"KMK" (space) message & send to 7575

شجاعباد پر ایک اور کالم

چوراسی سالہ نگران وزیراعظم ہونے کا بظاہر کوئی فائدہ نظر نہیں آتا مگر بقول چودھری بھکن ہر کام میں بہرحال کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے اور جناب کھوسو صاحب کے معاملے پر یہ نعمت قوم کو میسر آئی ہے کہ وہ غیرجانبدار ہوں یا نہ ہوں مگر اپنی عمر کے باعث پیدا ہونے والی اعصابی اور جسمانی کمزوری کے باعث آلتو فالتو بیانات جاری کرنے سے عاری ہیں۔ لہٰذا قوم کو ان کی غیرجانبداری پر یقین کرتے ہوئے امید رکھنی چاہیے کہ وہ آزاد اور منصفانہ انتخابات کروا دیں گے۔ چودھری بھکن کا خیال ہے کہ اوپر والوں سے دو کام بہت اچھے ہوئے ہیں اور باقی کا م نامناسب انداز میں انجام پذیر ہوئے ہیں۔ ایک چیف الیکشن کمشنر کا تقرر اور دوسری نگران وزیراعظم کی سلیکشن اچھے کاموں میں شمار ہوسکتی ہے اور باقی نگران وزرا وغیرہ کا انتخاب نامناسب طریقے سے ہوا ہے۔ چودھری کا کہنا ہے ایسے کاموں کے لیے منتخب ہونے والوں کے لیے بنیادی شرط یہ ہونی چاہیے تھی کہ اس شخص کی عمر کسی طرح بھی اسی سال سے کم نہ ہو اور اگر چوراسی پچاسی کے لگ بھگ ہو تو پھر یہ سونے پہ سہاگے کے مترادف ہوگا۔ ویسے تو پوری ہی نگران کابینہ چندے آفتاب چندے ماہتاب ہے مگر بعض ٹھیکیداروں نے ’’صداقت اور امانت‘‘ کا سارا مفہوم ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب تک کی کارکردگی کو سامنے رکھیں تو نگران کابینہ کا ہونا نہ ہونا برابر ہے مگر کیونکہ یہ ایک آئینی ضرورت تھی لہٰذا اسے پورا کرنے کیلئے ایسے ایسے نابغے اکٹھے کیے گئے ہیں کہ میرٹ اپنی موت آپ مر گیا ہے۔ وزیرداخلہ نے اور تو کچھ نہیں کیا مگر قبلہ رحمان ملک کی کمی پوری کرنے کی غرض سے بلا سوچے سمجھے بیان جاری کرکے ان کی نہ صرف کمی پوری کردی ہے بلکہ ان سے محبت کرنے والوں کو یہ پیغام بھجوا دیا ہے کہ وزارت داخلہ کی کرسی پررحمان ملک نہ سہی ان کے صحیح روحانی جانشین فروکش ہیں۔ اب چاہے وہ اپنے بیان کے بارے میں کچھ بھی کہیں حقیقت یہ ہے کہ وہ غیرجانبداری کے مرتبے سے یکسر محروم ہوچکے ہیں اور بطور نگران وزیر داخلہ وہ اس وزارت پر براجمان رہنے کا منطقی جواز مکمل طور پر کھو چکے ہیں۔ اب یہ محض بقایا ایک ماہ کی وزارت ہے اور اس کے بعد موصوف دوبارہ گمنامی کی دھول میں گم ہوجائیں گے۔ انہیں چاہیے تھا کہ وہ مستعفی ہوجاتے۔ اس طرح وہ ایک ماہ سے کہیں زیادہ عرصہ یاد رہتے مگر ملک عزیز میں کوئی عارضی پٹواری لگ جائے تو گھر نہیں جانا چاہتا یہ تو پھر وزارت ہے اور آجکل جو حساب چل رہا ہے ممکن ہے موجودہ نگران وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ اور بقیہ عام تام وزیروں کو بھی تاحیات پروٹوکول، نوکروں، سہولتوں اور اسلحہ لائسنس جاری کرنے کی سہولت عطا فرما دی جائے۔ یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کچھ بھی ہوسکتا ہے سے یاد آیا کہ جنوبی پنجاب کی سیاست اسی نظریے پر قائم ہے۔ ویسے تو یہ فارمولا پورے پاکستان پر لاگو ہوتا ہے اور تقریباً ہر جگہ کے ELECTABLES انتخابی نشان جاری ہونے تک خوب سے خوب تر کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں مگر جنوبی پنجاب میں دوڑ زیادہ زور و شور سے جاری ہے اور شجاعباد جو پہلے بھی اس سلسلے میں ریکارڈ ہولڈر ہے اور اس کا نام سیاسی لوٹا سازی میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہونے کے لائق ہے ،اس بار بھی وہاں وہی کچھ ہورہا ہے جو اس کی خصوصیت ہے۔ شجاعباد اور جلال پور پیروالہ میں قومی اسمبلی کی دو نشستیں این اے 152 اور این اے 153 ہیں۔ ہر الیکشن میں یہاں سے لڑنے والے امیدوار تقریباً وہی ہوتے ہیں مگر شرطیہ طور پر ہر بار نئی سیاسی پارٹی کی جانب سے الیکشن لڑتے ہیں۔ شجاعبادیوں کے بارے میں قبلہ شاہ جی کا فرمانا ہے کہ یہ دوپہر کو وعدہ کسی ایک سے کرتے ہیں، شام کو دعائے خیر کسی دوسرے سے کرتے ہیں اور صبح تیسری پارٹی کے انتخابی کیمپ پر کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ یہ ضرورتاً نہیں کرتے بعض اوقات صرف عادتاً کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو لوگوں کو ان کے شجاعبادی ہونے میں شکوک و شبہات پیدا ہوجائیں گے۔ وہ محض لوگوں کے دل میں پیدا ہونے والی متوقع حیرانی اور پریشانی کو رد کرنے کی غرض سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں۔ حلقہ این اے 152 میں پیپلزپارٹی کی طرف سے احمد مجتبیٰ گیلانی عرف ’’مجو سائیں‘‘ امیدوار ہے ۔سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے برادر خورد نے گزشتہ ضمنی انتخابات میں ساتھ والے حلقہ این اے 153 کے نیچے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 206 سے الیکشن جیتا تھا۔ یہ سیٹ جعلی ڈگری کیس میں نااہل ہونے والی ق لیگ کی ممبر صوبائی اسمبلی نغمہ مشتاق لانگ کی نااہلی پر خالی ہوئی تھی اور اس سیٹ پر دوبارہ ن لیگ کی حمایت یافتہ امیدوار تھی مگر ن لیگ کی منافقت کے باعث ہار گئی۔ نغمہ مشتاق اب دوبارہ اپنے آبائی حلقہ پی پی 205 سے ن لیگ کی امیدوار ہے اور اس کے اوپر این اے 153 پر دیوان عاشق بخاری ن لیگ کا امیدوار ہے۔ گزشتہ انتخابات میں دیوان عاشق بخاری ق لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوا۔ سارا عرصہ پیپلزپارٹی اور سید یوسف رضا گیلانی کے ساتھ گہرے مراسم رہے اور اب شجاعباد روایت کے مطابق ن لیگ کے امیدوار ہیں۔ قومی اسمبلی کی اس نشست پر ن لیگ کے امیدوار دیوان عاشق بخاری اوراس کے نیچے صوبائی حلقہ پر ن لیگ کی امیدوار نغمہ مشتاق لانگ دونوں کا نام جعلی ڈگری ہولڈرز میں آتا ہے۔ دیوان عاشق کے پاس شاہ عبداللطیف یونیورسٹی سندھ اور نغمہ مشتاق لانگ کے پاس کوئٹہ یونیورسٹی کی سند ہے مگر دونوں نہایت خوش قسمت ہیں کہ باسٹھ اور تریسٹھ پر پورا اترتے ہیں اور صادق و امین ہیں۔ نغمہ مشتاق کی صداقت اور امانت کا وہ گواہ میرا جاننے والا ہے جس نے نغمہ مشتاق کو کوئٹہ سے ڈگری لے کر دی تھی۔ حلقہ این اے 152 میں پیپلزپارٹی کا موجودہ امیدوار مجو سائیں اس حلقہ سے پہلی بار الیکشن لڑ رہا ہے۔ اس سے پہلے اس حلقہ سے ان کا بھانجا اسد مرتضیٰ گیلانی 2002ء میں پیپلزپارٹی کی جانب سے جیتا تھامگر حسب روایت پیٹریاٹ میں چلا گیا اور وہاں سے گھوم پھر کر 2008ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کا امیدوار بنا اور ہارا۔ پیپلزپارٹی کا جیتا ہوا سابقہ ایم این اے اب مسلم لیگ ن کے ساتھ ہے۔ 2002 ء میں موصوف ق لیگ میں تھے اور 2008ء میں پیپلزپارٹی کے ساتھ تھے۔ مسلم لیگ کا امیدوار 2002ء میں مسلم لیگ ن میں تھا۔ 2008ء میں ق لیگ کا امیدوار تھا اور ابھی تک ق لیگ کی ’’سینیٹری‘‘ سے لطف اندوز ہورہا ہے۔ اب ن لیگ کا امیدوار ہے۔ قارئین آپ یقیناً پریشان ہوگئے ہونگے مگر خدا شاہد ہے میرا مقصد آپ کو پریشان کرنا نہیں تھا صرف صورتحال سے آگاہ کرنا تھا۔ اب اگر آپ پریشان ہورہے ہیں تو میرا یا آپ کا نہیں شجاعبادی سیاستدانوں کا قصور ہے۔ مگر وہ بھی کیا کریں ان کا خمیر ہی چکنا واقع ہوا ہے۔ تحریک انصاف کا حلقہ 152 سے امیدوار ابراہیم خان ملتان کے قومی اسمبلی کے چھ حلقوں میں پی ٹی آئی کا شاید سب سے مضبوط امیدوار تصور کیا جارہا تھا اور یہ واحد نشست تھی جس پر تحریک انصاف کی جیت کے امکانات نہ صرف روشن تھے بلکہ جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی سے زیادہ بہتر تھے۔ شنید ہے وہ ن لیگ کو پیارا ہوگیا ہے۔ ممکن ہے کالم کے چھپنے تک وہ دوسری طرف جا چکا ہو مگر اس کا سارا دارومدار جاوید علی شاہ پر ہے کہ وہ ن لیگ سے الیکشن لڑتا ہے یا اس کا بھائی آزاد صوبائی اسمبلی پر لڑتا ہے ۔اگر اس کا بھائی دستبردار نہ ہوا تو وہ خود بیٹھ جائے گا اور اس حلقہ این اے 152 پر ابراہیم خان ن لیگ کا امیدوار ہوگا۔ مگر میں اس میں اس کو مکمل طور پر بے قصور سمجھتا ہوں کیوں کہ یہ بات شاید اس کے بس میں نہیں تھی کہ اسی پارٹی سے الیکشن لڑے جس کی طرف سے وہ پچھلے کچھ عرصے سے کام کررہا تھا۔ شجاعبادیوں کا یہ سیاسی نہیں بلکہ جینیٹک (Genetic) مسئلہ ہے اور جنیاتی سائنس کے مطابق انسان اپنی جنیاتی کمزوریوں پر قابو نہیں پاسکتا۔ یہ اس کی جبلت کا حصہ ہوتی ہیں اور جبلت تبدیل کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ پس تحریر:جلال پور حلقہ این اے 153 سے دیوان عاشق ، پی پی 205 اور پی پی 206 سے مہدی عباس لنگاہ ، نغمہ مشتاق لانگ ، سب جاوید علی شاہ کے لیے اکٹھے ہوگئے ہیں۔تمام کوششوں کے باوجود مسلم لیگ ن میں فی الحال ابراہیم خان کی جگہ نہیں بن پائی۔یہ اب تک کی صورت حال ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں