گزرے ہفتے کے دوران بائپر جوائے نامی سمندری طوفان کی وجہ ملک بالخصوص سندھ کے ساحلی علاقوں کے عوام میں کافی خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا۔ حکومت کی طرف سے ان علاقوں کے رہائشیوں کو سمندری طوفان کے خطرات سے محفوظ رکھنے کیلئے ان افراد کی محفوظ مقامات پر منتقلی کا سلسلہ بھی جاری تھا اور دیگر حفاظتی اقدامات بھی مکمل کر لیے گئے لیکن صد شکر کہ یہ طوفان ٹل گیا اور کراچی سمیت سندھ کے دیگر ساحلی علاقے ممکنہ تباہی سے محفوظ رہے۔ البتہ بھارتی ریاست گجرات سے ٹکرانے اور کراچی میں اس سمندری طوفان کی تباہ کاریوں کا خطرہ ٹلنے تک ملکی اور بھارتی میڈیا میں اس حوالے سے مسلسل رپورٹنگ جا ری رہی اور متعلقہ علاقے کے عوام میں سنسی پھیلانے کا باعث بنتی رہی۔ سندھ میں اس سے قبل بھی کئی سمندری طوفان آ چکے ہیں جن میں مہلک ترین 1999ء کا سمندری طوفان تھا جس سے تقریباً 20لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے جبکہ ہلاک شدگان کی تعداد بھی سینکڑوں میں تھی۔ 2014ء میں بھی ایک سمندری طوفان ''نیلوفر‘‘ نے کراچی کے قریب آتے آتے اپنا رخ تبدیل کر لیا تھا۔ تب بھی سندھ کے ساحلی علاقوں بالخصوص کراچی کے رہائشیوں میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ ان طوفانوں کی وجہ سے کراچی اور سندھ کے دیگر ساحلی اضلاع میں تیز جھکڑوں‘ آندھیوں اور بارشوں کا سلسلہ جاری رہا لیکن شکر ہے کہ یہ طوفان براہِ راست ملک کے کسی ساحلی علاقے سے نہیں ٹکرائے۔ گوکہ اس بار بائپر جوائے کراچی اور سندھ کے دیگر ساحلی علاقوں کے کافی قریب آگیا تھا‘ یہی وجہ تھی کہ کراچی کے شہری کافی خوف زدہ تھے کہ اگر یہ طوفان کراچی سے ٹکرا گیا تو انہیں شدید مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ کراچی میں نکاسی ٔ آب کا جو نظام موجود ہے وہ تو بارشی پانی کی نکاسی کے لیے بھی کافی نہیں‘ ایسے میں یہ نظام سیلابی پانی کی نکاسی کا متحمل کیسے ہو سکتا تھا۔ ملک کے معاشی اور سیاسی حالات بھی کچھ ایسے تسلی بخش نہیں کہ اس طوفان کی تباہ کاریوں کا سامنا کر سکتے۔ کراچی میں مقیم میرے بہت سے رشتہ دار اور احباب جو سمندر کے نزدیک رہتے ہیں‘ وہ عارضی نقل مکانی کر گئے تھے کیونکہ سمندر کی لہریں اور ہوائیں بہت تیز تھیں اور وہ خوفزدہ ہو گئے تھے کہ طوفان کے ساحلِ سمندر سے ٹکرانے کی صورت میں انہیں سیلابی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔ حکومت نے ان علاقوں میں دفعہ 144نافذ کر رکھی تھی۔
جہاں ساحلِ سمندر کے قریب مقیم سمندری طوفان کے نقصانات سے محفوظ رہنے کیلئے نقل مکانی کر رہے تھے وہیں کچھ ایسے منچلے بھی تھے جو اس طوفان کی وجہ سے اوپر اٹھتی لہروں کو دیکھنے کیلئے ساحلِ سمندر پر پہنچ گئے۔ کوئی ان سے پوچھے بھلا طوفان بھی کوئی دیکھنے کی چیز ہے۔ خبروں کے مطابق ٹک ٹاکرز نوجوانوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد ساحلِ سمندر پر اُمڈ آئی تھی جوکہ طوفان دیکھنے کی خواہاں تھی لیکن پھر پولیس نے بروقت تمام لوگوں کو وہاں سے ہٹا دیا۔ کچھ ایسے افراد بھی ساحلِ سمندر پر موجود تھے جو سوشل میڈیا پر ویوز لینے کے لیے خوفناک سمندری لہروں میں اُتر کر رپورٹنگ کرتے رہے۔ یہ نہایت غیر سنجیدہ حرکت تھی۔ اگر پانی کی ایک لہر اُنہیں اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی تو اس کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جانا تھا۔ طوفان سے متعلق خبریں طوفان میں کود کر نہیں دی جاتیں بلکہ سیٹلایٹ امیجز کی مدد سے بھی عوام کو آگاہی دی جا سکتی ہے۔ لہروں اور بارش میں بھیگے رپورٹرز نجانے اس وقت کتنے بخار یا الرجی میں مبتلا ہوں گے کیونکہ کراچی کا ساحل بہت آلودہ ہے۔ سمندری طوفان کی رپورٹنگ کیلئے مختلف چینلز پر چلائی جانے والی ویڈیوز میں یہ آلودگی صاف نظر آ رہی تھی۔ پتہ نہیں ہمیں اس قدرتی اثاثے کی قدر کیوں نہیں ہے۔ بہرحال اس دوران کراچی میں پاکستان نیوی اور سندھ پولیس بہت متحرک رہی اور لوگوں کی مدد کرتی نظر آئی۔
صد شکر کہ پاکستان تو بائپر جوائے سے محفوظ رہا لیکن بھارتی ریاست گجرات سے یہ طوفان پوری شدت سے ٹکرایا اور وہاں کافی تباہی مچائی۔ وہاں ناصرف درخت بلکہ بجلی کے کھمبے بھی اکھڑ گئے جس کے باعث ساحلی علاقوں کی بجلی منقطع رہی۔ اب بھی وہاں بہت سے علاقوں میں بارشیں جاری ہیں۔ نشیبی علاقے پانی میں ڈوب گئے ہیں اور یہ طوفان ڈپریشن میں تبدیل ہوچکا ہے۔ سمندری طوفان کی کوریج کے حوالے سے ہندوستانی میڈیا کے بہت سے کلپس بھی وائرل ہوئے۔ ایک کلپ میں ایک نیوزکاسٹر چھتری پکڑے اداکاری کر رہی تھی۔ اس پر ہندوستان کی مشہور اداکارہ جوہی چاولہ نے اپنا ایک پرانا کلپ شیئر کیا جس میں وہ فلم میں رپورٹر ہوتی ہیں اور طوفان کا سیٹ اسٹوڈیو میں لگایا جاتا ہے۔ نقلی بارش اور پنکھوں کی ہواؤں سے ایسا منظر پیش کیا جاتا ہے کہ رپورٹر اصل میں طوفان کور کررہی ہے۔ ایک اور کلپ بھی سامنے آیا جس میں ہندوستانی نیوزکاسٹر ایک گرافکس سے بنے ہوئے ہیلی میں بیٹھ کر طوفان کا دورہ کررہی تھی۔ یہ مناظر دیکھ کر ہر کوئی لطف اندوز ہوا۔
گوکہ بائپر جوائے کا خطرہ ٹل گیا ہے لیکن ساحلی علاقوں میں موسلادھار بارشوں کا خطرہ اب بھی موجودہے۔اس لیے اب بھی حکومت اور متعلقہ اداروں کو الرٹ رہنا ہوگا کیونکہ اس طرح کی بارشیں اربن فلڈنگ کا باعث بن جاتی ہیں۔ جس وقت اس طوفان کے آنے کا شدید خطرہ تھا ‘اس وقت بہت سے لوگ قرآنی آیات اورمسنون دعائیں شیئر کر رہے تھے تاکہ لوگ طوفان سے حفاظت کیلئے یہ پڑھ سکیں۔ پرانے زمانے میں بہت سی قومیں تیز ہواؤں اور طوفانوں میں غرق ہوچکی ہیں۔ ان کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے کہ کس طرح نافرمان قوموں کو ہوا‘ بارش اورطوفان کے ذریعے ہلاک کیا گیا۔ ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی ہماری قوم اور ملک کو ہمیشہ اپنی رحمت کے سائے میں رکھے۔ ایسے مشکل مواقع پر اللہ کے سامنے التجا کرنی چاہیے اور دعا کرنی چاہیے کہ اللہ اس کو ہم پر سے ٹال دے۔
جہاں ایک طرف یہ طوفان اپنے ساتھ کئی خطرات لا رہا تھا وہیں کچھ یوٹیوبرز کیلئے کمائی کا ایک بہترین ذریعہ بن کر آ رہا تھا۔ ایسے افراد کی طرف سے چند ویوز کے حصول کیلئے طوفان کی غلط رپورٹنگ سے عوام میں سنسنی پھیلانے کا سلسلہ جاری رہا۔ عوام بھی غلط معلومات پر مبنی یہ کلپس بلا تحقیق شیئر کرتے رہے۔ یعنی عوام کو بیک وقت دو طوفانوں کا سامنا تھا‘ ایک تھا بائپر جوائے اور دوسراتھا غلط خبروں کا طوفان۔ کسی بھی خبر کو بنا تصدیق آگے نہیں پھیلانا چاہیے۔ خاص طور پر اس وقت جب ایمرجنسی کی صورتحال ہو۔ اس وقت بہت احتیاط کرنی چاہیے اور غلط خبروں کو روکنا چاہیے۔ جن لوگوں کا اس طوفان میں مالی نقصان ہوا ہے‘ حکومت کو چاہیے انکی مدد کرے۔ خاص طور پر غریب ماہی گیر جن کی کشتیاں اس طوفان کی نذر ہوگئیں۔ وہ ان کی روزی روٹی کا ذریعہ تھیں۔ ساحلی علاقوں کی کچی بستیوں میں ہونے والے نقصان کا بھی ازالہ کیا جائے۔
جہاں سوشل میڈیا پر اس طوفان کے حوالے سے غلط خبریں پھیلائی جاتی رہیں وہیں میمرز حضرات بھی کافی متحرک نظر آئے اور سنسنی اور خوف کی اس صورتحال میں بھی مزاحیہ چیزیں شیئر کرتے رہے۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ کراچی میں چونکہ پہلے ہی بہت مسائل تھے‘ اس لیے طوفان نے اپنا رخ بدل لیا ہے۔ ویسے بھی جس دن طوفان نے کراچی سے ٹکرانا تھا اس دن سیاسی طوفان بھی کراچی کے افق پر تھا۔ کراچی کی مئیرشپ پر حق جماعت اسلامی کا تھا لیکن یہ پی پی پی کے پاس چلی گئی۔ یوں جیتنے کو جیتنا نہیں کہتے اور نا ہی یہ جمہوری اقتدار پر پورا اترنا ہے۔عدلیہ کو حکم صادر کرنا چاہیے کہ مئیر کراچی کے الیکشنز دوبارہ کروائے جائیں اوراس بار تمام اراکین بھی پورے ہوں۔ عوامی مینڈیٹ کی یوں توہین بائپرجوائے طوفان سے بھی بڑا طوفان لے آئے گی۔ جماعت اسلامی کے میئرز کی ماضی کی مثالوں کے پیش نظر کراچی کے عوام اب بھی جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن سے یہی امید لگائے بیٹھے تھے کہ وہ میئر بن کر ان کے مسائل حل کریں گے‘ پر وہ تو میئر ہی نہیں بن سکے۔کراچی کے عوام اس سب صورتحال پر بہت رنجیدہ ہیں کیونکہ سیاست کے اس کھیل سے ان کی زندگیاں متاثر ہورہی ہیں۔خیر جب بھی کوئی طوفان یا کوئی اور مصیبت آئے تو فوراً اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیں‘ پتہ نہیں کون سی گھڑی زندگی کا آخری پل ہو۔ انسان دنیاوی زندگی اور محلاتی سازشوں میں یہ بھول گیا ہے کہ یہ دنیا عارضی ہے۔