"KMK" (space) message & send to 7575

ایک خوشگوار سفر کی روئیداد

پھر امریکہ کا سفر درپیش تھا۔ میں سفر کو ضرورت سے زیادہ آسان لیتا ہوں۔ امریکہ یا برطانیہ جانا ہو تو آخری دن افراتفری میں سامان اکٹھا کرتا ہوں۔ میری اس عادت سے آگاہ میری اہلیہ میری ضرورت کی تمام چھوٹی چھوٹی اشیا میری روانگی سے کئی روز قبل کسی ایک بیگ میں ڈالنا شروع کردیتی تھی۔ اسے پتہ تھا کہ میں اپنی لاپروائی سے قطعاً دستبردار نہ ہوں گا اور معاملہ ہر حال میں آخری دن پر آن پڑے گا۔ نیل کٹر، میری دوائیاں، میری ایک فالتو عینک، پین، سیاہی دوات، بنیانیں، جرابیں، پرفیوم اور اسی قسم کا اور سامان اور ایک دو جوڑے شلوار قمیض جس کی شلوار میں ازار بند ڈالا گیا ہو مجھے تیار ملتے تھے۔ پینٹ شرٹ وغیرہ میری بیٹیاں منتخب کرنے کے بعد استری کرکے دے دیتی تھیں لہٰذا مجھے سوائے دو چار ہدایتیں جاری کرنے کے اور کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر میں یہ دو چار ہدایتیں بھی جاری نہ کروں تو کوئی خاص فرق نہ پڑے گا؛ تاہم اس طرح میں تھوڑا مطمئن رہتا ہوں کہ میں نے بھی کوئی کام کیا ہے۔ ہاں یاد آیا اس سارے سامان کو میں خود پیک کرتا ہوں اور اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ میں کم از کم پیکنگ بہت اچھی کرلیتا ہوں اور دوسری یہ کہ مجھے یہ پتا ہوتا ہے کہ کون سی چیز کہاں رکھی ہے۔ اس بار معاملہ مختلف تھا۔ مجھے سب کچھ خود کرنا تھا۔ میں نے آخری روز حسبِ معمول افراتفری میں سب کچھ بڑے دھیان اور سلیقے سے کرنے کی کوشش کی اور اپنے تئیں کامیاب بھی رہا۔ اب امریکہ آ کر پتہ چلا ہے کہ ازار بند لانا بھول گیا ہوں۔ جرابیں یہاں سے خریدی ہیں۔ کچھ دوائیں کل بڑی مشکل سے حاصل کی ہیں ابھی ایک دو روز میں مزید انکشافات ہوں گے کہ میں کیا کچھ گھر بھول آیا ہوں۔ امریکہ کا سفر واحد سفر ہے جو میرے لیے زیادہ خوشگوار نہیں ہوتا۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہ سفر بڑا طویل ہے۔ تقریباً سترہ اٹھارہ گھنٹے طیارے میں بیٹھے رہنا صبر آزما کام ہے۔ میں اس سارے سفر میں سویا رہتا یا سیٹوں کے درمیان راہداری میں چلتا پھرتا رہتا ہوں مگر سترہ گھنٹوں میں ان دو کاموں کی یکسانیت سے تنگ آجاتا ہوں؛ تاہم اس بار یقین تھا کہ بوریت کافی کم ہوگی کہ میرے ہمسفر انور مسعود تھے۔ مجھے اور انور مسعود کو ہیلپنگ ہینڈ فار ریلیف اینڈ ڈویلپمنٹ امریکہ اور اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ (ICNA) نے اپنے مشاعروں میں مدعو کیا تھا۔ ’’اِکنا‘‘ امریکہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ امریکی ریاست کنیکٹی کٹ کے شہر ہاٹفورڈ میں اس کا اڑتیسواں سالانہ کنونشن تھا جس میں انہوں نے ایک مشاعرے کا اہتمام کیا تھا۔ چار مقامی شعرا تھے اور پاکستان سے ’’مسعودین‘‘ کو خاص طور پر بلایا گیا تھا۔ انور مسعود کے ساتھ سفر بیک وقت مزیدار اور تنگی والا معاملہ ہے۔ مزیدار اس طرح کہ انور مسعود خوشگوار طبیعت سے بھرپور شخصیت کا نام ہے۔ جملے بازی‘ بات سے بات نکالنا اور الفاظ کے ہیر پھیر سے نئے مفہوم نکالنا انور مسعود کا خاصہ ہے اور زندہ دلی ان کی شخصیت کا ایک مستقل حصہ ہے۔ تنگی والا معاملہ یوں ہے کہ ان کے ساتھ ہوں تو پانچ منٹ والا کام پچیس منٹ میں ہوگا۔ بیس منٹ اس کے فین اور چاہنے والے خراب کردیں گے۔ جہاں انور مسعود کے فین ان کو تلاش کرتے ہیں وہیں انور مسعود بھی اپنے چاہنے والوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور ان کے بغیر اداس ہوجاتے ہیں۔ لاہور ائیر پورٹ پر روانگی سے قبل میرے دوست چودھری اشرف شاد نے انور مسعود کی محبت میں ہمارا وی آئی پی لائونج میں بیٹھنے کا اہتمام کردیا تھا۔ انور مسعود دس پندرہ منٹ کے اندر ہی اس کی تنہائی سے تنگ آگئے اور اصرار کرنے لگے کہ نیچے جا کر عام لائونج میں بیٹھتے ہیں۔ میں نے ہنس کر کہا کہ انور صاحب! اگلے سترہ اٹھارہ گھنٹے ہم نے انہی لوگوں کے ساتھ ایک جہاز میں گزارنے ہیں۔ آپ بے فکر رہیں۔ آپ کی ان لوگوں سے ملنے کی حسرت اچھی طرح پوری ہوجائے گی۔ تھوڑی دیر بعد جدہ کی فلائٹ انائونس ہوئی۔ انور صاحب نے بیگ اٹھا کر چلنے کی تیار کرلی۔ میں نے کہا یہ نیویارک کی نہیں جدے کی پرواز کا اعلان ہے۔ انور مسعود بادل نخواستہ بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد شاہین ائیر لائن کی روانگی کا اعلان ہوا۔ انور مسعود پھر بیگ اٹھا کر تیار ہوگئے۔ میں نے کہا کہ انور صاحب یہ شاہین ائیر لائن کا اعلان ہوا ہے۔ انور مسعود نے مجھے دیکھ کر سر ہلایا اور کہنے لگے: ’’توں کوئی چنگی گل نہ کریں‘‘ (تم کوئی اچھی بات نہ کرنا) میں نے ایک ڈیڑھ گھنٹہ انہیں بڑی مشکل سے روکے رکھا ؛تاہم جونہی ہماری پرواز کا اعلان ہوا انور صاحب بیگ اٹھا کر چل پڑے۔ میں نے کہا کہ جناب ابھی بڑا رش ہوگا۔ بڑا جہاز ہے جیٹی Jetty) جہاز میں داخل ہونے کے لیے اس کے ساتھ لگایا گیا متحرک راستہ) ابھی فل ہوگی اور اس میں رش ہوگا مگر انہوں نے جیسے میری بات ہی نہ سنی۔ ہم جیٹی میں تقریباً چھ سات منٹ پھنستے مگر انور صاحب کی وجہ سے یہ مختصر سفر دس بارہ منٹ میں طے ہوا۔ جہاز کے اندر سیٹ تک پہنچنے میں مزید پانچ منٹ لگ گئے۔ پاکستان میں آپ کسی وی آئی پی کے ساتھ ہوں تو دس منٹ کا کام دو منٹ میں ہوجاتا ہے مگر انور مسعود کا معاملہ الٹ ہے۔ ان کا ساتھ ہو تو دس منٹ والا کام ان کے چاہنے والوں کے طفیل بیس پچیس منٹ میں ہوتا ہے۔ میں اور پی آئی اے والے دونوں ہی اپنی دھن کے پکے ہیں۔ نہ میں پی آئی اے میں سفر کرنے سے باز آتا ہوں‘ نہ یہ اپنی عادتوں سے باز آتے ہیں۔ راستے میں سٹیورڈ سے کمبل مانگا تو وہ کمبل لینے گیا اور پھر غائب ہوگیا۔ ایک سے تکیہ مانگا وہ غچہ دے کر گم ہوگیا۔ سٹیورڈ کو بلانے کے لیے گھنٹی بجائی اور لائٹ آن کی مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ حتیٰ کہ میں سو گیا۔ جب گھنٹے بعد سو کر اٹھا تو لائٹ اسی طرح جل رہی تھی۔ ساتھ سے گزرتے ہوئے ایک سٹیورڈ کو بلایا تو پھرتی سے سنی ان سنی کرکے نکل گیا۔ ساتھ والی سیٹ پر نظر ڈالی تو انور صاحب کو غیر حاضر پایا۔ اٹھ کر پیچھے گیا تو انور صاحب ایک ادھیڑ عمر خاتون کے ساتھ نہایت خوشگوار انداز میں خوش گپیاں لگا رہے تھے۔ اٹھارہ گھنٹے کے سفر میں انور مسعود صاحب کو اسی عمر کی مزید سات آٹھ خواتین کے ساتھ محو گفتگو پایا۔ اندازہ ہوا کہ انور مسعود صاحب صرف جوانوں، بوڑھوں اور بچوں ہی میں نہیں بلکہ ادھیڑ عمر خواتین میں بھی بے حد مقبول ہیں۔ اللہ تعالیٰ انور مسعود صاحب کو لمبی زندگی اور صحت عطا فرمائے۔ دُنیا کے ہر اس کونے میں جہاں اردو اور پنجابی سمجھنے والے موجود ہیں‘ انور مسعود کے دیوانے ہیں۔ میں اُنہیں مزاح الیون کا کپتان کہتا ہوں۔ مزاحیہ شاعری ان کی وجہ سے معتبر ہے۔ اگلے پچیس چھبیس دن ہم اکٹھے ہیں اور امریکہ کے طول و عرض میں دس گیارہ مشاعرے پڑھنے ہیں۔ پہلا مشاعرہ ہاٹفورڈ میں ہے جہاں ’’اِکنا(ICNA)کا کنونشن ہے۔ اس کنونشن میں شرکت کے لیے امریکہ کے ہر کونے سے ہر رنگ و نسل کے تقریباً اکیس ہزار مسلمان آئے ہیں اور ان میں بچے، نوجوان اور بوڑھے‘ غرض ہر عمر کے لوگ ہیں لیکن اس مشاعرے سے پہلے میں نے پنسلوینیا کے قصبے ڈائوننگ ٹائون جانا ہے، جہاں خالد منیر میرا منتظر ہے اور میں اپنے ناراض بلوچ دوست اکرم سے ملنے کا متمنی ہوں۔ وہ حالیہ انتخابات پر بڑا شاکی ہے۔ اگلا کالم اس ملاقات پر ہوگا۔ یہ ایک ایسے سفر کی روئیداد تھی جو ایک خوشگوار ساتھی کے باعث خوشگوار ہوگیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں