"KMK" (space) message & send to 7575

سکاٹ لینڈاورجنوبی پنجاب

علی الصبح جب گلاسگو جانے کے لیے گھر سے نکلے تو کڑاکے کی سردی تھی، گھپ اندھیرا تھا اور گاڑی کی ونڈ سکرین پر برف جمی ہوئی تھی۔ رات درجہ حرارت منفی میں تھا۔ فجر کی نماز چھ بجے کے قریب ہوتی ہے، طلوع آفتاب صبح آٹھ بجے ہے، ظہر بارہ بجے سے قبل ہوتی ہے، عصر ڈیڑھ بجے اور مغرب چار بجے سے پہلے ہو جاتی ہے۔ راتیں طویل ہیں اورا بھی مزید لمبی ہوں گی۔ آشٹن سے روانہ ہوئے توصابر رضا گاڑی چلا رہا تھا،وہ انتھک ڈرائیور ہے اوراسے راستے یاد رکھنے کاغیر معمولی ملکہ حاصل ہے۔ برطانیہ میں جہاں ہر شہر سے نکلنے اور داخل ہونے کے درجنوں راستے‘ انٹر چینج اور جنکشن ہیں، لوگ راستہ بتانے والے سٹیلائٹ سے کنٹرول ہونے والی موبائل فون نما ڈیوائس جسے برطانیہ میں Tom Tom (ٹام ٹام) کہتے ہیں سے کام چلاتے ہیں۔اب مختلف سمارٹ فونز میں چند پائونڈ سے راستہ بتانے والی نیویگیشن 'ایپ‘(App) ڈائون لوڈ ہو جاتی ہے اور سامنے سٹینڈ میں لگا ہوا فون نہ صرف آپ کو نقشہ دکھاتے ہوئے رہنمائی کرتا ہے بلکہ'لیلیٰ‘ بہ آواز بلند باقاعدہ ہدایات جاری کرتی رہتی ہے۔ نقشے کی ڈائریکشن کے مطابق ایک خاتون کی آواز آپ کو گائڈ کرتی ہے۔ ہمارے ایک دوست کی بیگم نے اس آواز والی خاتون کا نام لیلیٰ رکھا ہوا ہے۔ صابر رضا نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بتایا کہ رات گلاسگو شہر میں پولیس کا ایک چھوٹا ہیلی کاپٹرپب پر گر گیا ہے۔ پولیس ذرائع یہ نہیں بتا رہے کہ کتنا جانی نقصان ہوا ہے۔کل بلیک فرائیڈے تھا لہٰذا پولیس ابھی لوگوں کو حقیقت نہیں بتا رہی۔ صرف چند لوگوں کے زخمی ہونے کی خبر ہے مگر ایسے مواقع پر یہاں سرکار ایسے ہی کرتی ہے۔ حقیقت کیا ہے؟ شاید کل تک پتا چلے گا۔ 
گلاسگو میں مشاعرہ تھا جوگلاسکو انٹرکلچرل آرٹس گروپ نے منعقد کیا تھا۔اس تنظیم کا صدرشیخ محمد اشرف اس سے قبل بھی مشاعرے اور بڑے پیمانے پرثقافتی اورروایتی دستکاریوں پرایشیا کے فنکاروں اوردستکاروں کے میلے منعقد کرواچکا ہے۔ اس سلسلے میں وہ ایران‘ ترکی‘ عراق‘ افغانستان‘ نیپال ‘ بنگلہ دیش اور بھارت سے ثقافتی طائفے اور دستکاروں کو گلاسگو بلا چکا ہے۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے اشرف کا بچپن گمبٹ (سندھ) میں گزرا ہے۔ وہ ایک فیسٹیول کے سلسلے میں ملتان سے روایتی دستکاروں کو نہ صرف گلاسگو بلا چکا ہے بلکہ یہ دستکار تقریباً تین ماہ گلاسگو میں رہے۔ گلاس کٹ ورک‘ پیپر کٹ ورک‘ کیمل سکن‘ بلیوپاٹری اور ملتانی کروشیا کے ماہردستکاروں کے علاوہ ایک کمہار اپنے ہاتھ سے چلنے والے روایتی ''چاک‘‘ سمیت یہاں آیا اورگوروں کو اپنی فنی مہارت سے ششدرکرگیا۔اس تنظیم کا سیکرٹری ایران سے تعلق رکھنے والا علی سلامتی اور خزانچی ٹام ہیریگن ہے جو سابق پولیس آفیسر ہے۔ مشاعرہ گوتھک طرز تعمیرکے ڈیڑھ سوسال پرانے اورگلاسگو کے خوبصورت ترین شیئر بروک سینٹ گلبرگ چرچ میں تھا۔۔۔ لکڑی کی محرابوں پر کھڑی چھت‘ شیشے پر بنا موزائک‘ کسی ستون یا رکاوٹ کے بغیر وسیع ہال اورخوبصورت سٹیج۔ دل مشاعرے سے پہلے ہی مشاعرہ گاہ دیکھ کرخوش ہوگیا۔ 
گلاسگو سکاٹ لینڈ کا سب سے بڑا شہر ہے۔ عمارتوں کی تعمیر میں پتھرکثرت سے استعمال ہوا ہے۔ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد یہاں رہائش پذیر ہے جوایک اندازے کے مطابق بیس ہزار سے زیادہ ہے۔ پاکستانی نہ صرف گلاسگو بلکہ پورے سکاٹ لینڈ کی سب سے بڑی نسلی اقلیت ہے۔ پاکستانیوں کی زیادہ تعداد سیاسی حوالے سے سکاٹش نیشنل پارٹی سے منسلک ہے؛ تاہم پاکستانی روایتی برطانوی سیاسی پارٹیوں لیبر پارٹی‘ کنزرویٹو پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹک پارٹی سے بھی وابستہ ہیں۔ گلاسگو سٹی کونسل میں آٹھ پاکستانی کونسلر ہیں۔گلاسگوکا موجودہ ممبر پارلیمنٹ انس سرور ہے جو لیبر پارٹی سے تعلق رکھتا ہے۔انس سرورگورنر پنجاب چودھری سرورکا بیٹا ہے اور 2010ء سے برطانوی پارلیمنٹ کا ممبر ہے۔انس سرورگلاسگو سنٹرل کی سیٹ سے منتخب ہوا ہے۔ اسی حلقے سے اس کے والد چودھری سرور 1997ء سے 2010ء تک تیرہ سال برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر رہے ۔وہ برطانوی پارلیمنٹ کے پہلے پاکستانی اور مسلمان منتخب ممبر تھے۔گورنربننے سے پہلے انہوں نے اپنی برطانوی شہریت اگست 2013ء میں چھوڑ دی تھی۔ 
سکاٹ لینڈ میں آج کل سکاٹش نیشنل پارٹی کا کافی زور ہے۔ 1934ء میں قائم ہونے والی یہ سیاسی پارٹی اس وقت اپنے منتخب ارکان پارلیمنٹ اور سٹی کونسل کے ارکان کی تعداد کے لحاظ سے سکاٹ لینڈ کی سب سے بڑی پارٹی ہے اور سکاٹ لینڈ کی آزادی اور خودمختاری کے منشور پر قائم ہے۔ ایلکس سامنڈ (Alex Salmond) سکاٹش نیشنل پارٹی کا لیڈر اور سکاٹش پارلیمنٹ کا فرسٹ منسٹر ہے۔ سکاٹ لینڈ ابتدائی وسطی زمانے(843ء کے لگ بھگ) سے لے کر 1707ء تک آزاد مملکت تھا۔ بعدازاں سکاٹ لینڈ کنگڈم آف گریٹ بریٹن کا حصہ بن گیا۔1801ء میں آئرلینڈ کی شمولیت کے بعد اس کا نام یونائیٹڈ کنگڈم رکھ دیا گیا۔ انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ والوں کے درمیان دشمنی کی تاریخ بڑی قدیم ہے۔ ایڈنبرا‘ گلاسگو اور سب سے بڑھ کرگلاسگوکانواحی قصبہ سٹرلنگ اس سارے عرصے میں میدان جنگ بنا رہا۔انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کی جنگیں عشروں پر نہیں صدیوں پر محیط ہیں۔ سکاٹ لینڈ والے آج بھی برطانیہ کی نسبت خود کو پسماندہ اور نظرانداز تصور کرتے ہیں اور ان کی یہ سوچ کوئی فسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ سکاٹ لینڈ کی موٹرویز بھی انگلینڈ کی نسبت کم لین پر مشتمل ہیں۔ سکاٹ لینڈ والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے علاقائی سمندر ''نارتھ سی‘‘ سے نکلنے والے تیل کی آمدنی میں سے انہیں ان کے جائز حصے سے کم پیسے ملتے ہیں۔ سکاٹش نیشنل پارٹی نے اس سلسلے میں چھ سو صفحات سے زیادہ ضخیم وائٹ پیپر مرتب کیا ہے جو سکاٹ لینڈ کی علیحدگی کی وجوہ اور بعداز آزادی مملکت کے معاملات پر بڑی تفصیل سے مرتب کی گئی دستاویز ہے۔ سکاٹ لینڈ والوں کا معاملہ بھی ہم جنوبی پنجاب والوں جیسا ہے۔ نسبتاً پسماندگی‘ محرومی اور نظرانداز شدہ لوگ۔ سکاٹ لینڈ والوں نے اپنی علیحدگی کے سلسلے میں بڑی جدوجہد کی ہے۔ جنگجو سکاٹش آج تک اپنے آزاد وقتوں کی سنہری یادوں کو بھول نہیں پائے۔ اس دوران برطانیہ نے سکاٹ لینڈ والوں کی قومی شناخت ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ان کی قومی زبان گیلک (Gaelic) پر پابندی لگا دی‘ گیلک بولنے پر سزا کا اطلاق کیا۔ تقریباً ڈیڑھ سو سال تک گیلک بولنا جرم اور قابل تعزیر تھا۔اٹھارہ اگست 2014ء کو سکاٹ لینڈ والے اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ 
آزاد مملکت‘ محکوم سلطنت‘ زبان اور رسم و رواج سے محرومی اور پسماندگی کی صدیوں کے بعد سکاٹ لینڈ کے لوگ اگلے سال اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔اس ساری کا میابی کے پیچھے سکاٹش نیشنل پارٹی ہے اور اس کا لیڈر ایلکس سامنڈ ہے۔ ہم جنوبی پنجاب والوں کے پاس نہ کوئی قومی لیڈر ہے اور نہ مخلص نمائندے۔ ہر پارٹی جھوٹ بول کر ووٹ لیتی ہے اور محض اپنا الو سیدھا کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی علیحدہ صوبے کے لیے مخلص نہیں تھی، اس کا مقصد صرف اور صرف مسلم لیگ ن کو تنگ کرنا تھا۔ رہ گئی ن لیگ تو وہ پہلے دو صوبوں کی گیم کر کے اس علاقے کے عوام کو دھوکہ دے رہی تھی اور اب تو وہ صوبے میں بھی حاکم ہیں اور مرکز میں بھی حکمران، مگر اب نہ انہیں صوبہ بہاولپور یاد ہے اور نہ ہی صوبہ ملتان۔ ادھر ہم ہیں کہ پسماندگی اور محرومی کے سمندر میں ڈبکیاں لے رہے ہیں۔کاش ہمارے پاس بھی کوئی ایلکس سامنڈ ہوتا۔ ہم آزادی نہیں‘ آئین پاکستان میں دی گئی حدود میں رہتے ہوئے صرف اپنا صوبہ مانگ رہے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں