"KMK" (space) message & send to 7575

جامعہ زکریا‘ سرچ کمیٹی‘ میرٹ اور خادم اعلیٰ

ہمہ وقت ناانصافی‘ میرٹ کے قتل‘ اداروں کی بربادی‘ تعلیم کے گرتے ہوئے معیار اور اداروں کے سربراہوں کو اہلیت سے ہٹ کر تعینات کرنے کے خلاف نعرہ زن بلکہ مورچہ زن خادم اعلیٰ نے پنجاب کی جامعات میں رئیس جامعہ یعنی وائس چانسلر کے درست انتخاب اور تعیناتی کے لیے ایک ''سرچ کمیٹی‘‘ بنائی۔ اس معتبر سرچ کمیٹی کے سربراہ سید بابر علی تھے۔ باقی جامعات کے حال کا تو اس عاجز کو علم نہیں کہ وہاں کیا ہوا؛ تاہم بی زیڈ یو یعنی بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کے بارے میں تھوڑا بہت علم ہے کہ وہاں کیا ہوا اور میرٹ کے نام لیوا خادم اعلیٰ کے ہاتھوں میرٹ پر کیا گزری۔ 
اخبارات میں اشتہار کے ذریعے پنجاب کی متعدد جامعات میں وائس چانسلر کے لیے درخواستیں طلب کی گئیں۔ چار پانچ جامعات کے لیے درجنوں امیدواروں نے اپلائی کردیا۔ سید بابر علی‘ سرتاج عزیز‘ جنرل (ر) محمد اکرم اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب پر مشتمل اس سرچ کمیٹی نے ہر یونیورسٹی کے لیے تین تین نام شارٹ لسٹ کر کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو بھجوا دیے۔ جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں مجھے دیگر یونیورسٹیوں کے بارے میں تو علم نہیں وہاں میرٹ کے ساتھ کیا گزری مگر زکریا یونیورسٹی کے معاملات کے بارے میںکچھ نہ کچھ علم ہوتا رہا۔ سرچ کمیٹی نے جامعہ زکریا کے وائس چانسلر کے لیے تین نام شارٹ لسٹ کر کے بھجوا دیے۔ ان تینوں ناموں کے ساتھ ان امیدواروں کی میرٹ کے لحاظ سے درجہ بندی بھی کردی گئی اور یہ تینوں نام انہوں نے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کو بھجوا دیے۔ ان تین امیدواروں میں پہلے نمبر پر ڈاکٹر ظفر جدون‘ دوسرے پر جامعہ زکریا کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر اللہ اور تیسرے نمبر پر ڈاکٹر خواجہ علقمہ کا نام تھا۔ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے تینوں امیدواروں کے نام ایک سمری کے ساتھ وزیراعلیٰ کو بھجوا دیے جس میں میرٹ کے مطابق ڈاکٹر ظفر جدون کو جامعہ زکریا کا وائس چانسلر تعینات کرنے کی سفارش کی گئی۔ اصل قصہ اس کے بعد شروع ہوتا ہے ۔ 
اس دوران زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر اللہ کی مدت ملازمت ختم ہو گئی ، وائس چانسلر کی کرسی خالی ہو گئی اور اس پر تعیناتی کے لیے رسہ کشی شروع ہو گئی۔ ڈاکٹر ظفر اللہ اور ڈاکٹر علقمہ اپنے اپنے حواریوں سمیت میدان میں اُتر آئے۔ ملتان کی حد تک میاں شہباز شریف اور سید یوسف رضا گیلانی میں ایک غیر تحریری معاہدہ تھا کہ ملتان کے تمام معاملات بشمول تمام بیوروکریسی‘ انتظامیہ اور دیگر عہدہ جات وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی مرضی کے مطابق ہوں گے اور وزیراعلیٰ اپنے اختیارات کے باوجود وزیراعظم کی رضا پر لبیک کہیں گے۔ سید یوسف رضا گیلانی نے ڈاکٹر ظفر اللہ کو وائس چانسلر کے لیے گرین سگنل دے دیا۔ حالات و واقعات اور واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اس دوران وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے درمیان یہ غیر تحریری معاہدہ ٹوٹ گیا۔ وجوہ کے بارے میں اس عاجز کو کچھ علم نہیں۔ بڑے لوگوں کی باتیں بڑے لوگ جانیں ؛ تاہم اتنا پتا ہے کہ اس تعیناتی پر اس اچھے بھلے چلتے ہوئے معاہدے میں پھڈا پڑ گیا۔ وزیراعظم کے اور وزیراعلیٰ کے درمیان اس مسئلے پر آئینی جنگ شروع ہو گئی اور میدان جنگ گورنر ہائوس تھا۔ 
وزیراعلیٰ نے ڈاکٹر خواجہ علقمہ کو وائس چانسلر لگانے کی سمری گورنر ہائوس بھجوا دی۔ قانون کے مطابق یہ ایک رسمی کارروائی تھی۔گورنر وزیراعلیٰ کے بھجوائے گئے نام کو منظور کرنے کا پابند تھا مگرگورنر ہائوس میں ایک ''تحفہ‘‘ بیٹھا ہوا تھا اور اس تحفے کا نام تھا عبداللطیف کھوسہ۔ دنیا کے عظیم ترین قانون دان ہونے کے زعم میں مبتلا گورنر صاحب نے نہ صرف یہ کہ وزیراعلیٰ کی بھجوائی گئی سمری مسترد کردی بلکہ اپنی خیالی طاقت بروئے کار لاتے ہوئے ڈاکٹر ظفر اللہ کا نام بطور وائس چانسلر منظورکرکے بھجوا دیا۔ یہ نام وزیراعلیٰ نے مسترد کردیا اور دوسری بار پھر ڈاکٹر خواجہ علقمہ کا نام گورنر ہائوس بھجوا دیا۔ عظیم المرتبت قانون دان گورنر نے یہ نام پھر مسترد کردیا اور اپنے امیدوار کا نام بھجوا دیا۔ قانون کے بال کی کھال سے آگاہ لطیف کھوسہ کا خیال تھا کہ وہ قانونی اور آئینی طور پر اس کا مجاز ہے جبکہ پنجاب حکومت کا فرمانا تھا کہ یہ وزیراعلیٰ کا اختیار ہے اور گورنرکو وزیراعلیٰ کی بھیجی گئی سمری پر اعتراض لگانے یا روکنے کا قطعاً کوئی اختیار نہیں ،کجا کہ وہ اپنی مرضی کے امیدوار کا نام منظور کرے۔ پنجاب حکومت کا موقف تھا کہ سمری کوگورنرکے پاس بھیجنا ایک رسمی کارروائی ہے۔ یہ پہلے بھی محض ایک آئینی ضرورت تھی اور اب اٹھارہویں ترمیم کے بعد تو یہ واضح طور پر وزیراعلیٰ کا اختیار ہے اورگورنراس پر دستخط کرنے کا پابند ہے مگر قانون کے دریائے عمیق میں غوطہ زن گورنرکو اس قانونی تشریح سے قطعاً اتفاق نہ تھا ، لہٰذا فائل وزیراعلیٰ ہائوس اورگورنر ہائوس کے درمیان ذلیل و خوار ہوتی رہی۔گورنر صاحب وزیراعظم کی آشیرباد اور اپنی قانون پر لامتناہی دسترس کے زور پر اپنی جگہ اڑے ہوئے تھے اور وزیراعلیٰ صاحب اٹھارہویں ترمیم کے تحت حاصل اختیارات کے زور پر مصر تھے کہ یہ صرف میرا حق ہے۔ اس آئینی زور آزمائی کے دوران جامعہ زکریا وائس چانسلر کے بغیرگھسٹتی رہی۔ 
جامعہ زکریا میں ہونے والے ایک سلیکشن بورڈ کے خلاف شعبہ کمپیوٹر سائنس میں اسسٹنٹ پروفیسر کی سیٹ پر اپلائی کرنے والے ایک امیدوار نے انٹرویو پر نہ بلانے کے خلاف ہائی کورٹ میں رٹ کی ہوئی تھی۔ ہائی کورٹ نے رٹ نپٹا دی اور سلیکشن بورڈ کے فیصلے کالعدم قرار دے دیے۔ دوسرے لوگ (متاثرہ فریقین) سپریم کورٹ چلے گئے۔ موجودہ چیف جسٹس سپریم کورٹ تصدق جیلانی صاحب اس بنچ کے سربراہ تھے ، انہوں نے پوچھا کہ وائس چانسلر صاحب کون ہیں؟ جواب ملا: یونیورسٹی کئی ماہ سے وائس چانسلر کے بغیر ہی چل رہی ہے۔ وجہ دریافت کی تو بتایا کہ وزیراعلیٰ اور گورنر اپنے اپنے اختیارات کے تحت سمریاں بھجوانے اور مسترد کرنے میں مصروف ہیں۔ سپریم کورٹ نے معاملات کو دیکھنے کے بعد قرار دیا کہ یہ گورنرکا نہیں بلکہ وزیراعلیٰ کا اختیار ہے کہ وہ وائس چانسلر مقرر کرے۔ اس طرح اس بات کا فیصلہ ہوا کہ گورنر وزیراعلیٰ کی بھجوائی گئی سمری پر دستخط کرنے کا پابند ہے۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی گورنر کی قانون دانی کی ہوا نکل گئی اور میرے پرانے دوست خواجہ علقمہ بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر تعینات ہوگئے۔ یاد رہے کہ سرچ کمیٹی میں تیسرے نمبر پر آنے والے ڈاکٹر خواجہ علقمہ کی تعیناتی کے پیچھے ''خواجگان مسلم لیگ (ن)‘‘ کا ہاتھ تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے دوست خواجہ علقمہ نامور مسلم لیگی اور متحدہ پاکستان کے نام لیوا بنگالی رہنما خواجہ خیر الدین کے صاحبزادے ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ آپ سید یوسف رضا گیلانی کے کلاس فیلو بھی رہے ہیں ، اسی بنیاد پر انہوں نے خواجہ علقمہ کو وائس چانسلری سے پہلے اپنے ''وزیراعظمی‘‘ اختیارات کے تحت یمن میں سفیر لگایا تھا مگر جب وائس چانسلر لگانے کا موقع آیا تو یوسف رضا گیلانی نے نسبتاً میرٹ کا بہتر خیال رکھا اور تیسرے نمبر پر آنے والے کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کی حمایت کا اعلان کردیا۔ 
اٹھارہویں ترمیم کے طفیل اس عظیم الشان آئینی جنگ کا فیصلہ جناب خادم اعلیٰ کے حق میں ہو گیا اور انہوں نے میرٹ کی سربلندی اور نیک نامی کی خاطر تیسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کو زکریا یونیورسٹی کا وائس چانسلر لگا دیا۔ تاریخ اور اٹھارہویں ترمیم یہ بتانے سے قاصر ہے کہ دوسرے اور تیسرے نمبرکے امیدواروں کی لڑائی اور وزیراعلیٰ اور گورنر کے درمیان آئینی جنگ کے دوران پہلے نمبر پر آنے والے ڈاکٹر ظفر جدون کا کیا بنا؟ میں نے اپنے ایک باخبر دوست سے یہی سوال کیا کہ وزیراعلیٰ کے ہاتھوں میرٹ پرکیا گزری؟ پہلے نمبر پر آنے والے امیدوار کا کیا بنا؟ جواب ملا کہ ماضی پر لعنت بھیجو، یہ پوچھو کہ اس کے بعد زکریا یونیورسٹی کا کیا بنا اور اس پرکیا گزری؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں