بحران اور سانحات

پاکستان اس وقت مختلف النوع بحرانوں اور سانحات سے گزر رہا ہے۔ ایک کے بعد ایک سانحے نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اب اقلیتی برادری کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ صرف تین ہی جانیں گئی ہیں، لیکن میرے لیے ایک جان کا جانا بھی ایک سانحہ ہے۔ ہم ان سانحوں سے بار بار گزرہے ہیں لیکن کوئی سبق نہیں سیکھ رہے۔ یہی نہیں کہ انسانی جان صرف اپریل 2022ء کے بعد ہی سے اتنی ارزاں ہوئی ہے‘ اس سے پہلے بھی بہت ظلم ہوئے ہیں‘ لوگوں کو انصاف نہیں ملا۔ یقینا مظلوموں کی آہیں عرش ہلا دیتی ہوں گی۔ کتنے ہی لوگ ابھی تک انصاف کے متلاشی ہیں لیکن ان کوانصاف مل نہیں رہا۔ کوئی کیس میڈیا پر ہائی لائٹ ہوجائے تو مجرم سزا پا جاتے ہیں ورنہ زیادہ تر تو ڈیلز کرکے صاف نکل جاتے ہیں۔ یہ ڈیلز ہی اس ملک کو بحرانوں کے سپرد کر رہی ہیں۔ ڈیل چاہے چھوٹے پیمانے پر ہو یا بڑے پیمانے پر‘ معاشرے میں بہت توڑ پھوڑ کرتی ہے۔ انہی ڈیلز کی وجہ سے سانحات اور بحران جنم لیتے ہیں۔ معاشرے میں جرائم پیشہ عناصر مزید شیر ہوجاتے ہیں کہ ان کو کوئی کچھ نہیں کہے گا‘ وہ جتنے چاہیں جرائم کریں‘ ان کو معافی مل جائے گی۔
ملک بھر میں اس وقت شدید مہنگائی سے لوگ مر رہے ہیں‘ ان کے پاس کھانے کے پیسے نہیں ہیں۔ مفت یا سستے آٹے کی لائنوں میں لگ کر لوگ مر رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اشرافیہ کی اپنی ہی گیم چل رہی ہے۔ ان کی کرسی اور اقتدار کے اتنے بڑے بڑے مسائل ہیں کہ ان کو غریب نظر ہی نہیں آتے ۔ سیاسی کھیل بھی پوری طرح کھیلا جا رہا ہے۔ کبھی وزیر اعظم تبدیل ہوجاتا ہے کبھی وزیراعلیٰ بدل جاتا ہے، کبھی پولیس افسران تو کبھی بیوروکریسی تبدیل ہوجاتی ہے۔ ان محلاتی سازشوں میں کسی کو عوام کی فکر نہیں۔ حکمرانوں کو بس یہ فکر ہوتی ہے کہ اپنی کرسی کیسے بچانی ہے، اپنے اتحادیوں کو کیسے ساتھ رکھنا ہے، اپنے مخالفین کا منہ کیسے بند کرنا ہے، میڈیا کو کیسے ڈراناہے، سوشل میڈیا کو کیسے ہینڈل کرنا ہے، سوشل میڈیا صارفین اور ہیومین رائٹس ایکٹوسٹس کو کیسے اٹھانا ہے، آٹے کے تھیلے سے لے کر سلائی مشین کی امداد تک‘ ہر جگہ اپنے لیڈر کا چہرہ کیسے چسپاں کرنا ہے‘ ان کی تشہیر کیسے کرنی ہے، امرا کی کانفرنس میں پانی کون سا رکھنا ہے‘ منرل یا سپارکلنگ؟ کھانے کے مینو میں کتنی ڈشز ہوں گی، جلسے سے خطاب کے وقت کون سے مہنگے کپڑے پہننے ہیں، گھڑی کتنی مالیت کی ہوگی، جوتا کتنے لاکھ کا ہو گا، سوشل میڈیا پر ویوز کیسے حاصل کرنے ہیں، تصاویر اور وڈیوز کو کیسے بہترین بنانا ہے، ٹاپ ٹرینڈز میں کیسے آنا ہے، اپنے بچوں کے نام پراثاثے کیسے بنانے ہیں، ان کو اپنا اقتدار کیسے منتقل کرنا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ان سب ''بڑے بڑے‘‘ مسائل میں عوام کے مسائل کس کو نظر آئیں گے؟
کراچی میں اس وقت ٹارگٹ کلنگ اور سٹریٹ کرائمز عروج پر ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک خاتون جو کہ باپردہ تھی‘ اپنے بچوں کے ساتھ جا رہی تھی، دو ڈاکوئوں نے اس کو راستے میں روکا‘ اس کو مجبور کیا کہ وہ اپنا پردہ اتارے تاکہ اس کے تمام زیورات اتارے جاسکیں۔ یہ سب ظلم اس کے بچے بھی دیکھ رہے تھے۔ اسی طرح ایک بزرگ شہری اپنی موٹر سائیکل پارکنگ میں کھڑی کر رہے تھے کہ اچانک ان سے فون چھیننے کی کوشش کی گئی اور مزاحمت پر انہیں گولی مار دی گئی۔ کراچی ہی میں امراضِ چشم کے معروف ڈاکٹر بیربل گیانی کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اوروہ جانبر نہیں ہوسکے۔ وہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ جہاں اس ملک میں اکثریت محفوظ نہیں‘ وہاں اقلیت بھی محفوظ نہیں ہے۔ پشاور میں بھی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک دکاندار سردار دیال سنگھ اور کاشف مسیح کو ٹارگٹ کر کے قتل کر دیا گیا۔ تین مختلف اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا قتل معمولی واقعہ نہیں ہے۔ ان سانحات سے حساس دل افراد دہل کر رہ گئے ہیں۔ اقلیتی افراد کے قتل کے پیچھے کیا مقاصد تھے؟
ڈاکٹر بیربل کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی‘ نہ ہی دیال سنگھ اور کاشف مسیح کا کسی سے کوئی جھگڑا تھا۔ پھر اس ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے کیامحرکات ہوسکتے ہیں؟ ان تین بے گناہ افراد کا قاتل کون ہے؟ کون ہے وہ جو عوام کو شاہراہوں‘ بازاروں میں سرعام لوٹ رہا ہے‘ ایک موبائل فون‘ ایک چین کے بدلے میں لوگوں کی جان لے رہا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ حکومت‘ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے‘ سبھی کہیں غائب ہوگئے ہیں اور ملک چوروں‘ لٹیروں اور ڈاکوئوں کے رحم و کرم پر ہے۔ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں‘ جو مرضی آئے وہ کرتے پھریں۔ یہ چور‘ ڈاکو انسانی جانوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں مگر کوئی ان کو پکڑنے والا نہیں۔
تین مختلف اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ بہت سے نئے خطرات کی نشاندہی کررہی ہے لیکن اشرافیہ کے پاس وقت ہی نہیں ہے‘ ان کے اپنے بہت سے مسائل ہیں۔ زیادہ سے زیادہ دولت کیسے جمع کرنی ہے‘ دنیا کے کس کس ملک میں جائیداد لینی ہے‘ پیسہ حوالہ؍ ہنڈی کے ذریعے کیسے باہر بھیجنا ہے‘ اپنے کیسز کیسے معاف کرانے ہیں‘ ڈیلیں کیسے کرنی ہیں‘ اپنے اقتدار کو کیسے دور تک کھینچنا ہے۔ اس سب میں عوام تباہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ اشرافیہ اپنے محلات سے نکلے تو دیکھے کہ عوام کس طرح آٹے کی لائنوں میں کچل کر ہلاک ہو رہے ہیں۔ ایک موبائل‘ آٹے کا ایک تھیلا انسانی جان کے برابر ہوگئے ہیں۔ لوگ رمضان میں بھی شکم سیر ہوکر افطاری و سحری نہیں کر پا رہے اور فاقے کرنے پر مجبور ہیں۔ بجلی و گیس کے بل زیادہ ہونے کے باعث لوگ خودکشیوں پر مجبور ہو گئے ہیں کیونکہ ان کے پاس بلوں کی ادائیگی کے پیسے نہیں ہیں۔ جن کے پاس زہر خریدنے کے بھی پیسے نہیں‘ وہ پھندا لگا کر خودکشی کر رہے ہیں۔ حکمران مگر غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔ ان کو کون جگائے گا کہ دیکھو دیگر ممالک کتنی ترقی کررہے ہیں اور ہمارے ملک میں آٹے جیسی بنیادی چیز کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ ایک زرعی ملک کے عوام اشیائے ضروریہ سے محروم ہیں‘ ان کی کوئی شنوائی نہیں۔ رمضان المبارک میں بھی عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا۔ وہ آٹا‘ دالوں‘ گھی‘ پھلوں اور سبزیوں کو خریدنے سے قاصر ہیں۔ دودھ‘ انڈا اور گوشت تو بہت دور کی بات ہیں۔ عوام کو ریلیف پیکیج محض زبانی طور پر ملتے ہیں‘ حقیقت میں وہ صرف قربانی دینے کے لیے رہ گئے ہیں۔ عوام قربانی دے دے کر اشرافیہ کے ناز نخرے اٹھا رہے ہیں۔ روزہ دار بزرگ‘ عورتیں اور بچے طویل قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں لیکن آٹا نہیں مل پاتا۔ لوگ سارا سارا دن قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں، موت مل جاتی ہے مگر آٹے کا ایک تھیلا نہیں مل پاتا۔
ان سب مسائل کا حل کیا ہے؟ ان بحرانوں اور مسائل سے کیسے نمٹا جائے؟ ان سب مسائل کا حل یہ ہے کہ اقتدار ایماندار اور نئے چہروں کے حوالے کیا جائے، موروثی سیاست دان اور پرانے چہرے پاکستان کو ٹھیک کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ فوری طور پر نئے الیکشن کرائے جائیں تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہو اور معاشی صورتحال ٹھیک ہو، بیرونی ممالک کا پاکستان پر اعتماد قائم ہو، وہ بھی پاکستان کی مدد کو سامنے آئیں۔ اوور سیز پاکستانی جو اس وقت روٹھے ہوئے ہیں اور وہ سرمایہ کار جوسرمائے کو روک کر بیٹھے ہوئے ہیں، وہ ملک میں سرمایہ کاری کریں تاکہ روزگار اور نوکریوں کے نئے دروازے کھلیں۔ اگر نئے اور ایماندار چہرے اقتدار میں نہ آئے تو خدانخوستہ مزید سانحات اور بحران جنم لیں گے۔ یہ بحران اور سانحات عوام کے دل اور دماغ پر گہرے نقوش چھوڑکر جاتے ہیں اور ان غموں کا کوئی مداوا نہیں ہوتا، لہٰذا دیر نہ کریں اور فوری طور پر ان مسائل کا حل نکالیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں