"KMK" (space) message & send to 7575

کیا کریں اور کہاں جائیں؟

ہوٹل سے نکل کر ہوٹل پہنچنے تک تقریباً پندرہ گھنٹے لگ گئے۔ لاہور صبح ساڑھے سات بجے ہوٹل سے ایئر پورٹ روانہ ہوا۔انور مسعود صاحب اور میں تقریباً اکٹھے ہی ایئر پورٹ پہنچے۔ جہاز کی روانگی ساڑھے دس بجے تھی۔اور پھر ساڑھے آٹھ گھنٹے کا سفر۔ ایک گھنٹے سے زائد لندن ہیتھرو پر امیگریشن اور سامان لینے میں لگ گیا۔خدا جھوٹ نہ بلوائے تو دو گھنٹے ہیتھرو ایئر پورٹ سے مشرقی لندن میں واقع ہوٹل پہنچنے میں مزید آدھا گھنٹہ ہوش ٹھکانے آنے میں لگ گیا۔
میں‘انور مسعود اور اوریا مقبول جان ایک فلاحی ادارے کی فنڈریزنگ کے لیے برطانیہ آئے تھے۔یہاں یو کے اسلامک مشن ہمارا مقامی پارٹنر تھا۔اس سے قبل میں اور انور مسعود صاحب امریکہ میں بھی اس ادارے کی فنڈریزنگ مہم چلا چکے تھے۔ ادارہ پاکستان میں دیہی اور پسماندہ علاقوں میں معیاری تعلیم کے لیے کوشاں ہے۔ اس کے تحت تین سو پچیس کے لگ بھگ سکول چل رہے ہیں جن میں پچاس ہزار طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں اور ان میں سے چوبیس ہزار سے زائد بچے یتیم ہیں اور اسی خاص مقصد کے لیے شروع کیے گئے مفت تعلیمی پروگرام کے تحت پڑھ رہے ہیں جہاں نہ صرف یہ کہ ان کی فیس معاف ہے بلکہ ان کی کتابوں سے لے کر یونیفارم تک کا خرچہ ٹرسٹ اٹھاتا ہے۔ ہم لوگ ان یتیم بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے اس ادارے کی کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے برطانیہ آئے تھے۔یہاں اس سلسلے میں تقریباً چھ مشاعرے تھے۔تقریباً کا لفظ اس لیے لکھنا پڑا کہ جب پاکستان سے چلے تھے تب یہ مشاعرے پانچ تھے۔ اب چھ ہو چکے ہیں اور گمان ہے کہ ایک آدھ مشاعرہ اور نکل آئے گا۔
گزشتہ پانچ روز سے میں سفر میں ہوں۔پہلے لاہور سے لندن‘ پھر اگلے روز صبح لندن سے لیڈز روانہ ہو گئے جہاں نماز جمعہ کی ادائیگی کا پروگرام تھا۔ جمعہ کا خطبہ اوریا مقبول جان کے ذمہ تھا۔ ہم لوگ بمشکل وقت پر پہنچ سکے۔پھر کھانے کے تکلفات اور سہ پہر کو نیلسن روانگی۔رات نیلسن میں مشاعرہ تھا۔اگلے روز صبح پھر واپس سفر شروع کیا اور برمنگھم پہنچ گئے۔مشاعرہ رات گئے ختم ہوا۔غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عامر محمود جعفری ہمارے ساتھ تھے۔صبح ان کے ایک پرانے کلاس فیلو نے ناشتے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔حلوہ پوری‘چنے اور لسی۔انور مسعود صاحب نے شوگر کی وجہ سے میٹھی لسی پینے سے انکار کر دیا۔ہوٹل والوں نے ان کی فرمائش پر نمکین لسی کا جگ بھجوا دیا۔اوریا مقبول جان نے لسی چکھنے کے بعد انکشاف کیا کہ دراصل ہوٹل والوں نے اسی میٹھی لسی میں نمک ڈال کر اسے نمکین کرنے کی کوشش کی ہے۔میں نے گھونٹ بھر کر دیکھا‘ اور یا کا دعویٰ درست تھا۔انور مسعود صاحب نے اطمینان قلب کی خاطر یہ ملی جلی لسی پیٹ بھر کر پی اور سب سے آنکھ بچا کر حلوہ کھانے کی کوشش کی اور کامیاب رہے۔میرا مطلب ہے حلوہ کھانے میں کامیاب رہے۔البتہ آنکھ بچانے میں انہیں کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہوئی۔
ہماری اگلی منزل گلاسگو تھی۔برمنگھم سے گلاسگو کا سفر خاصا طویل تھا جسے موٹر وے پر موجود بے تحاشا ٹریفک نے مزید وقت طلب بنا دیا تھا۔گلاسگو کا مشاعرہ ہر لحاظ سے شاندار مشاعرہ تھا۔یہاں میرے کئی دوست ہیں جن کا ''ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ‘‘ اشرف شیخ ہے۔ملتان سے تعلق رکھنے والا اشرف گلاسگو میں پچھلے اڑھائی عشرے سے مقیم ہے اور پاکستانی کمیونٹی میں خاصا متحرک ہے۔گلاسگو کے مشاعرے کے بعد اگلے تین دن فارغ تھے۔اگلی صبح اوریا ایڈنبرا میں مقیم اپنی بیٹی کے پاس چلا گیا۔انور مسعود صاحب دوبارہ لندن روانہ ہو گئے اور میں اشرف کے پاس چلا گیا؛ تاہم اس کے گھر جانے کے بجائے شہر میں ایک دو دوستوں سے ملے اور پھر ہم دونوں بھی ایڈنبرا روانہ ہو گئے‘ جہاں سے رات گئے واپسی ہوئی۔صبح ٹرین پکڑی اور مانچسٹر روانہ ہو گیا۔ہر روز صبح نئے شہر کو روانگی اور ہررات نئے شہر میں قیام۔چھ روز بعد یہ نوبت آئی ہے کہ مانچسٹر میں دو دن گزاروں گا اور پھر دوبارہ لندن روانہ ہو جائوں گا۔ 
اس سارے سفر کے دوران دو تین موضوعات پر سوال سن سن کر بھیجا پلپلا ہو گیا۔ طالبان کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟پرویز مشرف کا کیا بنے گا؟اور حامد میر پر حملے میں کون ملوث ہے؟پچھلے پانچ دن ہوٹلوں میں گزرے ہیں۔گوروں کے ہوٹلوں میں ٹی وی پر کوئی پاکستانی چینل نہیں آتا۔خبروں سے رابطے کا واحد ذریعہ فون ہے۔پاکستان سے دوست تازہ حال سناتے ہیں اور جہاں وائی فائی ہوتی ہے اسی فون پر پاکستانی اخبارات پڑھ کر گزارا چلا رہے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وطن سے دوری بذات خود ایک احساس لاعلمی بن گئی ہے۔برطانیہ میں مقیم دوست کم از کم ان دنوں ہم سے زیادہ باخبر ہیں۔عالم یہ ہے کہ کسی پاکستانی کو مقامی نیوز چینل دیکھتے ہوئے نہیں پایا۔ہر گھر میں ڈش پر کم از کم ایک پاکستانی نیوز چینل تو ضرور چل رہا ہے‘ جو مفت ہے۔ خبریں ‘تبصرے اور ٹاک شوز۔ غرض پاکستانیوں کی برطانیہ میں مقیم اکثریت ایک ایک لمحے کی پیشرفت سے آگاہ ہے۔لیکن ان کا خیال ہے کہ پاکستان سے آئے ان دو صحافیوں کو بہت کچھ ایسا معلوم ہے جو انہیں معلوم نہیں ہے۔
طالبان سے مذاکرات کے معاملے پر‘طالبان کے موقف پر اور آئندہ کی صورت حال کے حوالے سے میں اور اوریا بیشتر معاملات پر ایک دوسرے سے مختلف رائے رکھتے ہیں اور سوال کرنے والوں کو خاصا کنفیوز کرتے ہیں۔حامد میر پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے سلسلے میں میرا جواب بڑا سادہ ہے کہ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ نقطہ نظر کے اختلاف پر کسی کی جان لینے کی کوشش کرنا ایک ایسا قبیح فعل ہے جسے کسی طور پر معاف نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم معاملے کی تہہ تک پہنچے بغیر اور تحقیقات مکمل ہونے سے قبل اپنے شک کی بنیاد پر ‘خواہ وہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو کسی ادارے کے خلاف اس قسم کا ردعمل نہیں ہونا چاہیے تھا جیسا ہوا۔برطانیہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کی اکثریت کا ردعمل بڑا شدید تھا اور وہ قومی ادارے پر الزام تراشی کی شدید مذمت کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں سے ہی ہر قسم کا ملبہ پاکستانی فوج اور ایجنسیوں پر ڈالا جاتا رہا ہے اور دنیا بھر میں ہونے والی ہر خرابی کی ذمہ داری پاکستان اور خصوصاً پاکستانی فوج اور ایجنسیوں پر ڈالی جاتی ہے۔یہ سارا کام بھارتی لابی‘یہودی میڈیا اور اسلام فوبیا میں مبتلا مغرب کر 
رہا ہے اور اس کام میں انہیں وہ پاکستانی‘ اپنے معاون مل جاتے ہیں جو پاکستان سے آنے کے بعد خود کو مغرب کے لیے آخری حد تک قابل قبول بنانے کے لیے روشن خیالی‘مغرب پرستی اور پاکستان دشمنی کی کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
دوستوں اور ملنے والوں کی غالب اکثریت اس معاندانہ مہم سے شاکی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ ہم دیار غیر میں پہلے ہی دشمنوں کے پراپیگنڈے کے باعث ہمہ وقت صفائی دینے میں لگے رہتے ہیں؛ تاہم وہ سارے الزام دشمنوں کی طرف سے ہوتے تھے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ہمارا اپنا میڈیا وہی کچھ کہہ رہا ہے جو یہاں بھارتی لابی اور یہودی میڈیا کہہ رہا تھا اور ہم اسے الزام قرار دیتے تھے ۔خود پاکستانی میڈیا کی جانب سے ان الزامات کے بعد ہمارے پاس اپنی صفائی میں کیا رہ جاتا ہے؟آپ لوگوں کو رتی بھر اندازہ نہیں ہے کہ ہم یہاں کس مشکل میں ہیں۔ہماری اس ملک سے وفاداری ابھی تک مشکوک ہے۔ ہمیں یہاں پاکستان سے وفادار تصور کیا جاتا ہے اور ہر معاملے میں شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ ہم جب پاکستانی اداروں پر لگنے والے الزامات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہیں تو یہ بات بھی ہمارے خلاف جاتی ہے۔ اگر خاموش رہیں تب بھی سارا ملبہ بالواسطہ ہم پر ڈالا جاتا ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم غیر ذمہ دار اور بحیثیت ریاست ناکام کہا جاتا ہے۔ ہم یہاں کے پراپیگنڈے کا جواب دے سکتے ہیں۔ہندو لابی سے‘یہودی میڈیا سے اور خود کو مغرب کے لیے قابل قبول بنانے کی کوششوں میں مصروف کالی بھیڑوں سے تو مقابلہ کر سکتے ہیں لیکن جس دیس کی خاطر یہ سب کر رہے ہیں اگر وہیں سے وہ سارے الزامات اٹھیں جس کی صفائی میں ہم ایک عرصے سے خوار ہو رہے ہیں تو آپ بتائیں ہم کیا کریں اور کہاں جائیں؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں