"KMK" (space) message & send to 7575

خوشیوں کا مفہوم

کالم میں کئی دن کا وقفہ، وجہ وہی پرانی یعنی سفر ۔ اب کا سفر پہلے والوں سے قطعاً مختلف تھا۔ امریکہ میں مشاعرہ نہیں تھا لیکن میں امریکہ میں ہوں۔ امریکی ریاست مشی گن کے شہر گرینڈ ریپڈز میں میڈیکل ریذیڈنسی کرتی ہوئی میری بڑی بیٹی کی خواہش تھی کہ نئے آنے والے مہمان کے کان میں اذان میں دوں۔ سو اس کی خواہش کی تکمیل کی غرض سے مجھے گرینڈ ریپڈز آنا پڑا۔ ملتان سے لاہور، لاہور سے ابوظہبی، وہاں سے شکاگو اور بالآخر گرینڈ ریپڈز۔ اس سارے سفر میں چون گھنٹے یعنی دو دن چھ گھنٹے لگ گئے۔ اس سارے سفر کے بعد جب میں رات ساڑھے دس بجے اپنی بیٹی کے گھر پہنچا تو تقریباً تازہ دم ہی تھا؛ تاہم سفیان کو دیکھنے کا سوچ کر ہی جو تھوڑی بہت تھکاوٹ تھی وہ بھی اتر گئی۔ پہلے پانچ سات منٹ مشکل تھے لیکن اس کے فوراً بعد میں نے اپنے نواسے کے کان میں اذان دی اور یہ فریضہ مکمل کرتے ہی میں نے بیٹی کو کہا اب میرا کام تو ختم ہوگیا ہے کیا میں صبح واپس ملتان جا سکتا ہوں ؟ میری بیٹی ہنسنے لگ گئی۔ اس نے مذاق میں بھی میری تائید نہ کی اسے پتا تھا کہ میں یہ کام کرسکتا ہوں۔
میری ملتان سے روانگی سے دو دن قبل سے گھر میں ساری گفتگو کا محور صرف اور صرف سفیان تھا۔ بڑی خالہ اور چھوٹی خالہ یعنی میری منجھلی اور چھوٹی بیٹی پہلی بار میرا سامان پیک کررہی تھیں بلکہ میرا سامان کیا پیک کرنا تھا انہوں نے اپنے بھانجے کا سامان پیک کیا۔ اسد نے پہلی بار کوئی فرمائش نہ کی اور انعم نے بھی پہلی بار ہی میرے سفر پر کوئی اعتراض نہ کیا۔ سارے بچے ہی اس بار اس سفر کی تیاریوں میں سرگرم تھے وگرنہ یہ ہوتا ہے کہ میں روانگی سے دو تین گھنٹے پہلے اپنا بیگ نکالتا ہوں ہر بار ارادہ کرتا ہوں کہ اگلی بار دو تین دن پہلے بیگ پیک کرلوں گا مگر ہر بار بھول جاتا ہوں اور حسب معمول روانگی سے چند گھنٹے پہلے افراتفری مچاتا ہوں۔ ہر سفر سے پہلے میں اپنی چھوٹی بیٹی کو کہتا ہوں کہ وہ اپنی مرضی کے کپڑے نکال کر بیگ میں ڈال دے۔ وہ پوچھتی ہے کتنے دنوں کے لیے جانا ہے؟ میں کہتا ہوں پندرہ دن کے لیے ۔وہ بارہ پندرہ شرٹس اور آٹھ دس پینٹیں نکال کر رکھ دیتی ہے۔ میں ہمیشہ اسے کہتا ہوں کہ بچے اس نے سال بھر کا نہیں کہا پندرہ دن کا کہا ہے۔ پھر ان کپڑوں میں سے دو پینٹیں اور تین شرٹیں بیگ میں رکھ لیتا ہوں۔ چھوٹی بیٹی ہنس کر کہتی ہے کہ اگر آپ نے اپنی مرضی ہی کرنی تھی تو مجھ سے کیوں کہا تھا؟ میں جواباً اسے کہتا ہوں کہ کپڑوں کی پسند نا پسند پر اس کا اختیار ہے تاہم تعداد پر میری مرضی چلے گی۔ وہ کہتی ہے چلیں آپ مرضی چلائیں مگر ایک بات بتا دوں ۔ شرٹس اور پینٹیں کا کمبی نیشن بالکل غلط ہے۔ ان تینوں پینٹوں کے ساتھ آپ نے جو شرٹس رکھی ہیں وہ ان پینٹوں کے ساتھ چل سکتی تھیں جو آپ نے نکال کر پھینک دی ہیں آپ یا شرٹس تبدیل کریں یا پینٹیں دوسری رکھیں۔میں کہتا ہوں میں دوسری بار بھی غلط جوڑے ملائوں گا لہٰذا یہ کام بھی تمہیں کرنا ہوگا۔ وہ دو تین ٹائیاں بھی بیگ میں رکھتی ہے جو میں اس کی آنکھ بچا کر نکال دیتا ہوں میں سفر میں کم سے کم سامان ساتھ رکھنے کا قائل ہوں۔
میری چھوٹی بیٹی پوچھتی ہے کہ آپ اتنے دن اتنے تھوڑے کپڑوں میں کیسے گزار لیتے ہیں ؟ میں ہر بار اسے بتاتا ہوں کہ میں سفر میں کپڑے ساتھ کے ساتھ دھلواتا رہتا ہوں۔ اللہ ہر جگہ اس کا بندوبست کروا دیتا ہے۔ وہ کہتی ہے آپ صرف تین شرٹس بار بار پہنتے ہوئے تنگ نہیں آجاتے ؟ میں کہتا ہوں ،مجھے ایک شہر میں وہ شرٹ دوبارہ پہننے کا موقع ہی کہاں ملتا ہے؟ اب اس کا اعتراض ہوتا ہے کہ آخر آپ کی تصویریں تو ایک ہی شرٹ میں بار بار آتی ہوں گی۔ میں اسے بتاتا ہوں کہ میں تصویر نہیں دیکھتا۔ وہ تنگ آکر کہتی ہے لیکن لوگ تو دیکھتے ہیں وہ کیا کہتے ہوں گے؟ میں کہتا ہوں کہ اب میں صرف لوگوں کو مختلف کپڑوں میں تصویریں دکھانے کی خاطر وزن نہیں اٹھا سکتا۔ وہ کہتی کہ اگر وہ میری جگہ ہوتی تو روز نئے کپڑے پہنتی۔ میں ہنس کر کہتا ہوں ،خدا کا شکر ہے کہ ہم دونوں علیحدہ علیحدہ نقطہ نظر کے حامل ہیں لیکن اسے تسلی دیتے ہوئے آخر میں یہی کہتا ہوں کہ میں پرانے فیشن کا آدمی ہوں لیکن وہ فکر نہ کرے۔ آہستہ آہستہ ٹھیک ہوجائوں گا۔ وہ ناراض ہوتے ہوتے ہنس پڑتی ہے۔ پھر تاکید کرتی ہے کہ اس پینٹ کے ساتھ وہ والی قمیض پہننی ہے اور اس پینٹ کے ساتھ فلاں والی۔ آپ کا کوئی پتا نہیں کہ ان تین شرٹس کو بھی الٹا سیدھا پہن لیں۔ میں کہتا ہوں کہ یا تو ابھی سے ان کے جوڑے بنا کر رکھ دے یا پھر ایسی پینٹیں اور شرٹس دے جو ہر طرح پہنی جاسکیں۔ اس بار اس نے خلاف معمول دو پینٹیں اور چار شرٹس میرے بیگ میں رکھ دیں۔ میں نے اسے حیرانی سے دیکھا تو وہ کہنے لگی اس بار ایک بیگ تو صرف '' چھوٹو‘‘ کے کپڑوں کا ہے اور آپ کے بیگ میں ایک بھاری جیکٹ اور لمبا کوٹ رکھنا ہے۔ ایک عدد مفلر بھی رکھا ہے۔ ایک سیٹ '' تھرمل ‘‘ کا ہے۔ گرینڈ ریپڈز میں آج درجہ حرارت منفی تیرہ ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ پھر کہنے لگی شکر ہے وہاں گیس بھی مسلسل آتی ہے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی نہیں ہوتی۔
سفیان ہمارے گھر میں نئی جنریشن کا پہلا نمائندہ ہے اور اسد کے بعد آنے والا پہلا بچہ بھی۔ سارا گھر خوش ہے میں بھی خوش ہوں مگر یہ خوشی نامکمل سی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں ویسا خوش نہیں جیسا ہونا چاہیے تھا مگر میں اتنا خوش ہو نہیں سکتا جتنا کبھی ہوسکتا تھا۔ گھر میں اس دن کے بارے میں جو شخص سب سے زیادہ سوچتا تھا اور منتظر تھا وہی نہیں ہے۔ سالوں پہلے ایک روز کہنے لگی کومل پڑھنے کے لیے امریکہ چلی جائے گی۔پتا نہیں اس کی پڑھائی کب ختم ہوگی۔ میں اس کی شادی امریکہ جانے سے پہلے کردوں گی۔ پھر کہنے لگی خالد! امریکہ میں یہ پڑھائی ، ڈیوٹی اور گھر کا کام کرتے ہوئے بچوں کو کیسے سنبھالے گی۔ میں نے کہا جیسے سب لوگ سنبھالتے ہیں۔ میری طرف دیکھ کر بولی آپ اتنی آسانی سے اتنی سخت بات کیسے کرلیتے ہیں؟ نہ وہاں ملازم ، نہ کوئی سنبھالنے والا بزرگ، نہ نانی نہ دادی۔ بھلا ایسے میں بچے کہاں سنبھلتے ہیں ؟ میں نے کہا تم چلی جانا امریکہ ،بچے سنبھال لینا۔ ہنس کربولی اس مشکل بچے کو کون سنبھالے گا؟ پھر سنجیدہ ہوکر کہنے لگی آپ کو پتا ہے کہ میں امریکہ وغیرہ میں رہ ہی نہیں سکتی۔
مجھے سوائے حج کے کہیں بھی پاکستان سے باہر جانے کا شوق نہیں ہے۔ میں چار دن بھی باہر نہیں رہ سکتی۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ میں اسے جاکر اپنے ساتھ پاکستان لے آئوں اور دو چار سال اپنے پاس رکھوں۔ ذرا سمجھ دار ہوجائے تو امریکہ ماں باپ کے پاس بھجوادوں ۔ میں نے ہنس کر کہا کہ ایک کو چھوڑ آئوں اور اگلے کو لے آئوں ۔ جواباً ہنس کر کہنے لگی تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ میں ایک کو واپس بھجوائے بغیر بھی دوسرا لاسکتی ہوں۔ ویسے بھی وہاں کا ماحول کچھ زیادہ ٹھیک نہیں ۔ یہاں رہیں گے اللہ رسول کا نام لیں گے۔ اپنی تہذیب سیکھیں گے۔ برے بھلے میں تمیز کریں گے۔ اردو سیکھیں گے۔ رشتہ داروں میں رہیں گے رشتوں کا احترام سیکھیں گے۔ پھر ایک دم چپ ہوگئی۔ میں نے پوچھا اور کیا کیا کریں گے؟ کہنے لگی تب تک پتا نہیں میں کہاں ہوں گی؟ میں نے بات بدلنے کے لیے کہا اور اس مشکل بچے کو کون سنبھالے گا؟ کہنے لگی مشکل تو ہوگی مگر انسان بڑا سخت جان جاندار ہے۔ ہر حال میں زندگی گزارنا سیکھ لیتا ہے۔
جب میں نے سفیان کو گود میں اٹھایا تو اس کی ساری باتیں یاد آئیں۔ تھوڑی دیر تو یوں ہوا کہ مجھے سفیان کا چہرہ بھی صاف دکھائی نہ دیا۔ مگر یہ تھوڑی دیر کی بات تھی۔ اس نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ انسان بڑا سخت جان جاندار ہے۔ ہر حال میں زندگی گزارنا سیکھ لیتا ہے۔ لیکن اس کے لیے وہ بڑی بھاری قیمت ادا کرتا ہے۔ جانے سے محض سات دن پہلے اس نے گھر واپسی کے راستے میں کہا کہ آپ پر بڑا مشکل وقت آنے والا ہے لیکن میں کچھ بھی نہیں کرسکتی۔ مجھے تھوڑا بہت اندازہ تھا کہ مشکل وقت آئے گا لیکن یہ اندازہ بالکل نہیں تھا کہ اتنی جلد آئے گا اور اس قدر مشکل ہوگا کہ خوشیوں کا مفہوم ہی بدل جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں