"KMK" (space) message & send to 7575

تشکر

گزشتہ ایک ہفتے سے پھر وہی مسافرت۔ ملتان سے لاہور‘ لاہور سے اسلام آباد اور وہاں سے کراچی۔ اسلام آباد سے ملتان آنا تھا۔ ایئر لائن کا ایس ایم ایس آیا کہ آپ کی فلائٹ بروقت ہے۔ احتیاطاً ایک دوست کو جو اس ہوائی کمپنی میں بڑا افسر ہے فون کیا۔ پرواز کی صورتحال پوچھی۔ اس نے کہا کہ وہ چند منٹ بعد فون کرے گا اور متعلقہ افراد سے بات کر کے کنفرم کرے گا۔ پانچ سات منٹ بعد اس کا فون آیا اور بتایا کہ پرواز بروقت ہے۔ میں نے ایئرپورٹ کی طرف دوڑ لگائی اور بروقت یعنی پرواز سے ایک گھنٹہ قبل ایئرپورٹ پہنچ گیا۔ بورڈنگ پاس لیا اور لائونج میں پہنچ گیا۔ پرواز کا مقررہ وقت شام پونے چھ بجے تھا۔ تقریباً چھ بجے ہمیں کہا گیا کہ چل کر جہاز میں بیٹھ جائیں۔ ہم جہاز میں بیٹھ گئے۔ پندرہ بیس منٹ جہاز میں بیٹھے رہے۔ اس کے بعد جہاز میں تھوڑی حرکت ہوئی۔ سیٹ بیلٹ باندھنے کا اعلان ہوا۔ کرسی کی پشت سیدھی کرنے کی ہدایت فرمائی گئی۔ اسی دوران طارق قریشی کا فون آ گیا۔ اسے کہا کہ جہاز بس اڑنے ہی والا ہے لہٰذا وہ بعد میں فون کرے۔ طارق کا فون بند کیا اور دعائے سفر پڑھی۔ جہاز نے اڑان بھرنے کے لیے انجنوں کی رفتار بڑھا دی‘ لیکن ایک منٹ بعد ہی ایک انجن بند کردیا۔ جہاز کا رُخ دوبارہ ہوائی اڈے کی عمارت کی طرف موڑ دیا گیا اور اعلان ہوا کہ ہم واپس ایئرپورٹ کی جانب جا رہے ہیں۔ راستے کا موسم خراب ہے۔ جونہی موسم ٹھیک ہوا ہم ملتان روانہ ہو جائیں گے۔ ساڑھے چھ بجے کے قریب ہم دوبارہ لائونج میں تھے۔ اب اصل کام‘ یعنی انتظار شروع ہوا۔ 
جب ہم واپس لائونج میں پہنچے اور وہاں لگی ایل سی ڈی پر جہازوں کی روانگی بارے چلتی ہوئی معلومات کو پڑھا تو پڑھ کر نہایت ہی ''خوشگوار حیرت‘‘ ہوئی کہ یہاں دی گئی تازہ ترین معلومات کے مطابق ہماری پرواز‘ جس کے مسافر لائونج میں بیٹھے تھے اور جہاز سامنے میدان میں کھڑا تھا ''روانہ ہو چکی ہے‘‘۔ تقریباً اگلا ایک گھنٹہ ہماری پرواز کا یہی سٹیٹس جگمگاتا رہا۔ پھر ''تاخیر‘‘ کا لفظ جلنے لگ پڑا۔ لائونج میں پوری ہوائی کمپنی کا ایک بھی افسر یا نمائندہ نہیں تھا‘ جو تازہ صورتحال بتاتا۔ تاخیر کا کوئی وقت بتاتا۔ موسم کا حال سناتا اور کوئی اگلا اعلان کرتا۔ کسی مسافر کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ اس کا مستقبل کیا ہے۔ 
میں دوبارہ نیچے بورڈنگ ہال میں گیا۔ سارے کائونٹر خالی تھے۔ پتہ چلا سات بجے شفٹ تبدیل ہوئی۔ سات بجے والے جا چکے ہیں اور اگلی شفٹ والے ابھی آئے ہی نہیں۔ اسی دوران کراچی کی فلائٹ کا اعلان ہوا کہ اس کی روانگی میں بھی تاخیر ہے۔ اپنے ذرائع سے پتہ کیا تو پتہ چلا کہ جہاز میں فنی خرابی ہے اور اس کے ٹھیک ہونے کے فوری امکانات معدوم ہیں۔ اس جہاز کے درجنوں مسافروں نے کراچی سے آگے عمرے کے لیے سعودی عرب کی پرواز پکڑنی تھی مگر انہیں بھی ہر گھنٹے بعد مزید تاخیر کی خوشخبری قسطوں میں سنائی جا رہی تھی۔ مسافر پریشان تھے اور عملہ غائب تھا۔ یہ صورتحال کا سامنا کرنے کا نہایت ہی کامیاب اور مقبول عام طریقہ ہے۔ عملہ سرے سے غائب ہو جاتا ہے۔ مسافر لائونج میں ایک پنجابی محاورے کے مطابق ''گمشدہ گائے کی طرح پھر رہے تھے‘‘۔ مسلسل مسافرت اور اسی قسم کی صورتحال سے سینکڑوں بار گزرنے کے بعد یہ عاجز ایک ''متوکل مسافر‘‘ کے درجے پر فائز ہو چکا ہے۔ پریشانی‘ تنائو‘ غصہ یا افسوس۔ اب یہ مسافر ان چیزوں سے آگے جا چکا ہے لہٰذا کڑھنے یا دل جلانے کے بجائے فون میں ڈائون لوڈ کی ہوئی معین نظامی کی کتاب ''طلسمات‘‘ کھول کر پڑھنی چاہی۔ فون کی بیٹری فوت ہو چکی تھی۔ چارجر نکالا اور چارج کرنے کے لیے سوئچ کی تلاش شروع کی۔ جو سوئچ خالی تھے پتہ چلا خراب ہیں اور جو ٹھیک تھے ان پر اتنا رش تھا کہ ایک انار سو بیمار والا معاملہ تھا۔ ایک نوجوان نے پہچان کر آفر کی کہ میں اس کے چارجر کی جگہ پر اپنا چارجر لگا لوں۔ فون میں تھوڑی جان آئی تو کتاب کھولی۔ یہ عاجز کتاب کو اسی صورت میں پڑھنا پسند کرتا ہے جو کتاب سے منسوب ہے۔ یعنی کاغذ پر چھپی ہوئی ہو۔ سکرین پر پڑھنا اس مسافر کے لیے کبھی خوشگوار نہیں ہوتا مگر مجبوری میں سب چلتا ہے۔ صفحے پلٹتے ہوئے خیال آیا کہ لوگ دیوان حافظ سے فال نکالتے تھے۔ ''طلسمات‘‘ سے فال نکالی جائے۔ انڈیکس سے صفحہ نمبر ستاسی پر انگلی رکھی۔ نظم نکلی ''تشکر‘‘۔ اس نظم نے ان حالات میں دل کو مزید پرسکون اور ٹھنڈا رکھنے میں جادوئی اثر کیا۔ آپ بھی لطف اندوز ہوں۔ 
تشکر 
ہمارے دل کی قسمت میں 
اگر یوں دربدر ہونا ہی لکھا ہے 
تو ہم خوش ہیں 
سرتسلیم خم کرتے ہیں 
اور اپنی زبان شکر طینت کو 
گنہ گار شکایت کر کے آلودہ نہیں کرتے 
ہمیں اچھا نہیں لگتا 
کہ شکوہ کر کے مردودِ محبت ہوں 
ہمیں اچھا نہیں لگتا 
رضائے جان جاناں پر دلِ ناعاقبت اندیش ناخوش ہو 
سو ہم اس دربدر ہونے کی ذلت کو 
کرم کی اک ادائے خاص کہتے ہیں 
اور اس میں مست رہتے ہیں 
......... 
میرے لیے تو اس نظم کا مفہوم ہی کچھ اور ہے۔ کبھی یہ مسافر شوقیہ سفر کرتا تھا‘ اب دل لگانے کے لیے سفر کرتا ہے اور دربدر پھرتا ہے۔ یہ دربدری اب زندگی کا حصہ ہے اور خود کو مصروف رکھنے کا بہانہ۔ اس پر پھر کبھی سہی۔ 
رات نو بجے ملتان کی پرواز منسوخ کرنے کا اعلان ہوا۔ اب سوچا کہ کیا کیا جائے؟ بذریعہ سڑک ملتان روانہ ہوں یا واپس چک شہزاد جائوں اور برادرم کے پاس رات گزاروں؟ مسافر دل نے دونوں تجاویز رد کردیں۔ کراچی کی فلائٹ کا اعلان ہو رہا تھا کہ اس میں مزید تاخیر ہے۔ لائونج سے باہر جا کر ایئرلائن کے کائونٹر پر جا کر اسلام آباد سے ملتان والی ٹکٹ کو ریفنڈ کروایا اور تھوڑے پیسے اور ڈال کر کراچی کا ٹکٹ لے لیا۔ اسی دوران ملتان سے بیٹی کا فون آیا کہ بابا! کیا بنا؟ فلائٹ کب چل رہی ہے؟ میں نے کہا کہ میں کراچی جا رہا ہوں۔ بیٹی نے حیرت سے کہا کراچی! میں نے کہا ہاں کراچی۔ بیٹی ہنسنے لگ گئی۔ پھر بولی۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ کے پاس پاسپورٹ نہیں ہے وگرنہ آپ تو کسی بھی ایسی پرواز پر چڑھ جاتے جو یہاں سے روانہ ہو رہی ہوتی۔ 
رات کراچی سے واپس پہنچا ہوں۔ پرواز کا مقررہ وقت شام ساڑھے چھ بجے تھا؛ تاہم پرواز رات گیارہ بجے روانہ ہوئی۔ تفصیلات دہرانا بیکار ہیں۔ میں نے اس دوران معین نظامی کی نظم درجنوں بار پڑھی۔ آپ بھی کم از کم ایک بار دوبارہ پڑھیں۔ لطف نہ آئے تو یہ عاجز جرمانہ دینے کے لیے تیار ہے۔ 
ہمارے دل کی قسمت میں 
اگر یوں دربدر ہونا ہی لکھا ہے 
تو ہم خوش ہیں 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں