"KMK" (space) message & send to 7575

اللہ کی شان… نیا پاکستان

ملتان کے ضمنی الیکشن کا نتیجہ میری توقع سے تھوڑا مختلف نکلا ہے۔ مجھے اس نتیجے کی توقع دس اکتوبر والے جلسے سے پہلے تھی۔ میرا خیال تھا کہ حسب معمول ضمنی انتخاب میں ٹرن اوور کم ہوگا اور اس حلقہ میں زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ ووٹ کاسٹ ہوں گے۔ 25فروری 2012ء کو جب جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف میں شامل ہوکر اپنی قومی اسمبلی کی حلقہ 149کی سیٹ چھوڑی تھی تو اس حلقہ کے ضمنی انتخابات میں ستر ہزار سے بھی کم ووٹ کاسٹ ہوئے تھے۔ تب طارق رشید سینتیس ہزار کے لگ بھگ ووٹ لے کر جیتا تھا اور ملک لیاقت ڈوگر نے ساڑھے چوبیس ہزار کے قریب ووٹ لیے تھے ۔ تاہم میرا اندازہ تھا کہ اب مقابلہ عام الیکشن سے بڑھ کر '' عزت‘‘ کا مسئلہ بن چکا ہے لہٰذا ٹرن آئوٹ گزشتہ ضمنی الیکشن کے مقابلے میں تو زیادہ ہوگا مگر 2013ء کے جنرل الیکشن سے کہیں کم ہوگا، جب اس حلقہ میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی تعداد پونے دو لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ میرا یہ اندازہ درست نکلا۔
میں نے جاوید ہاشمی کو دبے لفظوں میں کہا تھا کہ اب اس کا سیاسی کیریئر تقریباً ختم ہوچکا ہے ،بہتر ہوگا کہ وہ اب '' خلیفہ‘‘ بن جائے اور اپنے پٹھوں کو اکھاڑے میں اتارے مگر مجھے پتا تھا کہ وہ میری بات نہیں مانے گا اور الیکشن ضرور لڑے گا۔ میں نے اپنے تین ستمبر اور اکیس ستمبر والے کالموں میں لکھا تھا کہ جاوید ہاشمی الیکشن لڑے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ میرا خیال تھا کہ جاوید ہاشمی اس الیکشن میں دس بارہ ہزار ووٹ سے ہارے گا لیکن پھر میں نے یہ اندازہ تبدیل کرلیا۔ دس اکتوبر کو ملتان میں ہونے والے پی ٹی آئی کے فقید المثال جلسے کے بعد میرا اندازہ تھا کہ جس طرح عمران خان نے ملک عامر ڈوگر کو سٹیج پر بٹھا کر اور پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر '' آزاد‘‘ امیدوار کو پی ٹی آئی کا سو فیصد حمایت یافتہ امیدوار ظاہر کیا ہے ،اس کے بعد پی ٹی آئی کے نوجوان ورکر ،جاوید ہاشمی کو اس کی '' غداری‘‘ پر سزا دینے کے لیے غصے میں بھرے ہوئے پی ٹی آئی کے ووٹر اور گزشتہ دو ہفتوں میں ملتان میں ڈیرے لگائے ہوئے اورمسلسل جوڑ توڑ میں مصروف شاہ محمود قریشی صورتحال کو کافی تبدیل کردیں گے اور جاوید ہاشمی ایک بڑے مارجن سے ہارے گا، لیکن میرا اندازہ غلط ثابت ہوا۔
پی ٹی آئی کا سرکاری امیدوار جس کا انتخابی نشان خرگوش تھا ، جیت گیا۔ بقول شاہ محمود قریشی خرگوش شیر کو کھا گیا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے جاوید ہاشمی کی ہار کا افسوس ہے۔ جاوید ہاشمی جیسا سیاستدان ضائع نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ایسے لوگ اب اسمبلی میں غنیمت ہیں۔ سچ پوچھیں تو اب ایسے لوگ یادماضی ہوتے جارہے ہیں۔ جاوید ہاشمی اس قبیل کے سیاستدانوں کی شاید آخری لاٹ سے تعلق رکھتا ہے جنہوں نے سیاست میں بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ اپنی سیاسی زندگی کا آغاز صفر سے کیا ہے۔ طلبہ سیاست سے جن کا ضمیر اٹھا تھا اور انہوں نے اپنا راستہ خود بنایا تھا۔ جیلیں بھگتی تھیں، ماریں کھائی تھیں، مقدمات کا سامنا کیا تھا اور آمریت کے ساتھ اپنی جماعت میں بھی آمریت کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ جاوید ہاشمی کے ان اقدامات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اب اس طرح کے جرأت مندانہ قدم اٹھانے والے سیاستدان رخصت ہوتے جارہے ہیں۔ جو آتا ہے وہ بہرحال جاتا بھی ہے۔ تاریخ یہی بتاتی ہے مگر افسوس صرف اس بات کا ہے کہ جاوید ہاشمی ایسے شخص کو شاہ محمود جیسے لوگوں نے فارغ کیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اب پاکستانی سیاست میں شاہ محمود قریشی جیسے لوگوں کا چلن ہوگا اور ملتان سے قومی اسمبلی میں نمائندگی کرنے والے صاحبزادہ فاروق علی خان اور جاوید ہاشمی جیسے لوگوں کے بجائے لیاقت ڈوگر اور عامر ڈوگر جیسے لوگ ہوں گے۔ کیسی بلندی اور کیسی پستی! اللہ ہم ملتان والوں پر رحم کرے۔
شاہ محمود نے ٹھیک کہا کہ '' خرگوش‘‘ جیت گیا ہے۔ اب پاکستان میں سیاست کا یہی چلن ہوگا اور خرگوش ہی جیتیں گے۔ پرسوں ایک دوست کا سعودی عرب سے فون آیا۔ پوچھنے لگا کہ خالد صاحب ! کیا آپ کو پتا ہے کہ ہمارے ہاں ادھر سعودی عرب میں خرگوش کسے کہتے ہیں؟ میں نے کہا، بھائی مجھے کیا پتا کہ آپ سعودی عرب میں خرگوش کسے کہتے ہیں۔ ویسے تو خرگوش کو ہی خرگوش کہا جاسکتا ہے مگر عربی کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہ دوست کہنے لگا میں خرگوش کی اصطلاح کی بات کررہا ہوں۔ یہاں سعودی عرب میں ہم پاکستانی خرگوش کی اصطلاح اس شخص کے لیے استعمال کرتے ہیں جو عمرے ویزے پر یہاں آئے اور پھر مزدوری وغیرہ کی غرض سے غائب ہوجائے۔ ایسے شخص کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ''خرگوش‘‘ ہوگیا ہے۔ یعنی عمرے کے ویزے پر آیا اور غائب ہوگیا۔ چوری چھپے مزدوری کی۔ پیسے کمائے اور بعد میں حج کے دنوں میں جب عام معافی کااعلان ہوا ،زیادہ دن سعودی عرب میں رہنے کا جرمانہ دیا اور واپس گھر چلے گئے۔ ایسے لوگ ٹریول ایجنٹ کی زبان میں بھی خرگوش کہلاتے ہیں۔
چار دن پہلے پیپلزپارٹی چھوڑنے والا عامر ڈوگر بھی سیاسی خرگوش تھا۔وہ ملکی تاریخ کا پہلا خرگوش بہرحال نہیں ہے مگر ''نئے پاکستان‘‘ میں اپنی نوعیت کا پہلا خرگوش ہے۔ کسی نے کہا کہ ملک عامر ڈوگر کی جیت سے نئے پاکستان کی شروعات ہوگئی ہے اور کسی نے کہا کہ حلقہ 149میں تبدیلی آگئی ہے۔ اگر سیاسی حوالے سے دیکھا جائے تو حلقہ این اے 149ملتان IIمیں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی ۔یہ حلقہ پہلے بھی تحریک انصاف کے پاس تھا اور اب بھی تحریک انصاف کے پاس ہے۔ یہ کوئی ایسا حلقہ نہیں تھا کہ 2013ء کے الیکشن میں کسی اور پارٹی کے پاس ہو اور ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار نے جیت لیا ہو۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ اس حلقے میں اخلاقی سطح پر تبدیلی آئی ہے۔ پہلے یہاں سے جمہوریت کے لیے قید و بند برداشت کرنے والا، مارشل لا کے دور میں برسوں جیل بھگتنے والا ، بھٹو دور میں برف کی سلوں پر تشدد برداشت کرنے والا اور سیاسی جماعتوں میں جمہوری طرز عمل کے فروغ کے لیے بغاوت کرنے والا جاوید ہاشمی منتخب ہوکر اسمبلی میں ملتان کی نمائندگی کرتا تھا، اب ملتان میں مبینہ طور پر بھتے کی ایجاد اورفروغ کے حوالے سے نام پیدا کرنے والے اس حلقے سے منتخب ہوکر ملتان کی نمائندگی کریں گے۔ شاہ محمود ! تیری عظمت کو سلام۔ تونے صرف جاوید ہاشمی سے ہی نہیں بلکہ اس کے پورے حلقے سے ایسا انتقام لیا ہے کہ اسے تادیر یاد رکھا جائے گا۔
صرف جاوید ہاشمی کا معاملہ ہوتا تو خیر تھی مگر اس ضمنی الیکشن میں کچھ اور خرابیاں اور قباحتیں بھی نئے منظرنامے کا حصہ بنتی نظر آرہی ہیں جن کی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے تو توقع کی جاسکتی تھی مگر نظام کو بدلنے کا دعویٰ کرنے والوں سے تو اس کی توقع ہرگز نہیں کی جارہی تھی۔2013ء کے انتخابات میں تو شاید مجبوری تھی کہ معاملہ افراتفری میں سمیٹا گیا تھا اور پارٹی کو ٹکٹ فروش اورووٹ خرید مافیا نے یرغمال بنا لیا تھا مگر اب ایک سیٹ کا فیصلہ تو سوچ سمجھ کرکیا جانا چاہیے تھا۔ کوئی نیک نام امیدوار سامنے لایا جاتا تو تبدیلی نظر آتی۔ کوئی مخلص شخص اس حلقے سے نامزد کیا جاتا تو بات سمجھ میں آتی مگر ہوا یہ کہ ایسے شخص کو تبدیلی کا سمبل بنایا جارہا ہے جس کے ساتھ وابستہ کہانیوں میں ایک کہانی بھی ایسی نہیں جسے باعث فخر کہا جاسکے اور شہرت ایسی کہ '' تبدیلی‘‘ کے نام سے ہی خوف طاری ہوجائے ۔ رہ گئی بات خرگوش کو ٹکٹ جاری کرنے کی ، تو یہ صرف ابتدا ہے۔ اگلے الیکشن میں سعودی عرب والی اصطلاح کے معنوں میں بے شمار خرگوش اپنی اپنی پارٹیوں کے ویزے لے کر عین وقت پرغائب ہوجائیں گے اور نئے پاکستان کے دعویداروں میں شامل ہوجائیں گے۔ ملتان والا خرگوش بارش کا پہلا قطرہ سمجھیں۔ اگلے الیکشن پر ان خرگوشوں کی زور دار بارش ہوگی۔ ملتان میں اعجاز جنجوعہ جیسے پرانے ورکر اور عہدیدار ہر جگہ پر آسمان سے گرنے والے خرگوشوں کو امیدوار بنتے دیکھیں گے۔ اگر تبدیلی کے دعویدار پہلے خرگوش کی آمد پر خوشی سے ڈھول پیٹ رہے ہیں تو اگلے خرگوشوں کی فتح پر بھی تالیاں پیٹنے پر مجبور ہوں گے۔ اللہ کی شان ہے۔ یہ نیا پاکستان ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں