"KMK" (space) message & send to 7575

اسحاق ڈار‘ شیخ رشید‘چودھری بھکن اورریاض کانٹے والے کی پھپھو

چودھری بھکن کا معاملہ تقریباً تقریباً ریاض کانٹے والے کی پھپھو جیسا ہے۔ ویسے تو چودھری پیدائشی تماش بین ہے مگر اس بار معاملہ ذرا اور قسم کے تماشے کا ہے۔ لیکن پہلے آپ کو ریاض کانٹے والے کی پھپھو کا واقعہ سنا دیا جائے تو بہتر ہے۔ اس سے آپ کو معاملہ ذرا بہتر طور پر سمجھ آ جائے گا۔ ریاض کانٹے والا ریلوے میں کانٹے والا تھا۔ کانٹے والے کو ٹیکنیکل زبان میں کیا کہتے ہیں، مجھے پتہ نہیں؛ تاہم اتنا پتا ہے کہ کانٹے والے کا کام بڑا اہم ہوتا ہے۔ ریلوے میں ٹرین کے لیے بچھائی جانے والی پٹری جسے ریلوے لائن کہتے ہیں بڑی گنجلک ہوتی ہے اور ریل گاڑی کا راستہ بدلنے کے لیے‘ ایک لائن سے دوسری لائن پر جانے کے لیے ریل گاڑی کوعام بسوں یا ٹرکوں کی مانند سٹیرنگ موڑکر ایک سڑک سے دوسری سڑک پر لے جانے جیسے اختیار کی سہولت میسر نہیں ہے۔ ریل گاڑی کو ایک لائن سے دوسری پر منتقل کرنا کانٹے والے کا کام ہے۔ ریلوے انجن کے ڈرائیورکے پاس ازخود لائن تبدیل کرنے کا نہ تو اختیار ہے اور نہ اس کے پاس انجن میں کوئی ایسا کل پرزہ ہے۔ کانٹے والا چھوٹے سٹیشنوں پر یا ریلوے کراسنگ پر اونچے سے ٹھڑے پر لگے ہوئے کانٹے کے ذریعے اور بڑے سٹیشنوں پر پلیٹ فارم کے دونوں طرف بنے ہوئے ایک اونچے سے شیشوں والے کیبن میں لگے ہوئے کافی سارے کانٹوں کے ذریعے سٹیشن میں داخل ہونے والی ریل گاڑی کو میسر خالی پلیٹ فارم کے حساب سے کانٹا بدل کر اس کی مطلوبہ لائن کا تعین کرتا ہے۔ کانٹے والے کی غلطی سے کوئی بھی بڑا حادثہ پیش آ سکتا ہے۔ اس لحاظ سے کانٹے والے کا کام بڑا اہم اور ذمہ داری کا ہے۔ 
ریاض کانٹے والا ایک چھوٹے سے ریلوے سٹیشن پر کانٹا بدلنے پر مامور تھا۔ اس کی سروس اور کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی ترقی کا فیصلہ ہوا اور اس کو ترقی دے کر قریبی بڑے ریلوے سٹیشن پر متعین کرنے کا معاملہ زیر غور تھا۔اس ترقی سے قبل اس کو انٹرویو کے لیے بلایا گیا اور اِدھر اُدھر کے ٹیکنیکل سوالات کے بعد ایک افسر نے اس سے پوچھا کہ اگر وہ دیکھے کہ دو ریل گاڑیاں بالکل آمنے سامنے سے ایک ہی ریلوے لائن پر آ رہی ہیں تو وہ کیا کرے گا؟ یہ ایک بہت ہی آسان سوال تھا بلکہ سوال کیا احمقانہ سوال تھا۔ ریاض کانٹے والا پچھلے پندرہ بیس سال سے یہی کام کر رہا تھا۔اس سوال کا جواب تو کوئی نوآموز کانٹے والا بھی دے سکتا تھا۔بہرحال ریاض نے سوال کرنے والے افسر کو نہایت سنجیدگی سے بتایا کہ وہ فوری طور پر کانٹا بدل دے گا اور دونوں میں سے کسی ایک گاڑی کوکسی دوسری خالی ریلوے لائن پر منتقل کردے گا۔ سوال کرنے والے افسر نے ستائشی انداز میں سر ہلایا، لیکن ا بھی اس کی تسلی نہیں ہوئی تھی۔ پھر پوچھنے لگا کہ اگر کانٹا جام ہو جائے یا اورکوئی مسئلہ بن جائے اور وہ کانٹا نہ بدل سکے تو پھرکیا کرے گا؟ ریاض کہنے لگا کہ وہ کیبن میں موجود سرخ جھنڈی لہرائے گا۔ سرخ جھنڈی لہرانے کا مطلب یہ ہے کہ گاڑی آگے نہیں جا سکتی لہٰذا اسے روکا جائے۔ افسر نے پھر سر ہلایا اورایک اورسوال داغ دیا کہ اگر اس کے پاس جھنڈی نہ ہو تو وہ کیا کرے گا؟ریاض کے لیے یہ سوال ہضم کرنا مشکل تھا، وہ کہنے لگا سر جی! کانٹے والے کے پاس جھنڈی کیسے نہیں ہوگی؟ وہ کانٹے والا ہی کیسا ہے جس کے پاس جھنڈی نہ ہو۔ افسر کہنے لگا یہ ایک مفروضہ ہے، بدترین صورتحال کا اندازہ کرنے کے لیے۔ تمہاری کارکردگی‘ سمجھداری‘ عقلمندی اورحاضردماغی ماپنے کے لیے، محض ایک مفروضہ،اس کے امکانات معدوم ہی سہی مگر ایسا ہونا بالکل ناممکن تو نہیں۔ ایسی صورتحال میں کہ جب کانٹا پھنس جائے اور تبدیل نہ ہو‘ کیبن میں سرخ جھنڈی بھی نہ ہو، تم کیا کرو گے؟ بے یقینی سے سر ہلاتے ہوئے ریاض نے جواب دیا کہ وہ کیبن میں پڑی لالٹین کو اوپر والی کھڑکی میں سے زور زور سے ہلائے گا تاکہ دونوں گاڑیوں کے ڈرائیور اس لالٹین کو‘جوخطرے کی علامت ہے دیکھ کر اپنی اپنی ٹرین روک لیں گے اور اس طرح یہ حادثہ پیش نہیں آئے گا۔ وہی 
افسر اب کہنے لگا کہ اگر لالٹین میں تیل نہ ہو یا تمہارے پاس ماچس نہ ہوتوتم کیا کرو گے؟ ریاض اب باقاعدہ اس کٹ حجتی سے تنگ آ چکا تھا اور اس سوال در سوال سے اس کا دماغ گھومنے لگاتھا، کہنے لگا، جناب عالی! یہ کیسے ممکن ہے کہ لالٹین میں تیل نہ ہو۔ سپاہی جنگ پر جائے اور اس کی بندوق میں گولیاں نہ ہوں۔ یہ کسی کانٹے والے کے لیے ناقابل تصور ہے کہ اس کی لالٹین میں تیل نہ ہو۔ رہ گئی بات ماچس کی تو جناب یہ میری جیب میں اب بھی ماچس موجود ہے۔ یہ کہہ کر ا س نے اپنی جیب سے ماچس نکال کر افسر کو دکھائی۔ افسر کہنے لگا بھائی میں نے صرف فرض کیا ہے۔ تم پر الزام نہیں لگایا، تم اسے اپنی ذات پر نہ لو، میں تو تمہاری حاضر دماغی کا اندازہ لگا رہا ہوں۔ یہ ایک بہت اہم اور ذمہ داری کا معاملہ ہے، سینکڑوں جانوں کا معاملہ ہے۔ ریاض کا حال رمضان کی بیوی جیسا ہو چکا تھا جو ایک بار رمضان کے اسی قسم کے لگاتار سوالات سے تنگ آ گئی تھی۔ 
چودھری کہنے لگا کہ رمضان کی بیوی کا کیا معاملہ تھا؟ میں نے کہا چودھری! تیرا بھی کوئی حال نہیں، کسی عورت کا ذکر ہوتو تمہاری سوئی وہیں اٹک جاتی ہے۔ رمضان کی بیوی کا واقعہ پھرکبھی سہی، فی الحال تو ریاض کانٹے والا کا قصہ سن لے۔ بہرحال آخری حد تک تنگ آئے ہوئے ریاض کے پاس اب اور کوئی ذریعہ نہیں تھا کہ وہ ایک ہی ریلوے لائن پر آتی ہوئی دو ریل گاڑیوں کو روک سکتا۔ افسر اپنی فتح پر بڑا خوش تھا لیکن ریاض نے اس کی ساری خوشی اور فخر خاک میں ملا دیا۔ کہنے لگا میں اپنی پھپھوکو بلا کر لے آئوں گا۔ حیران و پریشان افسر پوچھنے لگا،تمہاری پھپھو یہ حادثہ روک لے گی؟ ریاض بڑے اطمینان سے کہنے لگا، سر جی! حادثہ تو وہ نہیں روک سکے گی۔ جھنجھلا کر وہ افسر کہنے لگا تو پھر تمہاری پھپھو کیا کرے گی؟ ریاض نے کہا وہ ایکسیڈنٹ ہوتا دیکھے گی، اسے ریل گاڑی کی ٹکر دیکھنے کا بڑا شوق ہے۔ 
ایک طرف اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ڈالر عنقریب اٹھانوے روپے کا ہو جائے گا، دوسری طرف شیخ رشید کا کہنا ہے کہ اگر ڈالر دوبارہ اٹھانوے روپے کا ہو گیا تو وہ سیاست چھوڑ دے گا۔ چودھری بھکن اب تماشے کے انتظار میں ہے کہ کب ڈالر اٹھانوے روپے کا ہوتا ہے۔ ریاض کانٹے والے کی پھپھو کی طرح اسے کسی سیاست دان کے سیاست چھوڑنے کا منظر دیکھنے کا بڑا شوق ہے۔ دو تین دن پہلے اسحاق ڈار نے اپٹما کے اجلاس میں تقریرکرکے جعلی طور پر لوگوں کودبکایا اور دھمکایا ہے کہ وہ فوری طور پر ڈالر تبدیل کروا لیں ورنہ بعد میں پچھتائیں گے۔ پنجابی میں اس قسم کی جعلی دھمکیوں کے لیے ایک لفظ موجود ہے مگر صد افسوس کہ لکھا نہیں جا سکتا۔ بہرحال شیخ رشید جانے اور اسحاق ڈار یعنی ''جٹ جانے اور بجو جانے‘‘ لیکن میں نے احتیاطاً اپنی دراز میں پڑے ڈیڑھ سو ڈالر تبدیل کروا لیے ہیں۔ میں دس گیارہ روپے فی ڈالر کا نقصان برداشت نہیں کر سکتا ''چیونٹی کے لیے تو پیالی بھی دریا ہوتی ہے‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں