مہنگائی، موسمیاتی تبدیلیاں اور عوام

کل جب میں قبرستان میں ارشد سے ملنے گئی تو راستے میں لوگوں کو سڑک پر پیدل آتے‘ جاتے دیکھا، سخت گرمی اور تیز دھوپ میں وہ سرینگر ہائی وے پر بنے ہوئے پل سے اتر رہے تھے۔ جو اِن افراد کے مقابلے میں تھوڑے آسودہ نظر آئے‘ وہ موٹر سائیکل پر پل کو پار کررہے تھے۔ میں گاڑی میں تھی لیکن خوش تو میں بھی نہیں تھی۔ میں زندگی کے ریگستان میں جھلس رہی ہوں۔ کچھ سانحات اور حادثات کے بعد آپ کی زندگی مکمل طور پر بدل جاتی ہے، پھر نعمتیں اور آسائشیں بھی آپ کو خوش کرنے کے لیے ناکافی ہوتی ہیں۔ اتنی شدید گرمی‘ اوپر سے ٹریفک کا رش‘ اور ہارن! دورانِ سفر میرے جیسا انسان عجیب تنگی محسوس کرتا ہے، لیکن جب بہت سے لوگوں کو ٹوٹی ہوئی چپلوں اور بوسیدہ ملبوسات میں دیکھا تو دل مزید کٹ سا گیا۔ سرینگر ہائی وے پر بہت زیادہ ٹریفک ہوتی ہے کیونکہ یہ سگنل فری روڈ ہے‘ یہاں ٹریفک کی رفتار بھی بہت تیز ہوتی ہے‘ لہٰذا سڑک پار کرنا ایک طرح سے موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ پیدل چلنے والوں کے لیے پل بنے تو ہوئے ہیں لیکن بہت فاصلے پر ہیں‘ نہ ہی یہاں کوئی پانی کے کولر نظر آئے اور نہ ہی واش روم کی سہولت میسر ہے۔ اگر ٹریفک جام ہوجائے تو ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں۔ سخت گرمی اور حبس اور لوہے کے تپتے، دہکتے پلوں پر پیدل چلتے شہری اور موٹرسائیکل سوار اپنی اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں تھے۔
میں یہ دیکھ کر سوچ میں پڑگئی کہ میری زندگی زیادہ مشکل ہے یا ان کی۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھی اپنے والدین کیساتھ لوہے کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے اور پل کی مدد سے سڑک کے دوسری طرف اتر رہے تھے۔ میں نے دعا کی: یا اللہ! ان کو سواری عطا فرما تاکہ انہیں اتنی مشقت سے نہ گزرنا پڑے۔ پھر جب موٹر سائیکل سواروں کی طرف دیکھا تو وہ بھی شدید گرمی میں پسینے میں شرابور نظر آئے۔ اسلام آباد کی شدید گرمی میں وہ ہوا کے گرم تھپیڑوں کا مقابلہ کررہے تھے۔ کیا ہمارے حکمرانوں کو عوام یوں غربت اور گرمی کے ہاتھوں پستے‘ جھلستے ہوئے نظر نہیں آتے؟ کیا انہیں مہنگائی‘ غربت اور موسمیاتی تبدیلیاں نظر نہیں آتیں؟ بن موسم کی برسات اور اولے، پھر شدید حبس اور گرمی، آئے روز زلزلے اور اب سمندری طوفان‘ عوام ان سے بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ رہی سہی کسر لوڈشیڈنگ کے طویل اوقات نے پوری کردی ہے۔ عوام اس وقت بدترین لوڈشیڈنگ کی شکایت کررہے ہیں‘ ہر جگہ مکھیوں اور مچھروں کی بہتات ہے۔ اس بار اتنے مچھر آئے ہیں کہ غول کے غول منڈلا رہے ہیں۔ اگر ان کی افزائش کے وقت ہی حکومتی ادارے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے، سپرے کرتے، انڈوں کو تلف کرادیتے تو شاید آج یہ نوبت نہ آتی۔ گرمی‘ حبس‘ مچھروں اور لوڈشیڈنگ نے مل کر عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ ایک دن شدید گرمی پڑتی ہے اور پھر یکد م آندھی اور طوفان آجاتے ہیں‘ ژالہ باری ہونے لگتی ہے۔ ہر دو موسموں میں نقصان غریب عوام کا ہی ہوتا ہے، کسی کی چھت گر جاتی ہے ، کسی کی سواری پر درخت یا کھمبے گر جاتے ہیں۔ حکومت ان سب سے لاتعلق ہو کر صرف سیاست میں مصروف ہے۔ اس کو عوامی مسائل کی طرف توجہ مبذول کرنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ سڑکیں بنانے اور کشادہ کرنے کے نام پر درخت کاٹے جارہے ہیں۔ اسلام آباد کا حسن اس کی ہریالی تھی جو تعمیر و ترقی کے نام پر ختم کی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس پُرفضا شہر میں بھی گرمی کا دورانیہ بڑھ گیا ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ آلودگی میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
بجٹ آ گیا‘ لیکن عوام کو کیا ملا؟ کچھ بھی نہیں!اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں عوام کے حصے میں صرف وعدے آتے ہیں۔ اونچے ایوانوں سے باہر نکل کر دیکھیں کہ کتنی مہنگائی ہے‘ لوگ اپنے گھروں کا کرایہ تک نہیں دے سکتے‘ ذاتی گھر بنانا تو بہت دور کی بات ہے۔ پھل‘ سبزیاں اور دالیں بھی عوام کی پہنچ سے دور نکل گئی ہیں‘ گوشت اور انڈوں کے بارے میں سوچنا بھی اب محال ہو چکا ہے۔ آٹا‘ چینی‘ تیل‘ چائے کی پتی اور ترکاری‘ ہر شے غریب کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے۔ دو وقت کی روٹی کا سہولت سے حصول ہی غریب کی عیاشی ہے لیکن اب وہ یہ بھی افورڈ نہیں کر سکتے۔ بات تین وقت کے کھانے سے ایک وقت کے کھانے پر آگئی ہے۔
حکومت نے جب بجٹ پیش کیا تھا تو پورے ریڈ زون کو سیل کردیا گیا تھا۔ سمجھ نہیں آتی کہ ایسا کیا ڈر تھا‘ اپوزیشن نام کی تو کوئی چیزملک میں موجود ہی نہیں۔ اس دن پورے شہر میں پولیس کی سخت نگرانی تھی تاکہ کوئی پرندہ بھی پر نہ مارسکے۔ ویسے بھی اب پر مارنے کی جرأت ہی کسے ہوتی ہے۔ حزبِ اختلاف نہیں تھی تو شیڈو بجٹ بھی نہیں آیا۔ فخریہ اعلان ہوا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوگیا ہے‘ سوال یہ ہے کہ سرکاری ملازمین ملک کی افرادی قوت کا کتنے فیصد ہیں؟ یہ محض ایک قلیل سا طبقہ ہے‘ باقی سب لوگ تو پرائیوٹ سیکٹر کے ساتھ منسلک ہیں‘ ان کی تنخواہوں سے متعلق کیا فیصلہ کیا ہے؟ وہ تو بالکل نہیں بڑھتیں‘ نہ ہی ان کو کوئی مراعات ملتی ہیں۔ اگر کسی ریلیف کا اعلان ہو ہی جائے تو اس پر عمل درآمد نہیں ہو پاتا‘ نہ ہی کوئی چیک اینڈ بیلنس ہوتا ہے۔ عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ فیصلہ ساز ایوانوں کے ٹھنڈے ہالز میں اربوں‘ کھربوں کی باتیں عوام کے نام پر ہوتی ہیں مگر عوام تک کیا پہنچتا ہے؟ انہیں تو انکم سپورٹ کے نام پر بمشکل 2500 روپے ملتے ہیں۔ یہ سہولت بھی ہر کسی کو میسر نہیں ہے۔ کسی کسی کے نصیب میں ہی یہ نعمت آتی ہے۔ ذرا سوچیں کہ 2500 کی خطیر رقم میں کیا ہوسکتا ہے۔ حکومت مگر اس پر بہت اتراتی ہے کہ اتنی بڑی رقم دے کر وہ عوام پر احسان کررہی ہے جبکہ آج ایک دن کا کھانا بھی 2500 میں بمشکل پورا ہوتا ہے۔ نقد رقم نکالنے پر نان فائلرز پر دوبارہ 0.6 فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ بہت سے اور بھی ٹیکسز لگائے گئے ہیں لیکن سب سے زیادہ افسوس مجھے اس بات پر ہوتا ہے کہ عوام‘ جن کی قوتِ خرید تو زیادہ نہیں ہوتی‘ کے خرچے مزید بڑھ جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے بہت سے لوگ خودکشیوں پر مجبور ہیں اور بہت سے لوگ حالات و واقعات کی وجہ سے زندہ لاش بن چکے ہیں۔ سیاست تو اس وقت بھی بامِ عروج پر ہے لیکن عوامی خدمت کے ضمن میں کچھ نہیں ہو رہا۔
محلاتی سازشوں کی وجہ سے پہلے سے بدحال معیشت پاتال سے جا لگی ہے، سیلاب کی وجہ سے مزید تیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ دوسرا‘ پاکستانیوں کی فی کس آمدنی میں بھی کمی ہوئی۔ آئے روز ملک میں زلزلے آرہے ہیں‘ ایک طرف بن موسم کی برسات ہورہی ہے تو دوسری طرف کراچی پر سمندری طوفان کے بادل منڈلارہے ہیں‘ پانی ساحلوں سے باہر چھلک رہا ہے لیکن کوئی بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی بات نہیں کررہا۔ کس طرح سے ہم دنیا کو باور کرائیں کہ ہم تو کاربن کے اخراج میں کوئی قابلِ ذکر حصہ بھی نہیں ڈالتے‘ اس کے باوجود دنیا کی غلطیوں کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے‘ ہمارے ملک میں تباہ کاریاں جاری ہیں اور کوئی بھی ہماری مدد کو تیار نہیں۔
موسموں کی شدت اور مہنگائی نے انسانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ وہ پہلے ہی زیادہ نہیں کما پا رہے‘اب اگر ان کی جمع پونجی کسی سیلاب‘ طوفان یا زلزلے کی نذر ہوجائے تو وہ کیا کریں گے؟ ہم تو ابھی تک زلزلہ متاثرین اور سیلاب متاثرین کی بحالی ہی ممکن نہیں بنا سکے‘ خدانخواستہ اگر سمندری طوفان نے زیادہ تباہی مچا دی تو کیا ہوگا؟ عوام کی معاشی کمر تو پہلے ہی ٹوٹی ہوئی ہے، حکومت اور حکمرانوں سے قطعاً کوئی امید نہیں ہے۔ جس ملک کے حکمران امیر ہوں‘ وہاں عوام غریب تر ہی ہوتے ہیں۔ یہی حالات رہے تو غربت‘ مسائل اور آفات میں مزید اضافہ ہوگا۔ حکمران اپنا محاسبہ کریں تاکہ ملک کے حالات کچھ بہتر ہوں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں