"KMK" (space) message & send to 7575

اللہ تعالیٰ بڑے ’’معذوروں‘‘ پر اپنا کرم فرمائے

معذوروں کے عالمی دن پر دنیا بھر میں معذوروں کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ انہیں معاشرے میں مزید بہتر‘ باعزت اور امتیازی مقام دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ لاہور میں اس دن کے حوالے سے اپنے غصب شدہ حقوق کی آواز بلند کرنے والے نہتے نابینائوں پر وحشیانہ تشدد کر کے ثابت کیا گیا کہ پاکستان میں حکمران طبقہ بے وسیلہ معذوروں کے بارے میں دنیا بھر سے علیحدہ سوچتا ہے۔ یہ نہایت ظالمانہ اور شرمناک فعل تھا اور اس پر دیے جانے والے بیانات مزید شرمناک تھے۔ 
میں چند سال قبل لاس اینجلس کے نواحی شہر آرٹیشیا میں شفیق کے پاس ٹھہرا ہوا تھا۔ ایک صبح کیا دیکھتا ہوں کہ اچھے بھلے مضبوط اور نئے فٹ پاتھ جگہ جگہ سے توڑے جا رہے ہیں۔ فوری طور پر اس توڑ پھوڑ کی کوئی وجہ سمجھ نہ آئی۔ میں شام کو واپس آیا تو کئی توڑی جانے والی جگہوں پر سڑک اور فٹ پاتھ پر ڈھلوان بنا کر پلستر کیا جا چکا تھا اور یہی کام مزید آگے بھی کیا جا رہا تھا۔ دو تین دن میں سارے شہر کے فٹ پاتھ توڑ کر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ڈھلوان بنا دی گئی۔ میں نے شفیق سے پوچھا تو پتہ چلا کہ سٹی کونسل نے ویل چیئر کے ذریعے نقل و حرکت کرنے والے معذوروں کی آسانی کے لیے یہ قرارداد پاس کر کے ایک لوکل قانون وضع کیا ہے کہ ہر سو گز کے فاصلے پر کم از کم ایک Handicaps ramp (معذوروں کے لیے ڈھلوان) بنایا جائے تاکہ ویل چیئر پر نقل و حرکت کرنے والے معذوروں کو فٹ پاتھ سے نیچے اتر کر سڑک کی دوسری طرف جانے میں سہولت اور آسانی ہو اور وہ کسی تکلیف یا دقت کے بغیر اپنی نقل و حرکت کو باسہولت بنا سکیں۔ معذوروں کی مزید 
سہولت کے لیے یہ لازم قرار دیا کہ ایک ڈھلوان کے عین مقابل سڑک کی دوسری طرف بھی اسی قسم کی ڈھلوان بنائی جائے تاکہ سڑک کی دوسری طرف جانے والے ویل چیئر سوار کو فٹ پاتھ پر چڑھنے میں کسی قسم کی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سارے شہر کی فٹ پاتھیں جگہ جگہ سے توڑی گئیں اور اس طریقے سے ان کو تعمیر کیا گیا کہ ویل چیئرز نہایت آسانی اور سہولت کے ساتھ اوپر نیچے آ جا سکیں۔ کام میں کہیں تکنیکی یا تعمیراتی سقم نہ تھا کہ محض خانہ پری کی جاتی اور معذور اس حقیقی سے محروم رہتے جن کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ قانون بنایا گیا تھا اور اس کے مطابق ساری توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔ 
آرٹیشیا سے جڑے ہوئے شہر سیروٹوز میں یہ سب کچھ پہلے ہی ہو چکا تھا۔ میں نے غور کرنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ ساتھ ملحقہ اورنج کائونٹی‘ یوربا لنڈا اور ایناہائم وغیرہ میں بھی تمام فٹ پاتھیں ویل چیئر فرینڈلی بنائی جا چکی تھیں۔ ان ڈھلوانوں کے طفیل معذور اپنی ویل چیئر کو آسانی سے اوپر نیچے لے آتے تھے اور سڑک پار کرنے میں اس سہولت کو استعمال کرتے تھے۔ وہاں کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ علاقے میں معذور کتنے ہیں؟ کتنے افراد ویل چیئر استعمال کرتے ہیں؟ یا اس سارے کام پر کتنا خرچہ ہوگا؟ مدنظر یہ تھا کہ خواہ ایک معذور بھی اس سے مستفید ہوتا ہے تو پراجیکٹ اپنی افادیت کے حساب سے اتنا اہم ہے کہ خرچہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کسی بزرجمہر نے اس سارے کام کے دوران 
اکنامکس کا نہایت اہم قانون Law of marginal utility کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اس ساری سہولت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نہ سوچا جائے کہ شاید اس علاقے میں معذور کی کوئی فوج ظفر موج رہائش پذیر تھی جس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کام کیا گیا تھا۔ مجھے اس سارے علاقے میں جو میلوں پر محیط تھا‘ پانچ چھ دنوں کے دوران مشکل سے چار پانچ معذور اس ساری سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نظر آئے۔ 
سارے امریکہ اور یورپ کا یہی حال ہے۔ لوگ نہ صرف یہ کہ معذوروں کو معاشرے میں خصوصی سہولتوں کا مستحق سمجھتے ہیں اور ان کے لیے بے شمار سہولتوں کا اہتمام کرتے ہیں بلکہ انہیں صحت مند معاشرے کا حصہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس غرض سے وہ ان کی جسمانی معذوری کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے لیے خصوصی نوکریاں ڈیزائن کرتے ہیں۔ انہیں معاشرے کا کارآمد حصہ بنانے کی غرض سے ان کے کام کرنے کی جگہ کو ان کی معذوری کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے مطابق بناتے ہیں۔ پارکنگ کے لیے معذوروں کی جگہ مخصوص ہے جہاں ویل چیئر کا علامتی نشان بنا ہوتا ہے۔ کوئی ہٹا کٹا اور صحت مند شخص اس مخصوص پارکنگ کو استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہر جگہ پر جہاں سیڑھیاں ہیں‘ ویل چیئر کے لیے ڈھلوان موجود ہے۔ ہر دفتر‘ پلازہ‘ کاروباری مرکز اور عوامی مقامات پر معذوروں کے لیے خصوصی بنے ہوئے ٹائلٹس موجود ہیں۔ بے شمار کمپنیاں خودکار ویل چیئر اور معذوروں کے لیے چار پہیوں والی بیٹری سے چلنے والی چھوٹی چھوٹی گاڑیاں جنہیں شاید گاڑی کہنا مناسب نہیں بس ٹرالی ٹائپ خودکار چار پہیوں والی موٹر سائیکل نما چیز ہوتی ہے جسے بزرگ مرد و خواتین چلائے پھرتے ہیں۔ معذور بچوں کی دیکھ بھال کا یہ عالم ہے کہ معذور بچوں کے مر جانے پر ان کے والدین کسی صحت مند بچے کے مر جانے سے زیادہ دکھی ہوتے ہیں کہ معذور بچے کے لیے گورنمنٹ ان کے والدین کو خصوصی ماہانہ رقم دیتی ہے۔ اگر ماں اپنے بچے کی دیکھ بھال کرے تو اسے اس ''خدمت‘‘ کا معاوضہ دیا جاتا ہے جو اچھی بھلی نوکری سے زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ 
جناب عمرؓ مدینے کی گلی سے گزر رہے تھے کہ ان کی نظر ایک نابینا شخص پر پڑی جو خیرات مانگ رہا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے یہ دیکھا تو ساتھ کھڑے بیت المال کے انچارج سے استفسار کیا کہ اس ضعیف شخص کو بیت المال سے وظیفہ کیوں نہیں دیا جا رہا؟ یہ نابینا اور معذور ہے اور اس کا حق بیت المال پر دیگر مستحقین سے کہیں زیادہ ہے۔ عرض کیا کہ یہ شخص مدینہ شہر کا رہائشی نہیں ساتھ والی بستی سے آیا ہے اور یہ مسلمان بھی نہیں‘ یہودی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ جیسے جلیل القدر خلیفہ کی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔ فرمایا: اسلامی ریاست ہو‘ مدینہ شہر ہو‘ اللہ کی حاکمیت ہو‘ عمر کی حکومت ہو اور ایک نابینا شخص خیرات مانگ رہا ہو۔ بھلے سے وہ یہودی ہی کیوں نہ ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جوانی میں ہمیں جزیہ دے اور بڑھاپے میں خیرات مانگے؟ اس کو بیت المال سے وظیفہ دیا جائے۔ آج ہم جو سبق بھول گئے وہ ان لوگوں نے اپنا لیا ہے جن کے پاس نہ تو کوئی ایسی روایت تھی اور نہ ہی ہدایت۔ 
ایک خاتون کا فرمانا ہے کہ اگر وزیراعلیٰ اور وزیراعظم پاکستان میں ہوتے تو ایسا کبھی نہ ہوتا۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پاکستان میں ہی تھے جب ماڈل ٹائون کی سڑکوں پر چودہ بے گناہ بشمول حاملہ خواتین کو نہایت بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا۔ آج وزیراعلیٰ قطر میں ہیں۔ تب وزیراعلیٰ گورنر ہائوس لاہور میں تھے۔ اگر نظام بنا ہو تو ایسے واقعات نہ ہوں مگر یہاں نظام نہیں شخصی حکومتیں ہیں اور ان حکومتوں کے کاسہ لیس ہمیں بار بار یہی باور کروانے میں مصروف ہیں کہ یہ حکومت کسی سسٹم کے تحت نہیں بلکہ افراد کے زیر سایہ چل رہی ہے۔ کبھی چودہ لوگ مار دیے جاتے ہیں اور کبھی اپنے لیے نوکریوں میں مخصوص دو فیصد کوٹے میں ہونے والی زیادتی پر احتجاج کرنے والے مظلوم نابینائوں پر ریاستی تشدد ہوتا ہے۔ لاہور میں ظلم و تشدد کا نشانہ بننے والے یہ لوگ صرف دیکھنے سے معذور تھے مگر ہمارے حکمران دیکھنے‘ سننے‘ سوچنے سمجھنے اور کچھ اچھا کرنے کی صلاحیتوں سے عاری اور معذور ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان بڑے اور اصل ''معذوروں‘‘ پر رحم اور کرم فرمائے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں