"KMK" (space) message & send to 7575

اکرام بلوچ سے ایک اور ملاقات

اس کے لہجے میں افسوس، ملال، رنج، شکوہ اور بے بسی تھی۔ اچھی بات یہ تھی کہ وہ غصے میں نہیں تھا۔ یہ بات نہیں کہ اسے غصہ نہیں آتا مگر وہ مہمانداری کے تقاضوں سے آگاہ شخص ہے۔ اسے علم ہے کہ کہاں غصے پر قابو پانا ہے اس لیے اسے خود پر پورا کنٹرول تھا۔ ہم تقریباً دس ماہ بعد ملے تھے اور اس دوران حالات میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی تھی۔ ناراض بلوچ نوجوانوں کی ایک نسل وہ ہے جو اب صرف علیحدگی چاہتی ہے۔ دوسری ناراض نسل وہ ہے جواب بھی مسائل کا حل چاہتی ہے لیکن آہستہ آہستہ مایوسی اسے پہلی نسل کے قریب ترلے جارہی ہے۔ اکرم بلوچ ایسی دوسری نسل سے تعلق رکھنے والا نوجوان ہے ۔ مجھے اس سے مل کر خوشی ہوتی ہے۔ بلوچستان کے ضلع خاران سے تعلق رکھنے والا اکرم بلوچ پچھلے تیرہ سال سے امریکہ میں ہے۔ اس کا خیال ہی نہیں یقین ہے کہ اگر بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے تو حالات سدھر سکتے ہیں مگر اسے فی الحال امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔ اکرم بلوچ کا ضلع خاران اب دواضلاع میں تقسیم ہوگیا ہے اور اس کا گھر ضلع واشک میں آگیا ہے۔ 2008ء کے انتخابات میں اکرم بلوچ بلوچستان اسمبلی پی پی 47سے امیدوارتھا۔ وہ ناراض اور شاکی ضرور ہے مگر مایوس نہیں۔ اس کے خیال میں بلوچستان کے مسائل کے حل کا پہلا قدم یہ ہے کہ آزاد اور ایماندارانہ الیکشن ہوں۔ وہ اب بھی ’’فیئراینڈ فری‘‘ انتخابات کو بلوچستان کے مسائل کے سیاسی حل کے لیے پہلی کڑی قرار دیتا اور عام علیحدگی پسند بلوچ نوجوان کے برعکس گولی کے بجائے ووٹ کی طاقت پر یقین رکھتا ہے مگر بلوچستان کے حالیہ انتخابات نے اسے دوبارہ اس سلسلے میں سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ وہ 2013ء کے انتخابات میں بھی حصہ لینا چاہتا تھا مگر دوہری شہریت نے اسے انتخابات میں حصہ نہ لینے دیا؛ تاہم وہ اب شکرادا کرتا ہے کہ وہ اس کا حصہ نہیں بنا۔ وہ حالیہ انتخابات کے حوالے سے بہت مایوس تھا۔ اس کا خیال ہے کہ یہ انتخابات ناراض بلوچوں کو پاکستان کے مرکزی سیاسی دھارے میں لانے کے لیے معاون ثابت ہوسکتے تھے اور سردار اختر مینگل اسی جذبے کے ساتھ واپس پاکستان آیا تھا اور پہاڑوں پر چڑھنے والے ناراض بلوچوں کو واپس قومی دھارے میں لانے کے عمل کا آغاز کرسکتا تھا مگر مقتدر قوتوں نے ایک بار پھر اپنی مرضی کے نتائج لینے کے شوق میں ایک سنہری موقع ضائع کردیا ہے۔ اکرم بلوچ سے جب اس سلسلے میں بات ہوئی تو کہنے لگا خالد صاحب ! دور کیا جائیں ؟ آپ صرف ایک بات سے اندازہ لگالیں کہ حالات کس کے کنٹرول میں ہیں۔ آج پچیس تاریخ ہے (یہ ملاقات پچیس مئی کوہوئی تھی ) الیکشن ہوئے چودہ دن ہوچکے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی پینتیس خضدار تین سے امیدوار تھے۔ چودہ دن میں ان کا نتیجہ نہیں آیا۔ اس علاقے میں کوئی لاکھوں ووٹ کاسٹ نہیں ہوتے۔ جوحالات ہیں اس کو مدنظر رکھیں تو نظرآتا ہے کہ یہاں کل ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد پچیس تیس ہزار سے زیادہ نہیں ہوگی مگر چودہ دن میں گنتی مکمل نہیں ہوسکی۔ یہ تو ایک ایسے حلقے کی بات ہے جہاں سردار اختر مینگل خود امیدوار ہے‘ دوسرے کئی حلقے ایسے ہیں جہاں گنتی روکی گئی ہے۔ نتائج دودوبارتبدیل کیے گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مرضی کے نتائج لینے کے لیے کئی پولنگ سٹیشنوں کے نتائج روکے گئے ہیں اور تبدیل کیے گئے ہیں۔ بلوچوں کی اکثریت والے حلقوں میں غیربلوچوں کو کامیاب کروایا گیا۔ کوئی ایک مسئلہ ہوتو بات کریں۔ اکرم کہنے لگا آپ کوئٹہ شہر کو دیکھیں۔ یہاں صوبائی اسمبلی کی چھ نشستیں ہیں۔ ایک نشست پر پنجابی اکثریت ہے‘ ایک پر ہزارہ والوں کی اکثریت ہے‘ دوپر پشتونوں کو فوقیت حاصل ہے جبکہ دو نشستیں بلوچوں کی ہیں مگر اس بار کیا ہوا ہے؟ کوئٹہ کا سارا بلوچ مینڈیٹ غیربلوچوں کے پاس چلا گیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ بلوچ نمائندگی سے محروم ہے۔ ہم بلوچ کوئٹہ شہر میں پارلیمانی نمائندگی سے یکسر فارغ ہیں۔ سٹرسٹھ ہزار ووٹر کے حلقے پی پی چار کوئٹہ سے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کارضا محمد پانچ ہزار تین سو پینتالیس ووٹ لے کر جیت گیا ہے۔ یہ بلوچ اکثریت کا حلقہ ہے جہاں سے پشتون کامیاب قرار پایا ہے۔ اسی طرح پی پی پانچ کوئٹہ بلوچ اکثریت کا علاقہ ہے جہاں کل ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہاں سے بھی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا نصراللہ خان زادہ ساڑھے آٹھ ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوگیا ہے۔ اسی طرح پی پی 40نوشکی سے پہلے سردار آصف شیرجمالدینی تین ہزار نوسو تین ووٹ لے کر کامیاب ہوا۔ سردار آصف کا تعلق نیشنل پارٹی سے ہے۔ دودن بعد آزاد امیدوار میرغلام دستگیر بادینی کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔ بادینی کے پانچ ہزار اکہتر ووٹ نکلے۔ یعنی دودن پہلے کامیاب امیدوار سے گیارہ سواڑسٹھ ووٹ زیادہ نکلے۔ اب بندہ کس رزلٹ پر یقین کرے ؟ اسی طرح این اے 260کوئٹہ، چاغی اور نوشکی پر مشتمل قومی اسمبلی کی نشست ہے یہاں ووٹرز کی تعداد چارلاکھ انتیس ہزار سات سو چورانوے ہے۔ یہاں سے پشتون امیدوار عبدالرحمان مندوخیل تیس ہزار ووٹ لے کر جیت گیا ہے۔ اس الیکشن کے نتیجے سے جو نمائندگی حاصل ہوئی ہے آپ اس کا تصور کریں۔ پی پی اکتالیس آواران میں کل ووٹرز کی تعداد ستاون ہزار ہے اور یہاں سے مسلم لیگ کا امیدوار پانچ سو چوالیس ووٹ لے کر کامیاب ہوگیا ہے۔ کامیاب امیدوار نے کل ووٹوں کا اعشاریہ نوچارفیصد حاصل کیا ہے۔ یعنی ایک فیصد سے بھی کم۔ یہ ضلع بلوچستان لبریشن فرنٹ کے رہنما ڈاکٹر اللہ نذر کا ضلع ہے۔ یہاں نیشنل پارٹی کے امیدوار نے پچانوے ووٹ لیے ہیں۔ اب یہ کس بلوچستان کی نمائندگی ہے؟ کیا یہ منتخب نمائندے بلوچ عوام کی نمائندگی کرتے ہیں؟ اللہ نذر کے حلقے میں انتخابات پر یقین کرنے والوں کی تعداد کتنی ہے؟ اور ان میں کل ڈالے جانے والے ووٹ کل ووٹوں کا محض ایک اعشاریہ آٹھ فیصد ہے۔ پی پی پچاس کیچ تین میں کل ووٹرز کی تعداد انسٹھ ہزار سے زائد ہے یہاں سے نیشنل پارٹی کا اکرم بلوچ ایک ہزارتین سواکتیس ووٹ لے کر کامیاب ہوا۔ دودن بعد مسلم لیگ کا امیدوار اکبر مسکانی ایک ہزار تین سو پچاسی ووٹ لے کر جیت گیا۔ این اے 269 پر پہلے جے یو آئی کے امیدوار کو کامیاب قرار دیا‘ پھر دوپولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ ووٹ ڈالے گئے۔ یہ دونوں پولنگ سٹیشن زغری کے علاقے میں تھے جہاں ذکری فرقے کے لوگ رہتے ہیں لہٰذا جمعیت العلمائے اسلام کے مولوی صاحب کوووٹ نہ ملے اور وہ بیالیس ووٹوں کے فرق سے اکیس مئی کو ہار گئے اور عبدالروف مینگل جیت گیا مگر چھبیس مئی کو دوبارہ قمرالدین جے یو آئی کی فتح کا اعلان ہوگیا۔ سارے بلوچستان کا انتخابی عمل دھاندلی، زور آوری، ایجنسیوں کی پلاننگ اور مقتدر حلقوں کی ہدایات کے طفیل ایک مذاق سے بڑھ کر اور کچھ نہیں اور اس نے جیسے انتخابی عمل پر بھروسہ کرنے والے کو نہ صرف ازحد مایوس کیا ہے بلکہ اس کا اعتماد ہی ختم کردیا ہے۔ میں نے پوچھا اکرم بلوچ اس کا حل کیا ہے ؟ وہ کہنے لگا بلوچ قوم پرستوں کو میاں نواز شریف پر کچھ نہ کچھ اعتماد ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میاں نواز شریف بلوچستان کے مسئلے پر سنجیدہ بھی ہیں اور اسے حل کرنے کے لیے کوشاں بھی ہیں۔ فوری حل تو یہ ہے کہ بلوچستان اسمبلی توڑدی جائے اور سول حکومت اپنے تمام تراختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے ’’فری اینڈ فیئر‘‘ الیکشن کروائے۔ میں نے کہا یہ ایک مشکل قدم ہوگا۔ اکرم کہنے لگا بڑی خرابیوں سے بچنے کے لیے بہرحال مشکل قدم تواٹھانے پڑتے ہیں۔ اگرآج یہ مشکل قدم نہ اٹھائے گئے تو آئندہ کے متوقع نقصانات کا شاید صحیح اندازہ نہیں ہے۔ ہمارا کام تو صرف آپ کو بتانا تھا آگے آپ کی مرضی!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں