"KMK" (space) message & send to 7575

کہانیوں جیسا کردار‘ میجر جیفری لینگ لینڈز

وہ 1917ء میں برطانوی قصبے ہُل میں پیدا ہوا۔ اس کی پیدائش کے اگلے ہی سال یعنی 1918ء میں اس کے والد کی انفلوائنزا سے موت واقع ہو گئی۔ تب انفلوائنزا ایک جان لیوا مرض تھا۔ وہ محض ایک سال کی عمر میں یتیم ہو گیا۔ اس کی بیوہ ماں پر اب اس سمیت تین چھوٹے چھوٹے بچوں کو پالنے کی ذمہ داری آن پڑی۔ یہ ایک نہایت ہی مشکل مرحلہ تھا جب کہ ان کی مالی حالت کچھ زیادہ بہتر نہیں تھی بلکہ صاف لفظوں میں خاصی خراب تھی۔ ایک اور آفت تب آن پڑی جب اس کی ماں کو کینسر جیسی جان لیوا بیماری نے آن گھیرا۔ ابھی وہ صرف دس سال کا تھا کہ اس کی ماں بیماری کے ہاتھوں جان سے گزر گئی۔ وہ دس سال کی عمر میں ماں اور باپ کی شفقت سے محروم ہو چکا تھا۔ تب کنگز کالج ٹانٹن کے ہیڈ ماسٹر نے‘ جو اس کے آنجہانی والد کا پرانا دوست تھا‘ اس کی ذمہ داری سنبھال لی اور اس کی تعلیم کی غرض سے اسے اپنے سکول میں مفت پڑھائی کی سہولت مہیا کردی۔ یہ اس کی زندگی کا نیا آغاز تھا۔
اس کا کہنا ہے کہ وہ زندگی کی حقیقت کو پا گیا تھا اور اس نے زندگی کو عین اسی طرح قبول کر لیا جس طرح کہ وہ تھی۔ تلخ اور مشکل۔ لیکن مثبت پہلو یہ تھا کہ مشکلوں بھری اور پرمشقت زندگی نے اس کو قنوطی یا تلخ بنانے کے بجائے حقیقت پسند بنایا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے زندگی سے خوش رہنا سیکھا‘ تب بھی جب حالات بڑے خراب تھے‘ ہر چیز غلط جا رہی تھی اور معاملات خرابی کی طرف رواں تھے‘ لیکن حالات کی یہ خرابی زیادہ دیر تک اپنا جبر مسلط نہ کر سکی۔ اس کی تعلیم مکمل ہوئی۔ اسے شروع سے استاد بننے کا شوق تھا اور تعلیم مکمل کرتے ہی اس نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بطور ریاضی کے استاد کے‘ کیا۔ وہ Crydon کے پبلک سکول میں پڑھاتا رہا؛ تاوقتیکہ دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہو گیا۔ وہ فوج میں بھرتی ہو گیا اور اس نے فورتھ کمانڈورجمنٹ جوائن کر لی۔ ریاضی کا استاد اب فوج میں کمانڈو تھا۔
دوران جنگ وہ مختلف محاذوں پر برسر پیکار رہا۔ 1942ء میں وہ ڈائپی (Dieppe) پر کیے جانے والے بری و بحری ہلاکت خیز حملے
میں شامل تھا۔ جنگ کے خاتمے پر اسے ہندوستان بھیج دیا گیا جہاں وہ رائل انڈین آرمی میں بطور میجر ٹریننگ دینے پر مامور تھا۔ وہ ہندوستان میں برطانوی فوج میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتا رہا حتیٰ کہ 1947ء آن پہنچا۔ ہندوستان تقسیم ہو کر بھارت اور پاکستان میں بدل گیا۔ رائل انڈین آرمی کے گورے افسروں کی غالب اکثریت برطانیہ چلی گئی۔ برطانوی افسروں کو رضاکارانہ طور پر بھارت یا پاکستان میں ایک سالہ تربیتی سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے سروس کرنے کی آفر دی گئی۔ میجر نے نوزائیدہ مملکت پاکستان میں نئی بننے والی فوج کو تربیت دینے کے لیے ایک سالہ رضاکارانہ سروس کی آفر قبول کر لی۔ اس آفر کے تحت میجر کو 1948ء میں واپس برطانیہ چلا جانا تھا مگر میجر پاکستان آرمی کو تربیت دینے میں مصروف رہا۔ اس دوران وہ مسلسل اس خیال میں رہا کہ اسے واپس برطانیہ چلا جانا چاہیے مگر اسی شش و پنج میں چھ سال گزر گئے۔ پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف نے میجر سے درخواست کی کہ وہ اپنے معلمی کے تجربے کو یہاں بروئے کار لاتے ہوئے سویلین حوالے سے خدمات سرانجام دے۔ میجر نے اس درخواست کو قبول کیا اور 1953ء میں ایچی سن کالج میں بطور استاد ذمہ داری سنبھال لی۔ یہاں وہ 1979ء تک مختلف درجوں کو پڑھاتا رہا۔ ایچی سن میں معلمی کے دوران عمران خان اور میر ظفر اللہ جمالی اس کے شاگرد رہے۔ ایچی سن کالج میں قریب پچیس سال تک پڑھانے کے بعد میجر کیڈٹ کالج رزمک میں چلا گیا۔ ایک سال تک رضاکارانہ سروس کرنے کے ارادے سے تقسیم کے بعد 1947ء میں پاکستان رہ جانے والے میجر کو پاکستان میں رہتے ہوئے بتیس سال ہو گئے تھے۔
1988ء میں میجر کو قبائلیوں نے تاوان کی غرض سے اغوا کر لیا۔ بقول میجر اغوا کار انہیں ساڑھے چھ گھنٹے تک پیدل چلواتے ہوئے اپنے گائوں میں لے گئے۔ جب میں جھونپڑے میں داخل ہوا تو وہاں پہلے سے ہی تین مغوی موجود تھے۔ میں کئی ماہ تک اغوا کاروں کی تحویل میں رہا۔ میں وہاں وی آئی پی تھا۔ فوج گائوں پر صرف اس لیے حملہ نہیں کرتی تھی کہ اس طرح خود ان کی جان کو خطرہ تھا۔ میجر کی رہائی کے لیے بڑوں کا ایک جرگہ تشکیل دیا گیا۔ جرگے نے اغواکاروں کو صاف لفظوں میں بتا دیا کہ انہیں پرنسپل کو بہرحال چھوڑنا پڑے گا۔ اغوا کاروں نے جب کوئی راستہ نہ پایا تو وہ میجر کو صرف ایک شرط پر رہا کرنے پر آمادہ ہو گئے کہ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ میجر رہا ہو کر واپس آیا تو سیدھا اپنے سکول گیا اور اپنی ذمہ داریاں نبھانا شروع کردیں۔ میں بتانا بھول گیا کہ تب میجر چترال میں ایک پبلک سکول کے پرنسپل کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔
کیڈٹ کالج رزمک (خیبر پختونخوا‘ تب شمال مغربی سرحدی صوبہ) میں بطور ہیڈماسٹر قریب نو سال تک اپنے فرائض ادا کرنے کے بعد میجر نے 1988ء میں Syuraj پبلک سکول چترال کے پرنسپل کے طور پر ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔ جب میجر نے چترال میں سکول کو سنبھالا تب یہاں طلبہ کی تعداد محض اسی تھی۔ ان میں لڑکیاں بھی تھیں اور لڑکے بھی۔ پانچ سے دس سال کی عمر تک کے۔ میجر ہر سال سکول میں ایک کلاس کا اضافہ کرتا رہا۔ میجر کا زیادہ زور لڑکیوں کی تعلیم پر تھا۔ 2008ء میں جب میجر پر فالج کا حملہ ہوا تب کالج کے طلبہ کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ تھی جس میں ایک تہائی لڑکیاں تھیں۔ 2008ء میں فالج حملے کے بعد میجر نے کالج کے لیے کسی نئے پرنسپل کی تلاش شروع کی۔ میجر اس سلسلے میں کسی نوجوان برطانوی فوجی افسر کی تلاش میں تھا مگر اسے اس میں ناکامی ہوئی۔ وہ اپنے کالج کے لیے انتظامی حوالوں سے برطانوی فوجی افسر چاہتا تھا تاکہ کالج کے معاملات اسی طرح بخیر و خوبی چلتے رہیں۔ اس دوران اس نے ہمت نہ ہاری مگر پاکستان میں دہشت گردی اور امن و امان کی خراب ترین صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی شخص پاکستان میں اور پھر آگے چترال جیسے دور دراز علاقے میں آنے پر آمادہ ہی نہیں تھا۔ مزید یہ کہ برطانیہ چھوڑ کر پاکستان آنا اور اوپر سے تنخواہ بھی محض پینتیس ہزار روپے ماہانہ یعنی دو سو پونڈ ماہانہ سے کچھ زیادہ۔ بھلا کون پاگل تھا جو اس تنخواہ پر اور ان حالات میں چترال آتا۔ مگر میجر مایوس نہیں تھا۔ بالآخر اس کی تلاش رنگ لائی اور 2012ء میں جب میجر کی عمر پچانوے سال ہو چکی تھی ایک برطانوی صحافی‘ کئی کتابوں کی مصنفہ اور برطانیہ میں کئی پرائمری سکولوں کی گورنر اٹھاون سالہ مس کیری شو فیلڈ نے چترال جیسے پس ماندہ اور دور دراز علاقے میں ''لینگ لینڈز سکول اینڈ کالج چترال‘‘ کی پرنسپل کے طور پر اپنے فرائض کا آغاز کیا۔ کالج کا نام Syrus پبلک سکول سے تبدیل کر کے اپنے بانی میجر جیفری ڈگلس لینگ لینڈز کے نام پر رکھ دیا گیا تھا۔ پانچ پائونڈ ماہانہ سے کریون کے ایک پبلک سکول میں بطور استاد اپنی عملی زندگی کا آغاز کرنے والے میجر جیفری ڈی لینگ لینڈز جب 2012ء میں قریب پچھتر سالہ عملی زندگی گزارنے کے بعد پچانوے سال کی عمر میں ریٹائر ہوا تو اس کی تنخواہ تقریباً ایک سو ساٹھ برطانوی پائونڈز کے لگ بھگ یعنی تقریباً پچیس ہزار پاکستانی روپے تھی۔ ساری عمر مجرد زندگی گزارنے والے لینگ لینڈز کے بقول یہ تنخواہ اس کے لیے کافی تھی۔
میجر لینگ لینڈز کو برطانیہ یاد تو آتا ہے مگر اس کے نزدیک اب برطانیہ میں اس کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ چترالی ٹوپی پہنتا ہے۔ اس میں پر ٹانکتا ہے اور چترال سے محبت کرتا ہے۔ جس روز میجر ریٹائر ہوا طلبہ و طالبات نے اس کے اعزاز میں ایک الوداعی پارٹی کا بندوبست کیا۔ طلبہ و طالبات نے اسے تحفے دیے۔ پچانوے سالہ میجر لینگ لینڈز نے روایتی چترالی ڈانس کیا اور چارج برطانیہ سے آنے والی صحافی‘ مصنفہ اور ماہر تعلیم کیری شو فیلڈ (Carey scho field) نے سنبھال لیا۔ مس شوفیلڈ نے کئی کتابیں تحریر کیں اور اس کا مرکزی موضوع عسکری معاملات تھا۔ وہ پاکستان کے بارے میں لکھی گئی کتاب "Inside the Pakistan Army" کی مصنفہ ہے۔ میجر لینگ لینڈز اپنے کالج کا انتظام مس شو فیلڈ کے حوالے کرنے کے بعد مطمئن ہے کہ اس کا کالج اب محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ کالج کا بندوبست کرنے کے بعد میجر لینگ لینڈز مطمئن ہو کر واپس لاہور آ گیا جہاں ایچی سن کالج والوں نے اس کے لیے ایک کمرے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ پچانوے سالہ سدا کے کنوارے جیفری لینگ لینڈز نے جس جانفشانی‘ محنت اور محبت کے ساتھ پاکستان میں تعلیم اور خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اپنی زندگی وقف کی تھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ میجر لینگ لینڈز کے سکول کی فیس کا چترال کے مقامی سکولوں سے بھی موازنہ کیا جائے تو بھی فیس اتنی کم ہے کہ حیرانی ہوتی ہے۔ لینگ لینڈز کے نزدیک تعلیم کاروبار نہیں‘ خدمت ہے اور استاد ہونا پیشہ نہیں‘ جذبہ ہے۔
بالکل ویسے ہی جیسے بقول رسکن "Army is not a profession, it is a sacrifice"۔ مگر ہمارے ہاں ہر چیز پیسہ کمانے کا ذریعہ ہے۔ نوکری صرف ذریعۂ معاش ہے۔ تعلیم کاروبار ہے اور خدمت ذریعہ روزگار۔ میجر لینگ لینڈز جیسے کردار اب کہانیوں اور کتابوں میں رہ گئے ہیں۔ کہانیوں جیسے یہ کردار بہرحال زندہ رہنے چاہئیں۔ یہ کردار امید بھی ہیں اور امید کو زندہ رکھنے کا ذریعہ بھی۔ تین ماہ پہلے والے میجر لینگ لینڈز کے ٹوئٹر نے مجھے لینگ لینڈز سے متعارف کروایا اور میں یہ قرض آج اتار رہا ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں