"KMK" (space) message & send to 7575

مسافرت، مقدمے، کاروبار اورحکمرانوں کی کارکردگی

شوکت پوچھنے لگا آپ اتنا سفرکیسے کرلیتے ہیں ؟ میں نے کہا پہلے ایک لطیفہ نما واقعہ سنو۔ وہ ہمہ تن گوش ہوگیا۔ ایک ٹرین کے ڈبے میں کچھ مسافر بیٹھے تھے اور ٹرین اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ ایک عمر رسیدہ سکھ نے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے نوجوان سردار سے پوچھا : کاکا ! تیرا نام کیا ہے؟ ( یہ گفتگو پنجابی میں تھی،میں نے پنجابی لکھ کراس کا ترجمہ کرنے کے بجائے اس کا اردو ترجمہ کردیا ہے؛ تاہم کہیں کہیں پنجابی کے الفاظ جوں کے توں رہنے دیے ہیں جن کا ترجمہ بے مزہ تھا) نوجوان کہنے لگا: باباجی! میرا نام سردار پرمجیت سنگھ ہے اور آپ کا نام کیا ہے؟ کاکا! میرا نام سردار بلدیو سنگھ ہے۔۔۔ بلدیو سنگھ ! تلونڈی سابو والا۔ باباجی! آپ تلونڈی سابو رہتے ہیں ؟ نہیں اوئے کاکا، میں لدھیانے رہتا ہوں۔ پھر آپ تلونڈی سابو والا کیوں بتارہے ہو؟ اوئے پتر! میں اپنے بچوں کو پڑھانے لکھانے کے لیے لدھیانے آیا ہوں۔ میری زمینیں، حویلی ، نمبرداری سارا کچھ تلونڈی سابو میں ہے اور سب سے بڑھ کر اپنے اکالیوں کا تخت ہے وہاں پر۔۔۔ سری دمدمہ صاحب ، ہم سکھوں کا ایک بہت مقدس مقام۔ تجھے دمدمہ صاحب کا پتہ ہے؟ لئو ہور پچھو! بھلا باباجی مجھے دمدمہ صاحب کا کیوں پتہ نہیں ہوگا۔ میں سکھ دھرم سے ہوں اور میرا سارا ٹبر خالصہ ہے ، بھلا مجھے دمدمہ صاحب کا کیسے علم نہیں۔ ہوگا ۔ مجھے پانچوں تختوں کے نام یاد ہیں ، سنائوں ؟ نہیں کاکا! رہنے دے ، مجھے یقین آگیا ہے۔ اردگرد کی سیٹوں والے یہ ساری گفتگو سن رہے تھے۔
کاکا ! تو کہاں جارہا ہے ؟ بزرگو! میں امرتسر جارہا ہوں اور آپ؟ لے کاکا! اپنی اچھی گزرے گی میں بھی امبرسرجارہا ہوں۔ پرکاکا! تو کیا کرنے جارہا ہے؟ باباجی! میں اپنی بہن کو بیساکھی پر ملنے جارہا ہوں۔ لئوجی! کیا اتفاق ہے۔ میں بھی امبرسر اپنی دھی کو بیساکھی پر ملنے جارہا ہوں۔کاکا ! تو رہتا کہاں ہے؟ بزرگو! میں بھی لدھیانے رہتا ہوں۔کس محلے میں ؟ باباجی! میں محلہ کرتار والا میں رہتا ہوں اور آپ ؟ کاکا! میں بھی محلہ کرتار والا میں ہی رہتا ہوں۔کاکا! تو وہاں کس جگہ رہتا ہے؟ میں وہاں کوچہ ہرمندر سنگھ میں رہتا ہوں۔ لئو ہتھ سٹو! میں بھی کوچہ ہرمندر سنگھ میں ہی رہتا ہوں۔ پرکاکا! یہ کوچہ توکافی لمبا ہے کوئی چھ سوگز لمبا تو ضرورہوگا۔ وہاں کس جگہ تمہارا گھر ہے؟ میں وہاں حویلی سکھ دیو سنگھ میں رہتا ہوں ۔ عمر رسیدہ سکھ نے خوش ہوکر نعرہ لگایا۔ واہے گورو دا خالصہ تے واہے گرو دی جے ، کاکا! مارکاں ہون ، میں بھی حویلی سکھ دیو سنگھ میں رہتا ہوں۔ یہ حویلی میرے ابے کے نام پر ہے۔ ساتھ والی سیٹ کا ایک مسافر اس ساری گفتگو سے بہت زیادہ حیران تھا ،کہنے لگا : آپ ایک محلے ، ایک گلی بلکہ ایک مکان میں رہتے ہو اور ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں۔ بابا ہنسنے لگا ، پھر کہنے لگا : لئو ہور سنو! بھلا ہم ایک دوسرے کو کیوں نہیں جانتے ، ہم دونوں پیو پتر ہیں۔ ایک اور ساتھی مسافرکہنے لگا تو پھر یہ ساری بے معنی گفتگو کس لیے کی جارہی تھی؟ بابا کہنے لگا: اوئے کم عقلا ! لمبا سفر ہے۔ چپ بیٹھ کرکیسے گزرے گا؟ بندہ سفرکاٹنے کے لیے گل بات تو کرتا ہے ناں ، ہم تو سفر کاٹنے کے لیے گل بات کررہے تھے۔ 
تو برادرم شوکت ! اس سفر میں انور مسعود صاحب ہمارے ہمراہ تھے ، سو ہم نے سفر کاٹنے کے لیے گفتگو کی ، کاروبار کیا اور جرمانے لگائے۔ حاصل وصول کچھ نہیں ہوا مگر سفر اچھاگزرگیا۔
شوکت کو بڑااشتیاق ہواکہ ہم نے کیاکاروبارکیا اورکس قسم کے جرمانے لگائے۔ پوچھنے لگا یہ کاروبار اور جرمانے سے میری کیا مراد ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ انور مسعود صاحب ہماری مزاح رسیوں کے کپتان ہیں اور نہایت ہی خوشگوار شخصیت کے مالک ہیں خصوصاً مسافرت میں بڑے مزے کے آدمی ہیں۔ صرف کبھی کبھی ان کی شوگر ڈائون ہوجائے یعنی low ہوجائے تو تھوڑی پریشانی ہوتی ہے وگرنہ ان سے بہتر مسافرت کا ساتھی ملنا خاصا مشکل ہی نہیں شاید ناممکن ہے۔ سارا راستہ شغل لگا رہتا ہے۔ وقت گزارنے کے لیے میں اور انور صاحب شرطیں لگاتے ہیں۔کاروبارکرتے ہیں اور پھر ان شرطوں اور کاروباری نفع نقصاان کی وصولی کے لیے بحث کرتے رہتے ہیں ۔ بس اسی دوران سفرگزر جاتا ہے۔ پچھلے دو تین سفرانور مسعود صاحب کے شناختی کارڈ کی خریدو فروخت میں گزر گئے اور یہ والا سفرکرائے کی مد میں وصولی کے سلسلے میں گزرگیا۔
شوکت پوچھنے لگا ، یہ شناختی کارڈ کی خرید و فروخت والا کیا معاملہ ہے؟ مجھے یہ بات سوچ کر ہی ہنسی آگئی۔ میں نے کہا شوکت میاں ! یہ ایک علیحدہ قصہ ہے اورکبھی پھر سہی ، فی الحال تواس سفرکی روداد سنو ۔ اس پورے سفر میں میرے اور انور صاحب کے درمیان کئی معاملات پر مقدمات تک نوبت آئی اور کئی پر ثالث بٹھانا پڑا۔ مقدمے کے سلسلے میں جج اور اختلافی معاملات پر ثالث ہمارے پاس موجود تھا لہٰذا ساری کارروائی نہایت سہولت سے چلتی رہی۔ جہاز سے لے کر کار تک ، مدعی، مدعا علیہ ، گواہ اور منصف ، سب موجود تھے ۔ جہاں موقع ملتا کارروائی شروع ہوجاتی اور جب جی چاہتا کارروائی معطل کرکے سوجاتے۔ اٹھنے پر جب بوریت بڑھنے لگتی دوبارہ کارروائی کا آغاز کردیاجاتا۔
اس سفر کے دوران چھوٹی موٹی نوعیت کے توکئی مقدمات زیر بحث آئے ، مثلاً انور صاحب نے مقدمہ کیا کہ اولڈ ہم کے مشاعرے میں، میں نے زیادہ وقت لے لیا تھا اور زیادہ کلام سنادیا تھا۔ میں نے جج کو بتایا کہ یہ مقدمہ نہیں بنتا ، یہ محض شکایت یا اعتراض ہے ، پہلے اس کی تفتیش ہونی چاہیے۔ اگر جرم ثابت ہو تب مقدمہ بنتا ہے ، اس کے لیے سب سے پہلے تو مشاعرے کی ویڈیو ریکارڈنگ حاصل کی جائے ، ہر دو مشاعروں کا وقت نوٹ کیاجائے ؛ تاہم اس سے پہلے ہونے والے چار مشاعروں میں سنائے جانے والے کلام کا مجموعی وقت جمع کیاجائے اور پھر فیصلہ دیا جائے کہ جرم بنتا بھی ہے یا نہیں۔ گزشتہ چار مشاعروں میں مجموعی وقت کا سن کر انور صاحب نے مقدمہ واپس لے لیا۔ پھر اگلے روز نیا مقدمہ دائرکردیا کہ خالد مسعود جب یہ شعر پڑھتا ہے کہ ؎
تمہارے پھپھا وہ گنجے والے جو لے گئے تھے ادھارکنگھی
مہینہ ہونے کو آ گیا ہے اس نے دتی نہ ہم نے مانگی
تو وہ مجھے مخاطب کرکے یہ شعر پڑھتا ہے، اس سے توہین عزت کا پہلو نکلتا ہے لہٰذا اس سے زرتلافی مبلغ پچاس پائونڈدلوایا جائے ۔ مقدمے کے دوران کافی دلائل دیے گئے اور لمبی بحث ہوئی۔ یہ بحث تقریباً دو دن جاری رہی۔ اچانک میں نے انور صاحب کے کان میں کہا کہ انور صاحب اگر آپ مقدمہ جیت بھی گئے اور مجھے آپ کو ہتک عزت کے سلسلے میں پچاس پائونڈ دینے بھی پڑ گئے تو بہرحال ایک بات طے پا جائے گی کہ آپ جیسی بڑی شخصیت جسے ہم '' زندہ نابغہ ‘‘ یعنی Living Legendکہتے ہیں کی عزت محض پچاس پائونڈ یعنی ساڑھے آٹھ ہزار روپے طے پاجائے گی ۔ انور مسعود صاحب نے یہ بات سنتے ہی مقدمہ واپس لے لیا۔
سفر کی پہلی ہی رات انور مسعود صاحب کے فون کی بیٹری فوت ہوگئی یعنی ڈیڈہوگئی۔ انور صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میرے پاس باریک پن والا نوکیا کا چارجر ہے؟ میں نے کہا، ہے تو سہی مگر ایک پائونڈ فی گھنٹہ کرائے پر ملے گا۔ مجبوراً انور صاحب نے چارجر لے لیا کہ انہیں اپنی اہلیہ کو سارے دن کی مکمل رپورٹ پیش کرنا تھی۔ فون کو چارجنگ پر لگاکر ہم مشاعرے پر چلے گئے ۔ واپسی تاخیر سے ہوئی اور ہم اپنے اپنے کمرے میں سونے کے لیے چلے گئے۔ صبح بارہ گھنٹے بعد چارجر واپس ملا۔ کرایہ بارہ پائونڈبن چکا تھا ؛ تاہم میں نے انور مسعود صاحب کے مقام و مرتبے اور ذاتی تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں دو پائونڈکا ڈسکائونٹ دے دیا۔ اب دس پائونڈکی وصولی کا مرحلہ شروع ہوگیا۔ درجنوں بار مقدمہ جج کی عدالت میں پیش کیا مگر جج نے فیصلہ نہ دیا۔ حتیٰ کہ ہمارا سفر اختتام پذیر ہوگیا۔ شوکت نے پوچھا جج کون تھا؟ میں نے کہا اوریا مقبول جان جج تھا۔
شوکت کہنے لگا ، آپ نے جج سے کچھ کہا نہیں ؟ میں نے کہا بھائی! جج سے کیا کہا جاسکتا تھا ؟ توہین عدالت لگ جاتی اورکسی کیس کا فیصلہ ہوتا یا نہ ہوتا اس کیس کا فیصلہ تو فوراً ہوجانا تھا۔ ویسے بھی ملک عزیز میں کسی اہم کیس کا کبھی کوئی فیصلہ نہیں آیا ، یہ تو محض دس پائونڈکی وصولی کامعاملہ تھا۔ شوکت کہنے لگا ، ان سارے مقدمات میں ثالثی میں اور بحث و تمحیص میں کچھ حاصل وصول بھی ہوا؟ میں نے کہا دو ماہ بعد میں اور انور مسعود صاحب دوبارہ اکٹھے امریکہ جارہے ہیں۔ یہ وصولی کی مہم پورا مہینہ چلے گی ، آخر سفر بھی توکاٹنا ہے۔
شوکت ہنس کر کہنے لگا یعنی آپ کا معاملہ بھی موجودہ حکومت جیسا ہے۔۔۔ بیان بازی ، دعوے ، شور شرابا، بحث اور وعدے ، حاصل وصول کچھ نہیں۔ کارکردگی صفر ہے اور غریب کو ٹکے کا ریلیف نہیں۔ میں نے کہا بھائی صاحب ہم شریف النفس مسافروں کا موازنہ آپ موجودہ حکومت کی کارکردگی سے کرکے زیادتی کررہے ہیں۔ شوکت کہنے لگا ، تم نے مجھے ایسی کہانی سنانے میں دس منٹ برباد کردیے ہیں جس میں کچھ حاصل وصول نہیں ہوا۔ میں نے کہا ، آپ دس منٹ اور ایک سال کو برابر کیسے کہہ سکتے ہو؟ ایک سال میں باون ہزار پانچ سو ساٹھ ،دس منٹ ہوتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں