"KMK" (space) message & send to 7575

نیت اور ترجیحات

سارا سٹیڈیم خوشی بھرے ملے جلے نعروں سے گونج رہا تھا اور نوجوانوں کا جوش دیدنی تھا۔ میں سٹیڈیم کے اوپر والے کونے میں کھڑا‘ ہاتھ میں پکڑا ہوا چھوٹا سا پاکستانی جھنڈا لہرا رہا تھا۔ یہ جھنڈا میرے ہاتھ میں ایک بچی نے پکڑایا تھا۔ وہ اور لوگوں میں بھی یہ منی جھنڈے بانٹ رہی تھی۔ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے جھنڈا پکڑتے ہوئے اور پھر سب کے ساتھ ہوا میں لہراتے ہوئے ایک لمحے کے لیے بھی یہ احساس نہ ہوا کہ میں کسی بڑے ایونٹ کا حصہ بن رہا ہوں یا کچھ خاص ہونے جا رہا ہے میں تو بس ہاتھ میں پکڑا ہوا جھنڈا‘ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا رہا تھا۔ ایک خاص موج میں اور ایک عجیب مستی میں۔ میرے سامنے نیچے سیڑھیوں پر رکھی کرسیوں پر بیٹھی ہوئی بچیاں‘ بائیں طرف والے انکلوژر میں بیٹھے ہوئے نوجوان۔ دور بائیں طرف رنگا رنگ کے ٹریک سوٹوں میں ملبوس مختلف ڈویژنز سے تعلق رکھنے والے نوجوان اور طلباء و طالبات۔ سب جھنڈے لہرا رہے تھے۔ ان کے ساتھ میں بھی جھنڈا لہرا رہا تھا۔ یہ ایک خودکار مکینیکل سا عمل لگ رہا تھا۔ بلا سوچے سمجھے ایک مشینی سا عمل۔ ایسا کام جس کی تحریک اندر سے کہیں اٹھ رہی تھی۔ میں جھنڈا لہراتا رہا تاوقتیکہ ٹھیکے پر بنے ہوئے پلاسٹک کے اس جھنڈے کا سبز ہلالی حصہ ہوا میں اڑ گیا اور خالی ''ڈنڈی‘‘ میرے ہاتھ میں رہ گئی۔ 
میں نے ساتھ کھڑے ہوئے ایک سرکاری افسر کو خالی ڈنڈی دکھا کر کہا: بے ایمان ٹھیکیداروں سے کام کروانے کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ وہ افسر مسکرا کر کہنے لگا: جھنڈے بنانے کا ٹھیکہ بھی ایک سرکاری افسر کی کمپنی کے پاس تھا۔ یہ افسر پچھلے دنوں تمہارے ضلع میں ڈی سی او تھا۔ میں نے خالی ڈنڈی ہوا میں لہرائی اور کہا: یہ انکشاف سننے کے بعد مجھے اس جھنڈے کی کوالٹی پر اب نہ تو کوئی اعتراض ہے اور نہ ہی حیرت۔ ان صاحب نے میرے ضلع میں بھی اسی کوالٹی کا کام کیا تھا۔ ابھی یہ باتیں ہی ہو رہی تھیں کہ اعلان ہوا۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے دنیا میں ایک ساتھ سب سے زیادہ جھنڈے لہرانے کا یہ ریکارڈ Officially تسلیم کر لیا ہے اور اب یہ ریکارڈ گنیز ریکارڈز کا حصہ بن چکا ہے۔ مجھے اس دم پتہ چلا کہ میں اس ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہوں۔ ایک دو لمحے کی خوشی کے ساتھ ہی مجھے اس قسم کے ریکارڈ کا حصہ بننے پر دو خیال آئے۔ پچاس ساٹھ ہزار شرکاء میں سے ایک۔ 
پہلا خیال ایک اداکار کا آیا جو اپنے دوستوں کو بتا رہا تھا کہ اس نے فلاں فلم میں کام کیا ہے اور اس میں اس کا بہت اہم رول تھا۔ ایک صاحب نے وہ فلم بغور دیکھی ہوئی تھی اور اس کی یادداشت بھی بہت اچھی تھی‘ کہنے لگا: پوری فلم میں‘ میں نے تمہیں کسی غیر اہم کردار میں بھی نہیں دیکھا‘ تم کہہ رہے ہو کہ تم نے فلم میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ اداکار کہنے لگا: تم نے فلم دیکھی ہے تو تمہیں یاد ہوگا کہ فلم کا آغاز ہی اس سین سے ہوا تھا کہ ہیروئن کا باپ قتل ہو گیا ہے اور ہیروئن اس کی میت پر بین کر رہی ہوتی ہے۔ ناقد کہنے لگا: مجھے یہ منظر اچھی طرح یاد ہے‘ ہیروئن کی اداکاری بڑی جاندار تھی اور وہ بڑے حقیقی انداز میں بین کر رہی تھی مگر تم اس سارے سین میں کہاں تھے؟ اداکار کہنے لگا: ساری کہانی اس قتل سے شروع ہوئی تھی۔ ہیروئن کے باپ کے قتل سے۔ ناقد جھنجھلا کر کہنے لگا‘ یہ بات تو میں مان رہا ہوں مگر اس میں تم کہاں سے آ گئے؟ اداکار کہنے لگا‘ ہیروئن کفن میں لپٹی جس میت سے لپٹ لپٹ کر بین کر رہی‘ وہ میں تھا۔ 
دوسرا خیال ایک ایسے شخص کا آیا جو ایک رات بِن بلائے ایک بڑے آدمی کے ہاں ہونے والی شادی میں جا پہنچا تھا اور اگلی صبح اپنی اہلیہ کے سامنے اخبار لہرا کر کہنے لگا کہ وہ بھی آج سے ایک معزز شخص ہے۔ اس شخص کے کرتوتوں سے بخوبی آگاہ اور اس کے کردار سے مکمل طور پر واقف اس کی بیوی یہ دعویٰ سن کر پہلے تو حیران ہوئی پھر ہنسنے لگ گئی۔ اپنے ہی گھر میں ہونے والی اس عزت افزائی پر اسے شدید غصہ آیا اور وہ اپنی بیوی سے کہنے لگا: او نادان عورت! تمہیں اپنے شوہر کی عزت کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔ سچ ہے کہ گھر کی مرغی دال برابر ہوتی ہے۔ یہ آج کا اخبار دیکھو۔ اس میں رات والی اس شادی کا ذکر ہے جس میں‘ میں نے شرکت کی تھی۔ اس بات سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کہ میں وہاں بن بلائے چلا گیا تھا مگر اس خبر میں کسی باقاعدہ بلائے گئے اور بن بلائے آنے والوں کے بارے میں کوئی تخصیص نہیں رکھی گئی اور سب شرکاء کو بلاتفریق معزز لکھا گیا ہے۔ خبر میں لکھا ہے کہ گزشتہ رات فلاں صاحب کے بیٹے کے ولیمے میں فلاں فلاں شخصیات کے علاوہ معززین شہر کی کثیر تعداد نے شرکت فرمائی۔ نیک بخت! میں معززین کی اسی کثیر تعداد میں شامل تھا۔ مجھے تو اخبار نے معزز تسلیم کر لیا ہے مگر تم ماننے پر تیار نہیں ہو۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ ''گھر دا پیر‘ تے چُلہے دا وٹا‘‘۔ (گھر کا پیر گویا چولہے کا پتھر ہوتا ہے)۔ میں ان ریکارڈ بنانے والے 56,263 شرکاء میں سے ایک تھا۔ 
سٹیڈیم میں انائونسر اعلان کر رہا تھا کہ یہ گزشتہ چند روز میں قائم ہونے والا انتیسواں ریکارڈ ہے۔ اس سے قبل پنجاب یوتھ فیسٹیول میں اٹھائیس ریکارڈ بن چکے ہیں۔ یہ ریکارڈ بڑے مزے دار ہیں۔ سر سے اخروٹ توڑنے کا ریکارڈ‘ ایک گھنٹے میں‘ چھ گھنٹے میں‘ چوبیس گھنٹے میں اور علیٰ ہذا القیاس کئی دنوں میں زیادہ سے زیادہ ڈنڈ پیلنے کا ریکارڈ وغیرہ وغیرہ۔ اگر مجھے پہلے پتہ ہوتا کہ اس قسم کی چیزوں کے بھی ریکارڈ بنتے ہیں تو میں دو چار مزید اہم ریکارڈ بنوانے کے لیے بلامعاوضہ مشورہ دے سکتا ہوں۔ مثلاً ایک لاکھ چار ہزار لوگوں کے اکٹھے بیٹھ کر فالودہ کھانے کا ریکارڈ۔ ایک لاکھ لوگوں کا بلا مقصد اکٹھے ہونے کا ریکارڈ۔ پندرہ کروڑ ستر لاکھ لوگوں کا اپنے ہی ملک کو بُرا بھلا کہنے کا ریکارڈ۔ دو پارٹیوں سے کئی عشرے تک ذلیل و خوار ہونے کے بعد پھر انہیں ووٹ دینے کا عالمی ریکارڈ۔ امریکہ کو سب سے زیادہ گالیاں دینے کے بعد امریکہ جانے کے شوقین شہریوں کی تعداد کا ریکارڈ۔ تندی والی ڈور سے سب سے زیادہ گردنیں کاٹنے کا عالمی ریکارڈ۔ ایک سال میں قرضے لینے کا عالمی ریکارڈ۔ ایک سال کے اندر روپے کی قدر میں کمی کا ریکارڈ۔ ملک کے وزیر خزانہ کا اپنے بیٹے کو قرض حسنہ دینے کا عالمی ریکارڈ... اور سب سے بڑھ کر ایک سال میں نہایت ہی فضول اور واہیات قسم کے ریکارڈ قائم کرنے کا عالمی ریکارڈ۔ 
پنجاب یوتھ فیسٹیول میں سب سے زیادہ ریکارڈز Push Ups کی کیٹیگری میں بنائے گئے۔ پش اپ سے مراد ڈنڈ پیلنا ہے۔ پاکستانیوں نے اس کیٹیگری میں کئی ریکارڈ بنائے۔ ایک منٹ میں 65 ڈنڈ پیلنے اور 155 اخروٹ سر سے توڑنے کا ریکارڈ۔ ایک ہاتھ سے ڈنڈ پیلنے کا ریکارڈ۔ کمر پر چالیس پائونڈ وزن رکھ کر ایک منٹ میں سو ڈنڈ پیلنے کا ریکارڈ۔ غرض ڈنڈ پیلنے کے الٹے سیدھے طریقے میں عالمی ریکارڈ ہمارے پاس ہے۔ ڈنڈ کے پنجابی میں کافی سارے مطلب ہیں۔ مثلاً ''ڈنڈ پانا‘‘۔ اس سے مراد ہے شور مچانا۔ ''ڈنڈ بھرنا‘‘ مطلب ہے جرمانہ بھرنا اور ''ڈنڈ لانا‘‘ مراد ہے ڈنڈ پیلنا۔ ہم بحیثیت قوم پہلے ہی اس کیٹیگری میں ریکارڈ ہولڈر ہیں۔ ہم ہر بات پر شور مچانے کے عادی ہیں۔ مثلاً یہی دیکھیں کہ ہم لاحاصل اور بے مقصد قسم کے عالمی ریکارڈ بنا کر کتنا شور مچا رہے ہیں۔ امریکی جنگ میں کود کر ہم پچھلے گیارہ سال میں کتنا ''ڈنڈ بھر‘‘ چکے ہیں۔ پچاس ہزار سے زائد پاکستانی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ نیٹو کنٹینروں نے ہماری ساری سڑکیں برباد کردی ہیں اور اس امریکی جنگ میں ہم اپنے اربوں کھربوں کے وسائل جرمانے میں ادا کر چکے ہیں اور پچھلے ایک عشرے میں امریکہ نے اتنے ڈنڈ نکلوائے ہیں کہ پنجاب یوتھ فیسٹیول میں ڈنڈ نکالنے کے سارے عالمی ریکارڈ اس کے آگے رائی برابر اہمیت نہیں رکھتے۔ 
ان بلا مقصد ریکارڈز سے ہٹ کر میں سمجھتا ہوں کہ یہ فیسٹیول دہشت گردی کی زد میں آئے ہوئے ملک کے لیے تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے اور نوجوانوں کے لیے اپنی صلاحیتیں نکھارنے کا ایک موقع بھی۔ سال میں صرف ایک بار سرکاری مشینری کے زور پر ایسی چیزیں تادیر نہیں چلائی جا سکتیں۔ انہیں تعلیم کا لازمی حصہ بنانا ہوگا لیکن اس سے پہلے تعلیم کا سارا نظام اوورہال کرنا ہوگا۔ میاں شہباز شریف یہ کام کر سکتے ہیں مگر ان کی ترجیحات کا رخ کسی اور طرف ہے۔ مجھے ان کی نیت پر نہیں ترجیحات اور طریقہ کار پر شک ہے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں