افسوس کا مقام ہے!

ہمارے ملک میں آئے روز ایسے واقعات اور سانحات پیش آتے رہتے ہیں کہ انسان ان پر افسوس کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرپاتا۔ کتابوں میں لکھا‘ پڑھایا اور بتایا جاتا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں لیکن ایسا صرف مفروضے کی حد تک ہی ہے‘ اصل میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض ملنے پر اشرافیہ جشن منا رہی تھی اور عوام حیرت سے ان کو دیکھ رہے تھے۔ سود اور سخت ترین شرائط پر قرضہ ملنے پر کون خوش ہوتا ہے؟ ویسے بھی ان کو اس سے کیا غرض‘ اس کا بوجھ تو عوام نے اٹھانا ہے۔ شاید اسی لیے عوام اس قرض کی خوشی منانے سے قاصر ہیں۔اب امرا مزید امیر ہو جائیں گے اور غریب مزید غریب۔ہمارا ہمسایہ ملک چاند پر مشن بھیج رہا ہے اور ہماری حکومت دن میں عوام کو تارے دکھا رہی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی ایک سپارکو نام کا خلائی تحقیقاتی ادارہ موجود ہے مگر ابھی دور تک ایسی کوئی امید نہیں کہ کبھی وہ بھی کچھ ایسا کرے گا۔ چاند فی الحال آپ اپنی آنکھوں سے‘ زمین پر بیٹھ کر ہی دیکھ سکتے ہیں کیونکہ حکومت کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ کوئی مشن چاند پر بھیج سکے۔ ایسا لگنے لگا ہے کہ بھارت اب اپنا مقابلہ چین کے ساتھ کرتا ہے۔ پاکستان کی معاشی صورتحال کودیکھ کر اس نے نیا حریف ڈھونڈ لیا ہے۔ پہلے بحری بیڑا بنا کر اس نے سمندر میں اتارا اور اب چاند پر مشن بھیج دیا ہے۔ اس سے پہلے بھارت کے وزیراعظم نے امریکہ کاکامیاب دورہ کیا اور نئے تجارتی معاہدے کیے۔ اس کے برعکس پاکستان میں جو ہورہا ہے‘ سب کے سامنے ہے۔ ذاتی انتقام اور اَنا کی تسکین کی خاطر سارا نظام درہم برہم کردیا گیا ہے۔ جب حکومت کا دل کرتا ہے‘ پولیس والے کسی بھی سیاسی مخالف کے گھر میں گھس جاتے ہیں‘ گھر میں توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ خواتین کی تذلیل تک کی جاتی ہے۔ ایسا سلوک پہلے تو کبھی نہیں دیکھا تھا کہ مخالفین کی خواتین کے ساتھ بھی بدتمیزی کی جائے یا ان کو جیلوں میں ڈالا جائے۔کل ایک ویڈیو اَپ لوڈ ہوئی جس میں کوئی سیاسی لیڈر شکوہ کررہا تھا کہ پولیس نے اس کے گھر میں ہر چیز توڑ ڈالی ہے۔ وڈیو میں نظر آ رہا تھا کہ گھر کی ہر چیز ٹوٹی ہوئی تھی۔ آج کل ایک ٹی وی‘ فریج‘ فرنیچر لاکھوں میں آتا ہے۔ ہر کوئی اتنا امیر نہیں ہوتا کہ ایک ہفتے میں دوبارہ سارا سامان خرید کر گھر سجا لے۔ سالوں کی محنت کے بعد گھر بنتے ہیں۔ حکومت بھلے اپنے مخالفین کو صحرا میں پھینک دے لیکن ان کے گھر والوں کو اس طرح کی اذیت مت دے۔ خدارا خواتین‘ مائوں‘ بہنوں کو اپنے انتقام کا نشانہ مت بنائیں۔ لوگوں کے گھروں میں توڑ پھوڑ مت کرائیں۔ ان کی بدعائیں مت لیں۔ جب ہمارے ملک میں آپس میں لڑائیاں ہورہی ہوں تو کون یہاں سرمایہ کاری کرے گا؟ کون یہاں آنا پسند کرے گا؟
ایک اور افسوسناک واقعہ اسلام آباد کی مارگلہ ٹریل پر پیش آیا۔ ایک شخص نے ایک لڑکی کو نوکری کا جھانسہ دے کر بلایا اور اس کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ اس پر عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس سے قبل ایف نائن پارک میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آ چکا ہے کہ ایک اوباش آدمی نے واک پر آنے والی لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور بعد میں پولیس کی طرف سے یہ کہا گیا کہ وہ مجرم پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے۔ اللہ جانے وہ اصل مجرم تھا بھی یا نہیں۔ قصور کے واقعے میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ ڈی این اے رپورٹ سے کئی ایسے کیسز بھی ری اوپن ہوئے جنہیں ''مجرم‘‘ کے مارے جانے پر بند کیا جا چکا تھا۔ اب لوگ اس لیے بھی جرائم کی طرف مائل ہو جاتے ہیں کہ ان کو معلوم ہے یہاں انصاف کا نظام کمزور ہے‘ طاقتور مجرم صاف بچ جاتے ہیں۔ اگر ایف نائن پارک والے سانحے کی صحیح تحقیقات ہوتیں تو مارگلہ ٹریل پر یہ واقعہ پیش نہ آتا۔ ٹریل جنگل کا حصہ ہے‘ اس لیے کسی کو اس وقت پتا بھی نہیں چلا ہوگا کہ جنگل میں کسی جرم کا ارتکاب ہوا ہے۔ پولیس نے کچھ عرصہ قبل اعلان کیا تھا کہ یہاں ڈرون سے تمام ٹریلز کی نگرانی کی جائے گی تاکہ کوئی سیاح راستہ نہ بھول جائے لیکن اب وہاں ریپ ہوگیا ہے‘ نجانے پولیس اور اس کے ڈرونز کہاں تھے۔
ہمار ے معاشرے میں زیادتی کے کیسز بڑھتے جارہے ہیں‘ بچوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس وبا کو اسی طرح روکا جاسکتا ہے کہ مجرمان کو کڑی سے کڑی سزائیں دی جائیں۔ سخت اور بے لاگ سزا کا عمل ہی اس قبیح فعل کو روک سکتا ہے۔ مارگلہ ٹریل کیس میں ان تمام لوگوں کو گرفتار ہونا چاہیے جنہوں نے لڑکی کو نوکری کو جھانسہ دے کر بلایا اور اس کے ساتھ زیادتی کی۔ یہ اسلام آباد پولیس کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہونا چاہیے۔ صرف گرفتاری پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ مجرموں کو سزا دلوانا اصل ہدف ہونا چاہیے۔ تمام ملزمان کو کیفرِکردار تک پہنچائیں۔ دارالحکومت میں غیر ملکی سفارتکار بھی مقیم ہوتے ہیں۔ اس طرح کے سانحات سے بیرونِ ملک کیا پیغام جائے گا؟ یہ یقینا تشویش کا باعث ہیں‘ ان کو فوری روکنا ہوگا ورنہ غیر ملکی سفارتکار بھی خود کو غیر محفوظ سمجھیں گے۔ مارگلہ ٹریل پر ہر عمر کے لوگ جاتے ہیں‘ اکثر خواتین اور بچے اکیلے بھی چلے جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹریل واک اور ہائی کنگ کرنے والوں کے لیے محفوظ ہے؟ وہاں پر جنگلی جانور بھی موجود ہوتے ہیں مگر انہوں نے کبھی انسانوں کو نقصان نہیں پہنچایا لیکن انسانوں کے روپ میں جو درندے چھپے بیٹھے ہیں‘ ان کی وجہ سے ٹریل پر جانے والے محفوظ نہیں۔ پولیس کی ٹیموں کو وہاں پیدل گشت کرنا چاہیے یا وہاں پر چوکی بنانی چاہیے۔ اور جو ڈرونز سے نگرانی کا دعویٰ کیا گیا تھا‘ وہ بھی اگر کرلیں تو مہربانی ہوگی۔ ویسے تو ملک کے کسی بھی حصے میں ایسا واقعہ قابلِ مذمت ہے لیکن ملک کے دارالحکومت میں یہ اور بھی افسوسناک ہے۔
تیسرا افسوسناک واقعہ سواں پل راولپنڈی پر پیش آیا جہاں بدترین ٹریفک حادثہ ہوا۔ ایک ڈمپر کی تیز رفتاری نے تین گاڑیوں کو روند ڈالا۔ اس سانحے میں سات افراد موقع پر جاں بحق ہو گئے، دس افراد شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیے گئے۔ ایک گاڑی تو پل سے ہی نیچے گرگئی۔ جب وہاں پل زیرِ تعمیر ہے تو ڈمپر والا اتنی تیزرفتاری سے کیوں آیا؟ پولیس کہاں تھی؟ ان شہریوں کا کیا قصور تھا کہ ان سے جینے کا حق ہی چھین لیا گیا؟ جو زخمی ہوئے‘ ان کی تکلیف کا ذمہ دار کون ہے؟ جن گاڑیوں کو نقصان پہنچا‘ ان کا ازالہ کون کرے گا؟ اس وقت گاڑیاں اتنی مہنگی ہیں کہ کوئی متوسط شخص خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتا مگر کسی بھی ٹرک یا ڈمپر والے کی غلطی سے چھوٹی سواری والے شدید نقصان اٹھاتے ہیں۔ ٹریفک پولیس دفتری اوقات میں ہیوی ٹریفک کو سڑکوں پر آنے کی اجازت ہی کیوں دیتی ہے؟ بڑی بڑی گاڑیوں والے اوور سپیڈنگ کرتے ہیں‘ چھوٹی سواری والوں کو ڈراتے ہیں۔ دیگر بڑی سواریوں کے ساتھ ریس لگاتے ہیں‘ یوں خطرناک حادثے پیش آتے ہیں جن سے گھروں کے گھر برباد ہوجاتے ہیں۔ میری کزن حنا نے اپنا اٹھارہ سال کا بیٹا ایسے ہی ایک حادثے میں کھو دیا تھا۔ اس معصوم حافظ قرآن بچے کو ڈمپر نے ٹکر ماری تھی اوروہ والدین کو روتا چھوڑ گیا۔ اولاد کے جانے کا دکھ ماں باپ کو کھا جاتا ہے۔ حکومت ان ہیوی ٹریفک والے ڈرائیورز کو ٹریفک رولز کے بارے میں پڑھائے‘ ان کے سخت ڈرائیونگ ٹیسٹ ہوں۔ نیز یہ کہ یہ کسی نشے کے عادی تو نہیں‘ ان کو ہائر کرنے والی کمپنیاں ان کے ڈیوٹی آورز کیا رکھتی ہیں‘ کیا یہ نیند کی کمی کا شکار تو نہیں ہوتے‘ یہ سڑکوں پر ریس کیوں لگاتے ہیں‘ان سب چیزوں کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ سواں پل حادثہ بہت خوفناک ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام متاثرین کو صبر دے۔ اس سے قبل 27 جون کو پل کا ایک حصہ گرگیا تھا‘ اس کی مرمت کا کام جاری ہے‘ جس پر ابھی چار ماہ لگیں گے۔ اس لیے بھی یہاں ٹریفک کا بہائو زیادہ سست ہے۔ خدشہ ہے کہ اب اس حادثے کو بریک فیل کا نام دے کر سب بری الذمہ ہوجائیں گے حالانکہ یہ تیز رفتاری کی وجہ سے پیش آیا۔ یہاں یہ بھی سوالات اٹھتے ہیں کہ دن کے اوقات میں سیمنٹ سے بھرا ڈمپریہاں کیا کررہا تھا؟ ایسے ڈرائیور کو لائسنس کس نے ایشو کیا، کیا اس کا کوئی فٹنس ٹیسٹ ہوا تھا؟ سڑکوں پر موت بانٹی جا رہی ہے مگر کوئی ان قاتل ڈرائیوروں کا احتساب کرنے والانہیں ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں