گہرے نیلے پانیوں والے بحر اور بحیرے دیکھ کر انسان پر ایک ہیبت طاری ہو جاتی ہے‘ جہاں دور دور تک صرف پانی ہی پانی ہے اور خشکی کا کوئی نام و نشان نہیں۔ یہاں ایسی ایسی آبی مخلوقات پائی جاتی ہیں جن سب کے شاید ہمیں نام بھی معلوم نہیں۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بہت سی اقسام کی نباتات بھی سمندروں میں اگائی ہیں۔ دیو ہیکل ویلز سے لے کر چھوٹی سی جیلی فش تک‘ یہاں اللہ تعالیٰ کی کاریگری کے بے تحاشا‘ بہترین اور منفرد نمونے موجود ہیں۔ دوسری طرف انسان ہے کہ جس کی فطرت میں کھوج رکھ دی گئی ہے‘ وہ قدرت کے نظام کو جاننا چاہتا ہے‘ کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانا چاہتا ہے۔ یہ کھوج اس کو مہم جوئی پر اُکساتی ہے‘ انہی مہم جوئیوں کے نتیجے میں نئی نئی دریافتیں ہوتی ہیں اور انسان پر قدرت کے بہت سارے بھید کھلتے ہیں۔ خلا سے لے کر گہرے نیلے پانیوں کی گہرائیوں تک‘ ہر روز کائنات کا کوئی نہ کوئی راز انسان پر کھل رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ناسا کی خلا میں بھیجی گئی دوربین جیمز ویب نے ستاروں اور کہکشاؤں کی ایسی تصاویر لی ہیں جو اب تک کی سب سے ہائی ریزولیشن تصاویر ہیں۔ اسی طرح سمندروں کو بھی کھوجا جا رہا ہے۔ اٹھارہویں صدی میں اگر کولمبس سمندری سفر نہ کرتا تو امریکہ کی دریافت میں مزید کتنے سال لگ جاتے۔ اب تو حالات بہت اچھے ہیں‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے‘ سیٹلائٹ نیویگیشن اور کمپیوٹر کی مدد سے نئی دنیائیں مسخر کی جا رہی ہیں۔
بحرالکاہل ہو یا بحر اوقیانوس‘ بہت سے مشن پانی میں زندگی کھوج رہے ہیں۔ دوسری طرف بہت سی فوجیں ان سمندروں کی حفاظت پر بھی معمور ہیں کیونکہ سمندر کے راستے سے بھی بہت سے جرائم ہوتے ہیں۔ بحری قذاق لوگوں کو لوٹ لیتے ہیں‘ کالے دھن اور اشیا کی سمگلنگ کا دھندا ہوتا ہے۔ اس کیساتھ ساتھ انسانی سمگلنگ کرنے والے ایجنٹ بھی یہی راستہ اختیار کرتے ہیں اور بے دریغ انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بھی انسانی سمگلنگ کا دھندا عروج پر ہے۔ یہاں ایجنٹ غربت سے ستائے اُن لوگوں کو جو ہوائی سفر کی سکت نہیں رکھتے‘ سبز باغ دکھاتے ہیں کہ پانیوں کا سفر کرکے وہ جب یورپ پہنچیں گے تو ان کی زندگی بدل جائے گی۔ یہاں ان کے لیے حالات ٹھیک نہیں ہیں‘ یہاں بس غربت‘ بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام ہے۔ امیر‘ امیر تر اور غریب‘ غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔غربت کی چکی میں پستے عوام کو جب کوئی ایسا جھانسہ دیتا ہے تو وہ اپنا سب کچھ بیچ کر بھی موت کے اس سفر پر چل پڑتے ہیں۔ چند ایک موت کی وادی سے گزر کر منزل پر بھی پہنچتے ہوں گے لیکن اکثریت یا تو سمندری لہروں یا پھر بارڈر سکیورٹی فورس کی گولیوں یا ہیومن ٹریفکنگ کرنے والوں کا شکار بنتی ہے۔ جو یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو وہاں پہنچنے ہی اُن پر یوروز کی بارش ہونا شروع نہیں ہو جاتی بلکہ وہاں بھی انہیں ایک نئے امتحان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مشکلات کے پہاڑ وہاں بانہیں کھول کر ان کا انتظار کرتے ہیں۔ کاش کے ہماری حکومتیں بھی ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ہنر مند افرادی قوت کی فراہمی کے زیادہ سے زیادہ معاہدے کرتیں تاکہ باہر جانے کے خواہش مند حضرات‘ جو ہوائی سفر کی سکت نہیں رکھتے‘ ایسے معاہدوں سے فائدہ اٹھا پاتے۔ 14جون کو یونان کے جنوب مشرقی ساحلی علاقے میں غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی ڈوبی جس میں 350سے زائد پاکستانیوں کی موجودگی کی اطلاعات ہیں جن میں سے صرف 12کو بچایا جا سکا اور باقی سب سمندر کی نذر ہو گئے۔ ذرا سی حکومتی توجہ سے ایسے افسوسناک سانحات کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔
ادھر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران دونوں ممالک کا پاکستان کے حوالے سے جو بیان سامنے آیا وہ انتہائی افسوسناک ہے۔مذکورہ بیان میں پاکستان سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ لڑی ہے۔ اس جنگ میں نہ صرف ہزاروں جانیں قربان ہوئی ہیں بلکہ مالی نقصان کا تخمینہ بھی اربوں ڈالر ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کیساتھ ساتھ سفارتی محاذ پر بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ ضروری تھا لیکن بدقسمتی سے ہماری حکومتوں کی جانب سے اس طرف کوئی توجہ نہ دی گئی جبکہ دوسری طرف گجرات کا قصائی ہر جگہ اپنے سفارت کاروں کی وجہ سے اہمیت پارہا ہے۔ پاکستان کے خلاف زہر اگل رہا ہے۔ بھارت میں اسی قصائی کی ایما پر مسلم اقلیت کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ یہاں تک اطلاعات ہیں کہ گجرات کا یہ قصائی تو اب بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا منصوبہ بنائے بیٹھا ہے۔ ہمیں بھی اپنی سفارتکاری بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک یہ ہماری سفارتی ناکامی ہی ہے کہ یونانی کوسٹ گارڈز نے 300سے زائد پاکستانیوں کو اپنے ساحلی علاقے میں ڈوبنے دیا جبکہ بروقت امدادی کارروائی سے انہیں بچایا جا سکتا تھا۔ بدقسمتی پاکستانیوں کیساتھ دنیا میں کہیں بھی کوئی حادثہ ہوجائے‘ ہماری حکومتیں ان کے لیے آواز نہیں اٹھاتیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دیگر ممالک میں ہمارے ہم وطنوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان ممالک کو پتہ ہے کہ جب ان کے اپنے وطن میں ان کی کوئی قدر نہیں تو ہمیں کیا پڑی ہے۔ یونان کشتی حادثے میں ڈوبنے والے 300سے زائد پاکستانی اپنے ساتھ اتنے ہی خاندانوں کے ارمان بھی لے ڈوبے ہیں۔ ان گھروں میں جوان موتوں پر مچنے والا کہرام ایسا ہے کہ دل دہل جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں ابھی بیٹا پیدا ہی ہوتا ہے کہ سارے خاندان کی خوشحالی اس سے وابستہ کر لی جاتی ہے کہ گھر کا خرچہ بھی وہی چلائے گا۔ بہنوں کی شادیاں بھی وہی کروائے گا۔ بوڑھے ماں باپ کا خیال بھی رکھے گا۔ جب نوجوانوں پر اتنا زیادہ بوجھ ڈالا جائے جبکہ انہیں اپنے ملک میں روزگار کے بہتر مواقع بھی میسرنہ ہوں تو پھر وہ ایسے ہی غیر قانونی راستے اختیار کریں گے۔
سمندر بہت ہیبت ناک چیز ہے‘ انسان اس کی لہروں کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ان سمندروں میں پاکستانیوں کا قتلِ عام جاری ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ حکومت اور متعلقہ حکام سب جانتے ہیں لیکن وہ بھی مبینہ طور پر اپنا حصہ لے کر چپ بیٹھے رہتے ہیں اور جب کوئی بڑا حادثہ رونما ہوتا ہے تو دو چار روز شور مچا کر‘ حرکت میں آ کر سمجھتے ہیں کہ اپنا فرض ادا ہوا۔وہ اُن بوڑھے والدین کا کیوں نہیں سوچتے جن کے بڑھاپے کے سہارے چھن جاتے ہیں‘ وہ ان معصوم بچوں کا کیوں نہیں سوچتے جو یتیم ہو جاتے ہیں‘ وہ قوم کی ان بیٹیوں کا کیوں نہیں سوچتے جو بیوہ ہو جاتی ہیں۔پر یہاں تو ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ میری دعائیں ان تمام ماؤں اور خاندانوں کے ساتھ ہیں جن کے بچے یونان کشتی حادثے میں قتل ہوگئے۔ میرے نزدیک یہ قتل ہی ہے کیونکہ پاکستانیوں کو زبردستی کشتی کے نچلے حصے پر بند کیا گیا اور اٹلی و یونان کے کوسٹ گارڈز تماشا دیکھتے رہے اور مصلحتاً ان کی مدد کو نہیں آئے۔اور اجل ان کو پانیوں میں لے گئی‘ ان کے سارے خواب اور ارمان پانیوں میں بہہ گئے۔
اُدھر ایک معروف پاکستانی بزنس مین شہزادہ داؤد اپنے بیٹے کیساتھ بحر اوقیانوس میں تباہ ہونے والے جہاز ٹائی ٹینک کا ملبہ دیکھنے کے شوق میں ایک آبدوز میں سمندر میں گئے اور وہاں ان کی آبدوز تباہ ہو گئی۔یہ بہت افسوسناک حادثہ ہے۔ شہزادہ داؤد پاکستان کا عالمی چہرہ تھے۔ ان کی آبدوز لاپتہ ہونے کے دوران سب دعاگو تھے کہ وہ زندہ مل جائیں لیکن اجل ان کو گہرے پانیوں میں لے گئی۔یہ دونوں سانحات بہت تکلیف دہ ہیں۔