انسدادِ اسلاموفوبیا کا عالمی دن

میں اکتوبر سے بہت سے کام وقت پر نہیں کرپارہی، خاص طور پر ٹویٹر کے علاوہ دیگر سوشل میڈیا فورمز مثلاً فیس بک اور یوٹیوب پر بالکل بھی متحرک نہیں ہوں۔ میں نے فروری میں اپنے لیپ ٹاپ سے فیس بک اکائونٹ لاگ اِن کیا تو دیکھا میرے پیج پر فیس بک کی جانب سے قوانین کی خلاف ورزی کا نوٹس آیا ہوا ہے۔ مجھے بہت حیرت ہوئی کیونکہ میں بطور سوشل میڈیا صارف کبھی کوئی ایسی چیز نہیں پوسٹ کرتی جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ جب فیس بک انتظامیہ کا نوٹیفکیشن چیک کیا تو علم ہوا کہ میں نے نبی پاکﷺ کی شانِ اقدس میں ایک آرٹیکل لکھا تھا اور دین کی ترویج کی بات کی تھی‘ یہ یقینا ایک مثبت بات تھی مگر اس آرٹیکل کو کسی بدبخت نے فیس بک پر ایسے رپورٹ کیا کہ میری پوسٹ فیس بک کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کررہی ہے۔ میں تقریباً ہر ہفتے قرآن کلاس کا کوئی نہ کوئی سبق پوسٹ کرتی رہتی ہوں تاکہ سب لوگوں کو آگاہی ہو اور ہم سب اپنا مواخذہ کر سکیں۔ مجھے اس نوٹس پر بہت حیرت ہوئی‘ جس میں لکھا تھا کہ آپ کے پیچ کی رسائی (رِیچ) کم کردی گئی ہے‘ اگر کوئی اور خلاف ورزی ہوئی تو ہم آپ کا پیج بلاک کردیں گے۔ میرا فیس بک بیچ مونیٹائزڈ اور ویریفائیڈ ہے اور اس کے لاکھوں فالوورز ہیں۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ اگر اپنے دین‘ اپنے نبی اور مذہبی تعلیمات کے بارے میں یہاں بات نہیں کرسکتی تو میں دین کی نشرواشاعت میں کیسے اور کہاں حصہ لوں گی۔ میرا دل بہت اداس ہوگیا۔ ہمارے ملک میں فیس بک اور ٹویٹر جیسے سوشل میڈیا فورمز کے دفاتر بھی نہیں ہیں‘ جہاں ایسی شکایات درج کرائی جا سکیں۔ میں سوچنے لگی کہ کیا کیا جائے‘ سوچا کہ فیس بک پیج ہی ڈیلیٹ کردوں، کیا فائدہ ایسے فورمز کا جہاں ہم اپنے نبی‘ جن کے لیے یہ کائنات تخلیق کی گئی‘ کا ذکر تک نہیں کر سکتے۔ تھوڑا سوچنے کے بعد میں اپیل میں گئی اور فیس بک کو اس کی غلطی کا احساس دلایا۔ قرآن کلاس کے میرے اساتذہ مجھے بار بار کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا فورمز کو بھی دین کی ترویج کے لیے استعمال کرو۔ میں قاضی حسین احمد کی بیٹی سمیحہ راحیل قاضی، یاسمین زاہد اور حافظ طارق صاحب سے قرآنِ مجید پڑھتی ہوں۔میری فیس بک سے کی گئی اپیل سے ان کو احساس ہوگیا‘ سو انہوں نے معذرت کے بعد وہ وائلیشن وارننگ ہٹا دی اور میری پوسٹ بحال ہو گئی۔ مگر میں بہت دیر سوچتی رہی کہ یہ دنیا اور معاشرہ کہاں جارہا ہے؟ اس وقت بین المذاہب ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے اور ایک دوسرے کے مذہب اور عقائد کو سمجھنے اور ان کا احترام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ جس کا جو بھی مذہب ہو‘ ہم سب کو اس کا احترام کرنا چاہیے اور دوسروں کی عبادت گاہوں کا بھی احترام کرنا چاہیے۔ پاکستان میں بہت سے مذاہب کے لوگ بستے ہیں‘ ان کو اپنے اپنے حساب سے عبادت کرنے کا حق حاصل ہے‘ اور یہ کہ وہ اپنے عقائد پرکاربند رہیں‘ ان کو مکمل آزادی ہے کہ وہ اپنے مذہبی عقائد اور رسوم و رواج کو آزادی سے سرانجام دے سکیں۔ ہمیں بطور شہری اور بطور قوم دوسروں کے عقائد اور مذہبی رسوم و رواج کا احترام کرنا چاہیے۔
آپ نے ایک بات محسوس کی ہو گی کہ ہالی وُڈ اور بالی وُڈ کی فلموں اور میڈیا میں مسلمانوں کے خلاف منظم انداز سے نفرت پھیلائی جاتی ہے۔ اکثر ان کو ولن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، ان کو دہشت گرد دکھایا جاتا اور ظالم قرار دیا جاتا ہے۔ بھارتی اور مغربی نشریاتی اداروں نے ہی مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کا استہزا اڑانے کی ناپاک جسارت کی۔ ان کے کارٹونز بنائے گئے‘ دنیا کے دو ارب مسلمانوں کی دل آزاری کی گئی۔ اس سب کے باوجود ولن بھی مسلمانوں ہی کو بناکر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ مسلمان پوری دنیا میں اس وقت مظلوم ہیں۔ مقبوضہ کشمیر، فلسطین، عراق، شام اور روہنگیا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں جو کچھ ہوتا رہا‘ اس کی مثال نہیں ملتی۔ افغانوں کی نسلوں کی نسلیں تباہ ہوگئیں اور اب تک وہاں امن نہیں آ سکا۔ بہت سے لوگ مغربی میڈیا کے منفی پروپیگنڈے کی وجہ سے مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھنا شروع ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے مغربی ملکوں میں ان پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے، ان حملوں میں تیزاب گردی، چاقو سے حملہ، سر سے سکارف اور دوپٹہ کھینچ دینا، ان سے نفرت کرنا اور قتل تک شامل ہیں۔ اسلامو فوبیا کے سبب ایک ایسا سانحہ بھی ہوا جس نے دنیا بھر کو ہلاکر رکھ دیا۔ ایک سفید فام آسٹریلوی شخص نے نیوزی لینڈ کی مساجد پر حملہ کیا اور فائرنگ کرکے وہاں موجود پچاس سے زائد نمازیوں کو شہید کردیا۔ یہ حملہ اسلاموفوبیا کی بدترین مثال تھا اور اس میں مسلمانوں سے نفرت عیاں تھی۔ اس حملے سے مسلم دنیا میں بہت غم و غصہ پھیلا۔ اسلامو فوبیا کے سبب مسلمان کتنے غیر محفوظ ہیں‘ یہ بات بھی ظاہر ہو گئی۔ ایک سفید فام شخص غصے میں بھرا ہوا تھا اور اس کی نفرت کی آگ کا نشانہ معصوم لوگ بن گئے۔ تقریباً 40 افراد اس حملے میں زخمی بھی ہوئے۔ اس کے بعد بہت سے مسلم ممالک نے اسلاموفوبیا کے حوالے سے آواز اٹھانا شروع کی جس میں پاکستان کا ایک مؤثر کردار تھا۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اس حوالے سے آواز بلند کی۔ انہوں نے کہا کہ اسلاموفوبیا نے مسلمانوں کیلئے خطرات بڑھا دیے ہیں‘ اس کو ختم ہونا چاہیے۔ اس کے بعد او آئی سی کی جانب سے ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی‘ پھر پاکستان نے او آئی سی کی جانب سے ایک قرارداد اقوامِ متحدہ میں پیش کی اور انسدادِ اسلامو فوبیا کا دن منانے کی تجویز دی۔ یہ تجویز منظور ہوئی اور اب ہر سال 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف دن منایا جاتاہے۔ اس دن کا مقصد مسلمانوں کو ان خطرات سے بچانا ہے جو ان کے مذہب یا عقائد کی وجہ سے ان کے لیے پیدا ہوگئے ہیں۔ 2021ء میں پاکستان نے یہ قرارداد او آئی سی کی وزرا کونسل سے مل کر اقوام متحدہ میں پیش کی تھی۔ اس سال بھی 15مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف دن منایا جائے گا۔ گزشتہ جمعے کو اس حوالے سے اقوام متحدہ میں ایک اہم اجلاس منعقد ہواجس میں یو این سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اور پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے شرکت کی۔اس موقع پر بلاول بھٹو نے مسلمانوں کا مقدمہ لڑا اور ناموسِ رسالت پر روشنی ڈالی۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اسلام امن اور روادری کا دین ہے‘ مسلمانوں کے ساتھ تعصب برتنا نہایت افسوسناک ہے۔ جنرل اسمبلی کے صدر برائے اجلاس ساباکوروشی نے کہا کہ مذہب اور عقیدے کی آزادی کو قائم رکھیں‘ امتیازی رویہ ہم سب کو ختم کردیتا ہے‘ اس کے خلاف کھڑے ہونا ہم سب کا فرض ہے‘ ہم چپ رہ کر تعصب نہیں دیکھ سکتے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ ہمیں تعصب کا مقابلہ کرنا ہوگا اور آن لائن تعصب کو بھی ختم کرنا ہوگا‘ اس نفرت سے نمٹنے کے لیے اجتماعی اقدامات کرنا ہوں گے جو انٹرنیٹ پر تیزی سے پھیل جاتی ہے۔
یہ دن بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہم سب کو اسلامو فوبیا سے لڑنا ہوگا کیونکہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کو خطرات کا سامنا ہے۔ ان کی جان و مال خطرے میں ہے۔ ان کو اپنے دین کی ترویج کی آزادی ہونی چاہیے‘ سوشل میڈیا پر ان کی آزادی کو سلب نہ کیا جائے‘ جیسے میں نے خود بھگتا کہ فیس بک نے میرے پیج کوبین کرنے کی کوشش کی؛ تاہم میری اپیل کے بعد وہ سٹرائیک واپس لے لی گئی اور میرا کالم واپس آگیا جو میں نے ناموسِ رسالت پر لکھا تھا۔ سوشل میڈیا پر سے اس تمام مواد کو ہٹایا جانا چاہیے جوکسی مذہب اور مذہبی شخصیات کی توہین کا باعث بنتا ہے۔ ایسی آزادی‘ جس سے کسی کی دل آزاری ہو‘ مذہبی جذبات مجروح ہوں‘ وہ آزادیٔ رائے نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر نے جمعہ کے روز اس دن کو منایا؛ تاہم اصل تاریخ 15 مارچ ہے اور ہم سب کو یہ دن بھرپور انداز میں منانا اور سرکاری سطح پر تقریبات کا انعقاد کرنا چاہیے۔ عمران خان کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے دنیا کے سامنے اس معاملے کو مؤثر انداز میں اجاگر کیا۔ وزیرخارجہ بلاول بھٹو کا خطاب اس ضمن میں بہت اہم تھا اور انہوں نے دینِ اسلام کے حوالے سے شرکا کو آگاہ کیا۔ اس دن کومنائیں اور ان مسلمانوں کی آواز بنیں جو محکوم ہیں‘ جو مظلوم ہیں‘ جو استحصال کا شکار ہیں اور جو نفرت کا سامنا کررہے ہیں۔ ان کا ساتھ دیں۔ ہر شخص کو آزادانہ زندگی گزارنے کا حق ہے‘ ایسی زندگی جس میں اس کی جان اور اس کا مال محفوظ ہو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں