موروثی سیاست دانوں کے لیے سبق

موروثی سیاست جنوبی ایشیا کے عوام کے لیے کوئی ناآشنا چیز نہیں‘ یہاں موروثی سیاستدان بکثرت پائے جاتے ہیں۔ زیادہ دور نہیں جاتے‘ اگر ہم برصغیر کے تین ممالک یعنی پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش کو دیکھیں تو ان ملکوں کی سیاست میں ان کی ہی اجارہ داری ہے۔ ماں باپ کے بعد پارٹی کی کرسی بھی وارثت کی طرح بچوں کو منتقل ہو جاتی ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جس میں کوئی عام سیاسی ورکر کسی بڑے عہدے پر نہیں پہنچ سکتا اور چند سیاسی خاندان ہی اقتدار کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اگر کسی خاندان میں کوئی ایک بڑا لیڈر پیدا ہو جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سارے کا سارا خاندان ہی لیڈر اور پیدائشی سیاست دان ہے۔ یہ صلاحیت ہر کسی میں نہیں ہوتی۔ ہر انسان دوسرے سے مختلف طبیعت اور مختلف رجحان کا حامل ہوتا ہے۔ کسی نے بڑے ہو کر کھلاڑی بننا ہے‘ کسی نے کاروبار کرنا ہے‘ کوئی زراعت کے شعبے میں جائے گا‘ کوئی سائنسدان بنے گا‘ کسی کی فیلڈ آئی ٹی ہو گی مگر اس خطے میں سیاسی خاندانوں کے صرف دو ہی پیشے ہیں؛ ایک بزنس اور دوسرا سیاست۔ دونوں ہی ان کے لیے کمائی کا اچھا ذریعہ ہیں۔ اس خطے میں پیری‘ مریدی اور ضعیف الاعتقادی بھی بہت ہے جبکہ ذات پات‘ برادری اور دھڑے بندی کا سسٹم بھی عام ہے اس لیے ایک جیسے چہرے ہی عوام پر مسلط رہتے ہیں۔ لوگ اپنے فرقے‘ اپنی ذات‘ اپنی برادری‘ اپنے دھڑے میں ووٹ دیتے ہیں پھر چاہے امیدوار اہل ہو یا نہ ہو۔ کچھ جگہوں پر تو ووٹنگ سے قبل شناختی کارڈ تک لے لیے جاتے ہیں تاکہ ووٹ صرف مطلوبہ شخص ہی کو ملے۔ راشن یا کچھ نقدی دے کر لوگوں سے ووٹ بٹورے جاتے ہیں۔ ایک طرف الیکشن میں دھونس چلتی ہے تو دوسری طرف ضرورت پڑنے پر جبر سے بھی کام لیا جاتا ہے‘ جہاں بریانی یا قیمے والا نان کام کر جائے وہاں ان چیزوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ یوں اکثر سیٹ سیاسی گدی بن کر خاندان ہی میں رہ جاتی ہے۔ عام طور پر سیاسی خاندانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے بیٹے یا خاندان کے مرد ہی پارٹی کی باگ ڈور سنبھالیں لیکن اگر کسی ناگزیر وجہ سے ایسا نہ ہو سکے تو پھر بیٹیاں اور بہوئیں بھی میدان میں اتر آتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ سیاست کی بساط پر خواتین کا نام و نشان تک نہیں تھا حالانکہ پاکستان کے قیام کی تحریک میں خواتین نے بھرپور کردار ادا کیا تھا مگر بعد ازاں ان کو ہر شعبے میں پیچھے دھکیل دیا گیا۔ اسی طرح سیاست میں بھی وہ پیچھے رہ گئیں۔ یہاں تک کہ ان کا شعبۂ سیاست میں ہونا ہی معیوب سمجھا جانے لگا۔ پھر جب سیاست دانوں پر کڑا وقت آیا تو جہاں ان کے کارکنان ان کے حق میں باہر نکلے‘ وہیں ان کے گھر کی خواتین بھی میدان میں اتر پڑیں۔ ان خواتین نے بدترین آمریت کا مقابلہ کیا‘ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ان کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا گیا۔ اگر ان کی جدوجہد اپنے سیاسی خاندانوں کیساتھ ساتھ اس ملک کے عوام کے لیے بھی ہوتی تو شاید حالات کچھ بدل جاتے۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اکثر اس قسم کی جدوجہد میں سیاسی خاندان ہی فائدے میں رہے۔ یہ موروثی سیاستدان جب بھی اقتدار میں آئے‘ ان کے اثاثوں میں بے پناہ اضافہ ہوا جبکہ ملک مزید نیچے گیا اور قومی خزانہ خالی ہو گیا۔
ہمارے ملک میں آمریت زیادہ رہی ہے اور جمہوریت اب بھی نوزائیدہ ہے۔ پرویز مشرف کے طویل دورِ حکمرانی میں جب اسمبلیوں میں خواتین کی مخصوص نشستوں کا اعلان ہوا تو مجھے یہ اقدام اچھا لگا کہ اس سے خواتین کی سیاسی عمل میں شمولیت زیادہ ہو گی۔ مگر بعد ازاں یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ اس طرح اسمبلی میں پہنچنے والی زیادہ تر خواتین سیاستدانوں کی بہو‘ بیٹیاں‘ بہنیں اور بیویاں ہی تھیں۔ یہاں امیر اور سیاسی خاندان کا حصہ ہونا آپ کے سیاسی کیریئر کو جلا بخش سکتا ہے مگر عام سیاسی کارکن یا شہری ایوانِ بالا تو دور‘ ایوانِ زیریں میں بھی آنے کا سوچ نہیں سکتا۔ذرا سوچ کر بتائیں کہ کبھی کسی غریب کو قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی میں دیکھا ہے؟ نہیں دیکھا ہو گا! پاکستان میں شاذ ہی ایسا ہوتا ہے۔ یہاں کی روایتی موروثی سیاست میں اپنا مقام بنانے کے لیے امیر ہونا ضروری ہے‘ قیمتی لباس پہننا ضروری ہے‘ لاکھوں روپے کی جوتی‘ لاکھوں کی ہیروں والی گھڑی اور تین‘ چار کروڑ کی گاڑی میں گھومنا ضروری ہے۔ اس کے بعد یہ بات کرنا کہ ہم غریبوں کے مسائل کو سمجھتے ہیں‘ ان کے حل کے لیے کوشاں ہیں‘ ایک سنگین مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ جو خود اتنا امیر ہوکہ لاکھوں کا جوتا پہن رکھا ہو‘ کروڑوں کی گاڑی میں گھومتا ہو‘ اس کو کیا پتا کہ بیس ہزار بل آ جانے پر لوگ خودکشی کیوں کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ تو جلسے کے دوران بھی سٹیج پر اے سی لگوا کر خطاب کرتے ہیں کہ پسینے سے ان کی شان و شوکت متاثر نہ ہو۔
اس وقت پاکستانی سیاستدان اپنی اگلی نسلوں کو میدانِ سیاست میں اتار چکے ہیں کیونکہ کچھ ضعیف العمری تو کچھ اپنے کیسز کی وجہ سے خود سیاست نہیں کر سکتے‘ اس لیے اب اپنا تخت و تاج وہ اپنے بچوں کو منتقل کر رہے ہیں۔ ویسے بھی وقت سدا ایک سا نہیں رہتا اور کرسی کسی کے ساتھ وفادار نہیں ہوتی۔ آج اگر ایک کے پاس اقتدار ہے تو کل کسی دوسرے کے پاس ہو گا؛ تاہم اب دور بھی پہلے جیسا نہیں رہا، یہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا زمانہ ہے۔ لوگ اپنی پسند اور ناپسند کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ عوام اس بات پر بڑی سیاسی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ زیرک بزرگ سیاستدان بھی ہاتھ باندھ کر موروثی سیاست دانوں کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کیا ان کا یہ حق نہیں تھا کہ وہ پارٹی کی قیادت کرتے؟ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ پارٹی کے لیڈران چاہتے ہیں کہ صرف ان کے خاندان کے لوگ ہی مرکزی عہدوں پر براجمان رہیں۔ سیاسی جماعتوں کے حالیہ انٹرا پارٹی الیکشن ہی کو دیکھ لیں کہ سیاسی جماعتوں میں کتنی جمہوریت ہے۔ سبھی لوگ بلامقابلہ منتخب ہو گئے اور وہ بھی زیادہ تر رشتہ دار ہی۔ پارٹی اجلاسوں کی پہلی صف میں خاندان کے علاوہ شاید ہی کسی اور کو نشست ملتی ہو گی۔ پاکستانی جمہوریت شاید اسی کو کہتے ہیں کہ تمام طاقت صرف ایک ہی خاندان کے پاس رہے۔ اس خاندان کے بچے بزرگ اور تجربہ کار سیاست دانوں کو اپنے ہاتھ سے ٹکٹ دیتے ہوں۔ ویسے بزرگ سیاستدانوں کی بھی ہمت ہے کہ وہ یہ جانتے ہوئے بھی ناتجربہ کار اور نومولود لیڈر سے ہدایات لینا شروع کر دیتے ہیں اور ہاتھ باندھ کر اس کی پیروی کرتے ہیں کہ پارٹی اس کے والدین یا خاندان کی ملکیت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعت کسی ایک شخص یا خاندان کی ملکیت نہیں ہوتی بلکہ یہ بہت سے لوگوں کے اشتراکِ عمل سے کھڑی ہوتی ہے۔ہماری نئی نسل اور عوام کی کثیر تعداد اقربا پروری اور موروثیت کی سیاست کو شدید ناپسند کرتی ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ لوگ سامنے آئیں جو قابل ہوں‘ جو پاکستان کو عالمی سطح پر نمایاں کر سکیں۔ جن کے پاس بات کرنے کا ہنر ہو‘ جو وطن سے محبت کرتے ہوں۔ جن سیاستدانوں کے اپنے بچے غیر ملکی شہری ہوں‘ جن کے اثاثے ملک سے باہر ہوں‘ وہ اس وطن کے مفادات کا تحفظ کیسے کریں گے؟ وہ تو یہاں صرف حکومت کرنے آتے ہیں اور حکومت کر کے چلے جاتے ہیں۔ ان کے آنے جانے‘ ڈیل اور ڈھیل سے ہی پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ پن کی نہج کو پہنچ چکا ہے۔ انقلاب جیل کی کال کوٹھری سے تو آ سکتا ہے لیکن مہنگے محلات کے پُرتعیش کمروں میں بیٹھ کر نہیں آ سکتا۔
عوام اس نظام میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ الیکشن میں عوام موروثی سیاستدانوں کو قبول نہیں کریں گے۔ وہ کرسی پر اہل لوگوں کو دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ اگر پڑھے لکھے‘ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو ٹکٹ نہ دیے گئے تو بڑی سیاسی جماعتوں کا صرف نام باقی رہ جائے گا۔ سیاسی جماعتوں کو جماعت اسلامی کے ماڈل سے سیکھنے کی ضرورت ہے‘ وہاں کسی خاندان کی اجاہ داری نہیں ہے۔ حال ہی میں پی ٹی آئی نے بیرسٹر گوہر علی خان کو نگران چیئرمین بنایا ہے‘ یہ بھی خوش آئند فیصلہ ہے۔ لازم نہیں کہ سارے پارٹی اور سیاسی عہدے گھر کے افراد میں بانٹ دیے جائیں‘ کارکنان اور پارٹی ورکرز کو بھی ان کا حق دینا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں پہلے اپنے اندر جمہوریت پیدا کریں‘ بعد میں وہ ملک میں تبدیلی کے بڑے بڑے دعوے کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں