اپریل 2022ء کے بعد سے بہت سے لوگوں میں بددلی پھیل چکی ہے‘ ان کا کہنا ہے کہ اب شاید حالات ایسے ہی رہیں گے اور نظام میں کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔ ایک منتخب حکومت کو جس طرح رخصت کیا گیا‘ وہ سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ کس طرح روایتی سیاسی حریف پی ڈی ایم کے نام پر اتحادی بن گئے اور کیسے مل بانٹ کر حکومت کی‘ یہ سب کے علم میں ہے۔ جس نے بھی اس غیر فطری تبدیلی کے خلاف آواز اٹھائی اس کو اس کی سزا بھگتنا پڑی۔ سیاسی مخالف تو زد میں آئے ہی لیکن جو کچھ صحافیوں کے ساتھ ہوا‘ اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ مگر پھر بھی بولنے والے بول رہے ہیں‘ لکھنے والے لکھ رہے ہیں اور سننے‘ پڑھنے اور دیکھنے والے سب سمجھ رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کا دورِ حکومت جمہوری نظام کیلئے ایک سیاہ دور تھا۔ میں ہمیشہ آمرانہ طرزِ حکومت پر تنقید کرتی آئی ہوں لیکن جب میں نے پی ڈی ایم کا دور دیکھا تو مجھے لگا کہ مشرف کے آمرانہ دور میں پھر بھی تھوڑی بہت آزادی میسر تھی‘ جمہوری آمروں نے تو وہ بھی سلب کر لی۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت‘ انسانی حقوق اور معیشت‘ ہر شے کی عالمی رینکنگ میں ہم بہت نیچے آ گئے ہیں۔
یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ بولنے کی آزادی ہو یا لکھنے کی‘ اب کم ہو گئی ہے جبکہ سیاسی آزادی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ اس ماحول میں ایک گھٹن سی محسوس ہو رہی ہے جس کے سبب چہار سو مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ چند حالیہ سرویز میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ عوام بالخصوص نوجوانوں کی اکثریت سسٹم سے متنفر اور انتخابات سے ناامید ہو چکی ہے۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی رائے اس نظام میں مؤثر ثابت نہیں ہوتی۔ یہ نظام بھی ویسے بہت عجیب ہے‘ ہر تین‘ چار سال بعد اپنا لاڈلا تبدیل کر لیتا ہے اور پرانے کو کالا پانی کی سزا پر بھیج دیا جاتا ہے۔ نظام کے ساتھ دوستی کی مدت بس تین سال ہی ہے‘ اس سے زیادہ ہم نے کسی کی دوستی چلتے نہیں دیکھی۔
اب ایک پارٹی‘ جس کا انتخابی نشان اس سے چھین لیا گیا ہے‘ کے ووٹرز یقینا پریشانی کا شکار ہوں گے‘ کس حلقے میں کون سا امیدوار کس نشان پر الیکشن لڑ رہا ہے‘ یہ سب جاننا اتنا آسان نہیں ہے۔ دوسری طرف امیدواروں کو ریلی نکالنے یا کارنر میٹنگ تک کرنے کی اجازت نہیں‘ وہ جلسہ نہیں کر سکتے‘ ایسے میں کریں تو کیاکریں۔ ایک دن وہ اپنے پوسٹر‘ بینر لگاتے ہیں مگر اگلے ہی دن ان کے پوسٹر‘ بینر اتار دیے جاتے ہیں۔ کوئی بھی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔ انتظامیہ کہتی ہے کہ وہ اس میں ملوث نہیں‘ وہ سب کو لیول پلینگ فیلڈ مہیا کر رہی ہے‘ نگران حکومتیں کہتی ہیں کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
نظام کے نئے لاڈلے سہولت سے جلسے جلوس اور ریلیاں نکال رہے ہیں‘ سرکاری ٹی وی بھی ان کو بھرپور کوریج دے رہا ہے مگر ان کے جلسے اب سکڑ کر کارنر میٹنگ بن چکے ہیں۔ سازگار پلینگ فیلڈ ملنے کے باوجود ان کے جلسے کامیاب نہیں ہو پا رہے۔ سردی ہو‘ عوام کی عدم دلچسپی یا خوف کی فضا‘ حقیقت یہ ہے کہ عوام اب اس طرح باہر نہیں آ رہے جیسے کبھی آیا کرتے تھے اور اسی سبب انتخابی گہماگہمی ماند نظر آتی ہے۔ شاید عوام بھی اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ یہاں لوگ اقتدار انجوائے کرنے آتے ہیں اور اپنی باری لے کر دوبارہ بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں۔
سولہ ماہ تک پی ڈی ایم کے اتحاد تلے حکومت کا حصہ رہنے والی جماعتیں‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب ایک دوسرے کی اتحادی نہیں رہیں۔ دونوں بڑی جماعتیں‘ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے مدمقابل نظر آ رہی ہیں۔ سیاست کی دوستیاں اور رنجشیں مستقل نہیں ہوتیں۔ کیا پتا کل کو یہ اقتدار کے لیے پھر ایک دوسرے کی اتحادی بن جائیں۔ ابھی تو ایک دوسرے سے الجھ رہی ہیں مگر سب کو پتا ہے کہ الیکشن کے بعد اگر مل کر ان کو حکومت چلانے کا موقع ملا تو یہ پھر اتحادی بن جائیں گی۔ فی الحال تو لفظی وار جاری ہیں۔ جس جماعت کو دیوار کے ساتھ لگایا‘ وہ یہ سارا تماشا دیکھ رہی اور جمہوری انداز سے مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے؛ تاہم اسے جمہوری جدوجہد کے لیے بھی میدان نہیں دیا جا رہا۔
اس وقت سیاسی لیڈر عوام سے ووٹ مانگ رہے ہیں۔ جو لوگ گزشتہ چھ سالوں میں آپ کے پاس نہیں آئے‘ اگر وہ اب آئیں تو ان سے یہ سوال ضرورکرنا کہ وہ پہلے کہاں تھے‘ آپ کے علاقے میں سڑک کیوں ٹوٹی ہوئی ہے‘ سیوریج کا پانی کیوں کھڑا ہو جاتا ہے‘ چوری چکاری اور راہزنی کی وارداتوں میں کیوں اضافہ ہوا ہے‘ ان چھ سالوں میں عوام اتنے بدحال کیوں ہو گئے ہیں۔ موجودہ حالات میں 'ووٹ کو عزت دو‘ کا بیانیہ دفن ہو کر رہ گیا ہے۔ اب سب کو اندازہ ہو گیا ہے کہ یہ صرف اقتدار کی جنگ ہے جس کو کچھ لوگ ہر قیمت پر جیتنا چاہتے ہیں۔
گزشتہ دو‘ ڈھائی سال میں ملک کے ساتھ جو ہوا‘ سب کے سامنے ہیں۔ معیشت کو کتنا نقصان پہنچا‘ عام آدمی پہ کیا گزری‘ سب جانتے ہیں۔ جس ملک میں سیاسی نظام تسلسل سے نہ چل پائے‘ وہاں کے معاشی حالات بھی بگڑ جاتے ہیں۔ ہم آئی ایم ایف کے قرضوں سے اپنی معیشت کو چلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور قومی اثاثے تک گروی رکھ چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہی نگران حکومت نے پہلے عوام پر پٹرول بم چلایا‘ پھر بجلی مہنگی کرکے ان پر ضرب لگائی‘ اب گیس مزید مہنگی کرنے کا فیصلہ آنے والا ہے۔ عوام پوچھتے ہیں کہ جب ہماری آمدنی میں ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں ہوا تو یہ مہنگی بجلی اور پٹرول‘ گیس کیسے خریدیں۔ مہنگائی اور ملکی سیاسی افق پر چھائی بے یقینی نے عوام کو پریشانی و اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے مگر اشرافیہ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ وہ اپنی اپنی اَنا کی تسکین میں مصروف ہیں۔
اب ووٹ کو عزت صرف عوام ہی دے سکتے ہیں۔ کل ملک بھر میں انتخابات ہو رہے ہیں‘ سب لوگ گھروں سے نکلیں اور ووٹ کاسٹ کریں۔ جس کو بھی بہتر سمجھتے ہیں‘ اس کو ووٹ دیں مگر ووٹ ضرور دیں اور اپنے ووٹ کے ذریعے اس ملک کو موروثیت اور آمریت سے پاک کریں۔ ووٹ دیتے وقت اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھیں کہ جس کو آپ ووٹ دے رہے ہیں‘ وہ ملک کی خدمت کرے گا اور کرپشن نہیں کرے گا۔ اگر ایسے امیدواروں کو منتخب کرکے اسمبلی میں بھیجیں گے تو یقینا اس ملک کی قسمت سنور جائے گی۔ جو لوگ کئی کئی باریاں لینے کے باوجود کچھ نہیں کر سکے‘ ان سے کوئی بھی امید رکھنا فضول ہے‘ جو پہلے کچھ نہیں کر پائے‘ وہ آگے کیا تیر مار لیں گے۔ جو لوگ بھی اس وقت مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہیں کہ ہمارا ایک ووٹ کیا فرق ڈالے گا‘ تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ قطرہ قطرہ ہی سمندر بنتا ہے۔ اس لیے انتخابی عمل میں ایک ایک ووٹ بہت بھاری ہوتا ہے۔ آپ اپنا فرض ادا کریں اور نتیجہ خدا پر چھوڑ دیں۔
اس وقت ہر گھر‘ ہر محفل اور ہر بازار میں سیاسی مباحثے ہو رہے ہیں۔ یہ بات ملحوظِ خاطر رکھیں کہ تمیز و تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ سیاسی لیڈروں کی خاطر آپس کے تعلقات خراب نہ کریں‘ مشکل وقت میں کوئی سیاسی رہنما نہیں‘ یہی لوگ آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے‘ اس لیے سیاسی وابستگی کے سبب اپنے پیاروں کے ساتھ بدتمیزی نہ کریں۔ سیاست سے نفرت‘ انتقام اور بدتہذیبی کا کلچر ختم ہونا چاہیے‘ اس نے جمہوریت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ الیکشن خیر و عافیت سے ہو جائیں گے۔ ووٹ کو عزت دو اور آٹھ فروری کو ووٹ دو تاکہ اچھے لوگ اس ملک کے نظام میں شامل ہو سکیں۔