومت ناکام ہوچکی ہے اور اپنی ناکامی ماننے کے لیے تیار بھی نہیں ہے۔ اگر آپ سے حکومت نہ چلے تو اقتدار سے الگ ہوجانا چاہیے مگر یہاں تو خاندانوں کے خاندان ہم پر مسلط ہیں جو یہ سمجھتے ہیں صرف ان کے بچے‘ چچا‘ ماموں‘ بھتیجے‘ بھانجے‘ سمدھی‘ بہویں اور داماد وغیرہ ہی اس اہل ہیں کہ وہ ملک کو ٹھیک کرسکتے ہیں‘ باقی سبھی لوگ نا سمجھ ہیں۔ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ موروثی سیاست دانوں سے کچھ ٹھیک نہیں ہورہا بلکہ چیزیں مزید خراب ہورہی ہیں۔ اگر الیکشن کی بات کریں تو اس وقت دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں‘ مگر نجانے وہ کون سی قوتیں ہیں جو ہمیں الیکشن کی طرف جانے نہیں دے رہیں‘ ایسی کیا مجبوریاں ہیں کہ الیکشن کی تاریخ نہیں دی جا رہی؟ عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ نئی ملکی قیادت آئے گی تو معاملات ٹھیک ہونا شروع ہو جائیں گے مگر ایسا لگ نہیں رہا کہ انتخابات نوے دن کی آئینی میعاد میں ہوجائیں گے۔ پی ڈی ایم اگر سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے تو پھر انتخابات سے کیوں بھاگ رہا ہے؟ ووٹ کو عزت دو کے نعرے کا کیا ہوا ؟جمہوریت کی بالادستی کے نعرے کہاں گئے؟ مہذب جمہوریتوں میں چلتی ہوئی حکومت کا تختہ نہیں الٹا جاتا۔ اگر آپ کسی منصب، کسی عہدے کے قابل نہ ہوں تو اس کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے اُن لوگوں کو حکومت دی گئی جو اس کے قابل نہ تھے۔ اس وقت کابینہ کی تعداد 85 ہوچکی ہے‘ پھر بھی ملک کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ جب حکومت کے پاس کوئی وژن نہیں‘ کوئی پالیسی نہیں‘ کوئی روڈ میپ نہیں تو کابینہ کا حجم کیوں بڑھایا جارہا ہے؟ کابینہ کا مسلسل بڑھتا حجم بھی خزانے پر بوجھ ہے۔ وزرا اور معاونین نہ صرف بھاری تنخواہیں لیتے ہیں بلکہ رہائش‘ گاڑیاں‘ پروٹوکول‘ مفت پٹرول اور ملازمین بھی لیتے ہیں۔ دفتری اخراجات، دورے اور فون کے بلز اس کے علاوہ ہیں۔ ایک غریب ملک کو کیا یہ سب زیب دیتا ہے؟ ایک طرف غربت ہے اور دوسری طرف سیلاب زدگان لیکن ہماری اشرافیہ اپنی موج میں لگی ہوئی ہے۔ جب تک نئے انتخابات نہیں ہوں گے‘ حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ اگر سرکاری خزانے میں 85 رکنی کابینہ کے بوجھ اٹھانے کے پیسے ہیں اور وزیر خارجہ کے لاتعداد دوروں کی گنجائش ہے، ارکانِ اسمبلی کے ترقیاتی کاموں کے پیسے ہیں تو پھر الیکشن کرانے کے لیے بھی پیسے ہوں گے۔
پی ڈی ایم سرکار کو مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ کھلے دل کے ساتھ اپنی ناکامی قبول کریں، اگلے الیکشن کی تیاری کریں اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں۔ عوام خود الیکشن میں فیصلہ کریں گے کہ وہ کس کو ملک کا حکمران دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس وقت نئے انتخابات ہی درپیش بحرانوں کو کم کرسکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں