"KMK" (space) message & send to 7575

اُمیدیں

’’اگر میں چاہتا تو کورٹ نمبر ایک کے بہت کیس لے سکتا تھا۔ ایک وکیل کے لیے سپریم کورٹ میں کورٹ روم نمبرایک میں پیش ہونا محض فیس وصول کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ اس پیشے میں عزت اور کمال کی حد ہے۔ ہروکیل کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کورٹ روم نمبر ایک میں چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے پیش ہو۔ جب تین نومبر 2007ء کو عبدالحمید ڈوگر نے چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالا، میں نے (اُن کے پی سی او کے تحت عہدہ سنبھالنے کے باعث) یہ اصولی فیصلہ کیا کہ میں ڈوگر کورٹ میں پیش نہیں ہوں گا۔ اس دوران اگرمیرے کسی موکل کا کیس ڈوگر کورٹ میں لگا تو میں نے اپنے اس موکل کی وصول کی ہوئی فیس کا چیک بناکر واپس کردیا۔ نومبر 2007ء سے مارچ 2009ء تک ایک سال چار ماہ اور پھر بائیس مارچ 2009ء سے آج تک صرف دومقدمات میں کورٹ روم نمبر ایک میں پیش ہوا ہوں۔ ایک ذوالفقار علی بھٹو کے کیس میں اور دوسرا سید یوسف رضا گیلانی کے کیس میں۔ وکیل کے طورپر میں نے اس سلسلے میں بڑا ایثار کیا ہے۔ میں پچھلے ساڑھے پانچ سال سے سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر ایک میں صرف دوبار پیش ہوا ہوں۔ اگر میں چاہتا تو چیف جسٹس کے سامنے پیش ہوکر ان گنت کیس لے سکتا تھا۔ بے شمار موکل پیسے لے کر میرے پیچھے پھرتے رہے مگر میں نے اپنے اصولوں کے باعث خود پر پابندی لگائے رکھی اور بہت زیادہ مالی نقصان برداشت کیا‘‘۔ میں خاموش بیٹھا تھا۔ اصولی موقف پر چودھری اعتزاز احسن سے سوال ہوسکتا تھا کہ آپ ایک عرصے تک فرماتے رہے کہ حکومت کو سوئس حکومت کو خط لکھنا چاہیے مگر گڑھی خدابخش میں اچانک ملنے والی عزت کے بعد آپ کا موقف تبدیل ہوگیا مگر میں خاموش رہا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ گفتگو کا سلسلہ رکے یا اس میں تعطل آئے۔ تاہم محسن ظہیر درمیان میں کبھی کبھی سوال داغ رہا تھا۔ محسن پوچھنے لگا کیا آپ کو وکلا تحریک کی قیادت کرنے پر کبھی پچھتاوا (Regret)محسوس ہوا ہے۔ جواب دیا ’’ہرگز نہیں!۔ مگر وکلاء تحریک کا مقصد پورا نہیں ہوسکا۔ ہم کامیاب ہوئے اور یہ کامیابی فوجی آمر کی شکست اور عوام کی فتح تھی۔ اس تحریک کی اصل کامیابی جمہور کی فتح تھی۔ مگر اس تحریک کا اولین، بنیادی اور اصلی کام جو کرنا چاہیے تھا وہ یہ تھا کہ ماتحت عدلیہ کی اصلاح کی جاتی۔ ماتحت عدلیہ میں بہتری لائی جاتی، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اس تحریک کے حوالے سے ہماری امیدیں پوری نہ ہوسکیں۔ عام آدمی کا ماتحت عدلیہ سے پالا پڑتا ہے اور اس کی اصلاح ضروری تھی۔ میرے اصرار پر بحالی کے فوراً بعد 2009ء میں نیو جوڈیشل پالیسی وضع کروائی گئی مگر اس پر عمل نہ ہوسکا۔ وکلاء تحریک کا بنیادی مقصد پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ سپریم کورٹ میں ہرآدمی نہیں جاسکتا۔ عام آدمی کا واسطہ ماتحت عدالتوں سے پڑتا ہے۔ ماتحت عدالتوں کی اصلاح بڑا اہم کام تھا مگر نہ ہوسکا۔ عدلیہ سے ہماری توقعات اور ہماری امیدیں پوری نہیں ہوئیں‘‘۔ چودھری اعتزاز احسن سپریم کورٹ پر، الیکشن کمیشن پر اور پسندیدہ LITIGANTSپر دل کا غبار نکال رہے تھے۔ شوکت فہمی کافی دیرسے خاموش بیٹھا تھااور مجھے اس کی شکل دیکھ کر اندازہ ہورہاتھا کہ وہ کافی مشکل میں ہے۔ آخر کار اس کی قوت برداشت جواب دے گئی اور اس نے چودھری اعتراز احسن سے سوال کرہی دیا۔ فہمی کہنے لگا ’’چودھری صاحب ! آپ ہر چیز میں خرابی نکال کر کسی نہ کسی کے ذمے ڈال رہے ہیں۔ کیا آپ پیپلزپارٹی کی پانچ سالہ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟ ‘‘۔ چودھری اعتزاز احسن ایک لمحہ خاموش رہنے کے بعد بڑی ڈھیلی سی آواز میں کہنے لگے ’’ہماری حکومت کی کارکردگی کچھ زیادہ اطمینان بخش نہیں تھی‘‘۔ پھر حاضرین کے چہرے دیکھ کر بولے۔ ’’گوکہ ہماری کارکردگی بنیادی حوالوں سے بڑی اچھی رہی مثلاً اٹھارہویں ترمیم کا متفقہ طورپر پاس ہونا جمہوریت کی بہت بڑی فتح ہے مگر کئی حوالوں سے ہماری حکومت کی کارکردگی ٹھیک نہیں تھی۔ میں نے پاکستان سے آتے ہوئے اپنے دفتر میں پچپن سوالا ت پر مشتمل ایک سوالنامہ بنایا ہے جو میرے دفتر والے میرے پیچھے سے ہمارے منتخب ارکان اسمبلی اور ہارنے والے امیدواروں کو بھیج دیں گے۔ اس میں میں نے اپنی حکومت کی کارکردگی اور حالیہ انتخابات میں شکست کی وجوہات اور دھاندلی کے بارے میں سوالات کیے ہیں‘‘۔ ایک سوال کے جواب میں اعتزاز احسن کہنے لگے ’’اب سپریم کورٹ کا امتحان ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ چودھری نثار کی پٹیشن پر دو چیئرمین نیب فارغ کرنے والی سپریم کورٹ خورشید شاہ کی درخواستوں کے ساتھ کیا سلوک کرے گی۔دیکھتے ہیں کہ چیئرمین نیب کی تعیناتی میں خورشید شاہ کو بھی اتنی ہی اہمیت ملتی ہے یا نہیں۔ ہم نے چیف جسٹس کی بحالی کے سلسلے میں جو تحریک چلائی تھی وہ صرف افتخار محمد چودھری کی بحالی کی تحریک نہیں تھی وہ عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کی تحریک تھی مگر ہماری امیدیں اس سلسلے میں پوری نہیں ہوئیں۔ عدلیہ آزاد تو ہے مگر غیرجانبدار نہیں ہے۔ میں اسے جانبدار Activistعدلیہ کہوں گا۔ اس کا ترجمہ ’’جانبدار سریع الحرکتی عدلیہ‘‘ بنتا ہے۔ یہ اپنے پسندیدہ درخواست گزاروں کے معاملے میں بڑی تیزی دکھاتی ہے مگر اب دیکھتے ہیں کہ یہ کیا کرتی ہے اور معاملات کو کس طرح سنبھالتی ہے۔ اب بہت سے لوگوں کا امتحان شروع ہونے والا ہے۔‘‘ اس کے بعد ایک دوست کے سوال کے جواب میں چودھری اعتزازاحسن نے پاکستان کی غلطیاں گنوانی شروع کردیں۔ افغانستان میں مداخلت، بمبئی میں ہونے والے حملے، کشمیر میں دراندازی اور اسی قسم کے کئی دیگر معاملات میں پاکستان کو رگیدنا شروع کردیا۔ میں اب تک خاموش تھا مگر اس بات پر خود سے کیے ہوئے خاموش رہنے کے وعدے پر قائم نہ رہ سکا اور چودھری اعتزازاحسن کو مخاطب کرکے کہا چودھری صاحب ! ذرا ایک واقعہ سن لیں۔ میرے برادرنسبتی کا موٹرسائیکل چوری ہوگیا۔ پولیس پرچہ درج نہیں کررہی تھی۔ ایس پی کوکہہ کر (تب ڈی پی او نہیں ہوتے تھے) پرچے کا آرڈر کروایا۔ تفتیشی افسر ایک اے ایس آئی موقع پر آیا اور سوالات شروع کردیے۔ پوچھنے لگا موٹرسائیکل کہاں کھڑی کی تھی ؟ جواب دیا برآمدے میں۔ کہنے لگا آپ کو کمرے کے اندر کھڑی کرنی چاہیے تھی۔ پھر بولا آپ کو چوری کا کب پتہ چلا۔ جواب دیا کہ جب میں مسجد سے فجر کی نماز پڑھ کر واپس آیا تو دیکھا موٹرسائیکل نہیں تھی۔ کہنے لگا آپ کو مسجد جانے سے پہلے چیک کرنا چاہیے تھا۔ پھر بولا تالا کونسا لگایا تھا ؟ جواب دیا ہینڈل لاک لگایا تھا۔ بڑے افسوس سے بولا آپ نے بڑی غلطی کی۔ آپ کو زنجیری تالا لگانا چاہیے تھا ۔ پھر پوچھنے لگا دروازے میں تالا لگایا تھا؟ جواب دیا صرف کنڈی لگائی تھی۔ تالا تو کبھی نہیں لگایا۔ چچ چچ کر کہنے لگا زمانہ خراب ہے۔ آپ کو اندر سے تالا لگانا چاہیے تھا۔ میں نے زچ ہوکر تفتیشی سے کہا کہ جناب مانا کہ ہماری یہ چار بڑی سنگین غلطیاں ہیں مگر اس بدبخت چور کا بھی کوئی قصور ہے یا وہ بالکل بے گناہ اور معصوم ہے ؟ تو چودھری صاحب ساری غلطیاں صرف پاکستان کی ہیں یا بھارت کی بھی کوئی غلطی یازیادتی ہے؟ سارے شرکاء ہنسنے لگ گئے۔ چودھری صاحب کہنے لگے۔ اچھا تو اب اجازت دیجیے زندگی رہی تو پھر ملیں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں