"KMK" (space) message & send to 7575

وزیراعلیٰ کا میٹرو سے عشق اور ایک مسترد کردہ فزیبلیٹی

بڑے میاں صاحب کو موٹروے کا شوق ہے تو چھوٹے میاں صاحب کو میٹرو کا جنون۔ پہلے لاہور اور اب راولپنڈی اسلام آباد اور ملتان۔ ملتان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں اس سلسلے میں چیمبر کے ممبران اور عام شہریوں سے مکالمہ ہوا تو اکثریت نے اس منصوبے کو مسترد کردیا۔ اس مکالمے میں کمشنر اور ڈی سی او ملتان موجود تھے۔ خدا جانے انہوں نے اوپر کیا رپورٹ پہنچائی مگر ہوا یہ کہ تقریباً سارے شہر کی مخالفت کے باوجود میاں شہبازشریف نے فیصلہ سنایا کہ میٹرو تو بہرحال بنے گی۔ ملتان والے چاہیں یا نہ چاہیں۔ ضرورت ہو یا نہ ہو۔ میٹرو بنانے کا فیصلہ ملتان والوں نے نہیں لاہور والوں نے کرنا ہے۔ سو ملتان میں میٹرو بن رہی ہے۔ اس عاجز نے لکھا کہ ہم ملتان والوں کو میٹرو سے کہیں زیادہ دیگر چیزوں کی ضرورت ہے۔ صاف پانی کی ضرورت ہے۔ نہانے کے لیے نہیں ، صرف پینے کے لیے۔ سیوریج کا مسئلہ درپیش ہے۔ صحت و صفائی کے مسائل ہیں اور بڑے گمبھیرہیں۔ آئوٹر رنگ روڈ کی تکمیل چاہیے کہ چونسٹھ کلومیٹر میں سے بیس کلومیٹر پر ابھی تک کام ہی شروع نہیں ہوسکا۔ انررنگ روڈ کی تکمیل چاہیے کہ سارا شہر تنگ و پریشان ہے۔ سرکلر روڈ کو کھلا کیا جائے کہ بے شمار مخلوق خدا روز خواروخستہ ہوتی ہے مگر شنوائی ندارد۔
لاکھوں روپے لگاکر ایک جعلی سروے کروایاگیا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مکمل جھوٹ اور فراڈ پر مبنی پورے شہر میں کوئی اللہ کا بندہ ایسا نہ ملا جس نے کہا ہو کہ وہ اس سروے سے واقف ہے۔ خود ساختہ اعداد اور اس کی بنیاد پر اخذ کیے گئے جعلی نتائج۔ مگر کیا ہوسکتا ہے؟ ملتان میں برسوں پہلے جب کچہری چوک پر فلائی اوور بنانے کے لیے سروے کیاگیا تو ٹریفک کے اعدادو شمار نے یہ بتایا کہ اس جگہ پر فلائی اوور کی ضرورت نہیں۔
زیادہ گاڑیوں کا واسطہ چوک سے پڑتا تھا نہ کہ چوک سے بالا بالا آگے چلے جانے کا۔ اب فلائی اوور کیسے بنتا؟ ایک اور سروے کیاگیا۔ پہلے سروے سے محض دو ماہ بعد ہی سارے اعدادو شمار بدل گئے۔ پہلے پچیس فیصد ٹریفک چوک سے آگے جاتی تھی صرف دو ماہ میں ہی ملتان کی ساری ٹریفک کا قبلہ تبدیل ہوگیا اور اچانک ہی انکشاف ہوا کہ آگے جانے والی ٹریفک پچیس فیصد نہیں بلکہ پچاس فیصد سے زائد ہے۔ لہٰذا اس فلائی اوور کا بننا سروے کے مطابق درست قرار پایا اور یہ فلائی اوور بن گیا۔ سروے میں ٹریفک کے بہائو کی تبدیلی دراصل وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف کے ارادے کی پختگی کے طفیل عمل میں آئی۔ یہی حال اس بار ملتان میں میٹرو بس کے سلسلے میں ہوا۔ اس عاجز نے جس سے بھی اس موضوع پر بات کی اسے اس منصوبے کا مخالف پایا۔ خدا جانے وہ کون سے لوگ تھے اور کہاں سے آئے تھے جو اس سروے میں میٹرو کے حامی تھے۔ اللہ کی اللہ ہی جانتا ہے۔
بوسن روڈ ابھی سال ڈیڑھ پہلے ہی مکمل ہوا ہے بلکہ ابھی بھی کہاں مکمل ہوا؟ چھ نمبر چونگی چوک اپنے بارے فیصلے کا منتظر ہے اور نامکمل پڑا ہے کہ اس پر فلائی اوور بننا ہے یا نہیں۔ اب میٹرو کی وجہ سے یہ شش و پنج مزید بڑھ گیا ہے کہ فلائی اوور کیسا ہونا چاہیے۔ صورتحال یہ ہے کہ ابھی بوسن روڈ سو فیصد مکمل نہیں ہوا اور میٹرو کا بم آن گرا ہے۔ ایک سو بیس فٹ چوڑی سڑک کے کنارے دوبارہ پلازے بن گئے ہیں اور دکانیں سج چکی ہیں۔ ابھی ان دکانوں کا رنگ خشک نہیں ہوا اور پلازوں کا پلستر ٹھیک طرح سے سوکھا بھی نہیں اور میٹروبس کے طفیل ایک اور اکھاڑ پچھاڑ سب کچھ تہہ و بالا کرنے کی منتظر ہے۔ اگر سڑک مزید چوڑی کی جاتی ہے تو سال ڈیڑھ تک کاروبار کی بندش کے بعد بمشکل دوبارہ سیٹ ہونے والے دکاندار ایک بار پھر اسی تباہی سے دوچار ہوں گے جس سے وہ ابھی پوری طرح سنبھلے بھی نہیں۔ اس سلسلے میں زمین کی خریداری پر جو خرچہ آئے گا وہ بلا مبالغہ کروڑوں میں نہیں شاید اربوں میں ہوگا کہ لوگوں نے سڑک میں توسیع کے بعد سڑک کے کنارے پر کثیر منزلہ پلازے ، دکانیں اور دفاتر بنالیے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ سڑک کو مزید چوڑا کیے بغیر درمیان میں میٹرو بس کا ٹریک بنادیا جائے۔ یعنی ایک سو بیس فٹ چوڑی سڑک کے درمیان تقریباً تیس فٹ کی جگہ پرمیٹرو بس چلا دی جائے اور دونوں اطراف میں پینتالیس پینتالیس فٹ کی سڑک بنا دی جائے۔ اس سے موجودہ سروس روڈ ختم ہوجائے گی یا ایک لین کم کرنی پڑے گی اور اس طرح بوسن روڈ دوبارہ پہلے کی مانند ایک تنگ سڑک بن جائے گی۔ بوسن روڈ ملتان کی ایسی سڑک ہے جس پر یونیورسٹی ، ملتان پبلک سکول، پی آئی اے ، واپڈا، ایم ڈی اے ، سمال انڈسٹریز ہائوسنگ سکیمیں موجود ہیں ۔ خواتین یونیورسٹی، نئی کچہری اور مجوزہ ڈی ایچ اے بننے جارہی ہے۔ ایسی صورت میں یہ سڑک ٹریفک کے دبائو کو ہرگز برداشت نہیں کرسکے گی۔
یہ بات طے ہے کہ خادم اعلیٰ میٹرو کے مسئلے پرکسی سمجھدار کا مشورہ ماننا تو کجا سننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ میاں شہبازشریف کے لیے میٹرو تقریباً عزت کا مسئلہ ہے اور وہ اسے ہر حال میں مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ بقول شخصے یہ میاں شہبازشریف کے نزدیک نشان حیدر جیسا تمغہ ہے جسے وہ اپنے سینے پر سجائے بغیر مانیں گے نہیں۔ ایسی صورت میں اب اس کا کیا حل ہے کہ میٹرو بھی چل جائے اور بوسن روڈ یا اس کے کنارے چلنے والے کاروبار بھی برباد نہ ہوں۔ گزشتہ سے پیوستہ روز میں ایک دوست کے بیٹے کے ولیمے کی دعوت میں شریک تھا کہ وہاں میری ملاقات اپنے ایک دوست صوبائی وزیر سے ہوگئی۔ میرا یہ دوست میٹرو کا پرزور حامی ہے اور ان چند لوگوں میں سے ہے جو اس پروجیکٹ کے ذاتی طور پر حامی تھے وگرنہ بہت سے عوامی نمائندے تو ایسے تھے کہ وہ اکیلے میں اس پروجیکٹ میں کیڑے نکالتے اور وزیراعلیٰ کے سامنے اس پروجیکٹ کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملانے لگ جاتے ۔ یہ وزیر اس پروجیکٹ کا دلی حامی تھا اور اب بھی ہے۔ اس سے اس مسئلے پر بات ہوئی تو وہ سڑک کو مزید کھلا کرکے درمیان میں میٹروبس چلانے کی بات کرنے لگا۔ میں نے اسے کہا کہ کیا ممکن نہیں کہ جو پیسہ آپ نے زمین اور لوگوں کی جائیداد خریدنے پر صرف کرنا ہے اس سے آپ پورے بوسن روڈ پر Elivateیعنی فلائی اوورٹائپ معلق سڑک بناسکتے ہیں۔ میں نے اس سلسلے میں تعمیراتی معاملات سے متعلقہ شخص سے بات کی تھی اس کے حساب سے ایلی ویٹڈ میٹرو روٹ بنانے اور زمین خریدنے کے خرچے میں محض دو سے تین فیصد فرق ہے لیکن اس سے جو سب سے فائدہ ہوگا وہ یہ کہ شہر دو حصوں میں تقسیم نہیں ہوگا۔ میٹرو بس صرف میٹروبس رہے گی جنگلا بس نہیں بنے گی۔ میرا وہ دوست وزیر کہنے لگا کہ ایساممکن نہیں۔ میٹرو بنے گی اور بوسن روڈ پر سڑک پر بنے گی۔ میں نے کہایہ بات درست ہے کہ ہم لوگ میٹرو کو بننے سے نہیں روک سکتے مگر اس کے منصوبے میں بہتری کے لیے زور لگا سکتے ہیں اور ہم اس کے لیے پورا زور لگائیں گے۔ امید ہے وزیراعلیٰ کم از کم عقل کی یہ بات تو مان لیں گے۔ ان کی ضد اپنی جگہ مگر مجھے یقین ہے کہ ان کی عقل سے دشمنی ہرگز نہیں ہے۔
کیا کوئی ایسا سمجھدار ہے جو وزیراعلیٰ کو ایلی ویٹڈ میٹرو ٹریک کی بابت کچھ بتا سکے؟ ملتان سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی سے تو اس عقلمندی یا بہادری کی توقع رکھنا حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ یہ کام بڑا سادہ ہے۔ وزیراعلیٰ صرف ایلی ویٹڈ میٹرو ٹریک پر سٹڈی کروالیں اور اس کا دونوں طرف پندرہ پندرہ فٹ زمین خریدنے پر ادا ہونے والی رقم سے موازنہ کرلیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ وزیراعلیٰ کی خواہش بھی پوری ہوجائے گی اور ہم جنگلے کے آر پار رہنے کے بجائے میٹرو کے ''زیر سایہ‘‘ سکون سے زندگی گزار لیں گے۔ لیکن ایک سوال ایسا ہے جو عرصہ سے میرے ذہن میں اٹھتا ہے اور کوئی جواب نہ پاکر پھر بیٹھ جاتا ہے۔ میاں شہبازشریف کو میٹرو سے اتنا ہی عشق ہے تو پھر فرانس کی مشہور زمانہ کنسلٹنسی فرم سسٹرا(Systra)کی فزیبلیٹی میں کیا خرابی تھی؟ اسے مسترد کرنے کے پیچھے کیا عوامل کار فرما تھے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں